مکہ میں قیام کے دوران میرے قریب بوڑھے میاں بیوی کے ساتھ ان کی جوان بہو کا قیام تھا۔ ساس اور بہو کے درمیان طویل لڑائی ہوتی تھی۔ شکست اکثر بہو کی ہوتی تھی۔ ہارنے کے بعد وہ روتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوتی اور ساس سے کہتی۔
“اچھا تو تم نے جتنا ظلم کرنا ہے کر لو‘ میں ابھی طواف کرتی ہوں اور اللہ کے پاس اپنی فریاد پہنچاتی ہوں“۔ یہ دھمکی سن کر ساس پسیج جاتی، معافی مانگتی اور کہتی کہ طوف کے وقت جو منہ سے نکل جائے پورا ہو جاتا ہے۔
ایک روز شدید آندھی آئی اور تیز بارش ہونے لگی۔ نالے کے کنارے مقیم حاجیوں کا سامان کیچڑ میں لت پت ہو گیا۔ ساس نے بہو کی چوٹی پکڑ کر جھنجھوڑا اور بولنے لگی۔
“یہ حرام زادی کہہ رہی تھی، اللہ بڑی گرمی ہے۔ اللہ بارش، اللہ بارش، تمہیں پتا نہیں یہاں ہر دعا قبول ہو جاتی ہے۔“
ذرا ہٹ کر ایک جوان بے اولاد جوڑے کا بسیرا تھا۔ پہلے طواف کے بعد بیوی نے بڑے وثوق سے کہا کہ اِس نے اپنے خداوند تعالٰی سے بچہ مانگا ہے اور اس کی یہ مراد ضرور پوری ہو گی۔
“لڑکا مانگا تھا یا صرف بچہ“ خاوند نے وکیلوں کی طرح جراح کی۔
“لڑکے کی بات تو میں نے نہیں کی ، فقط بچہ مانگنے کی دعا کی۔“ بیوی نے جواب دیا۔
“رہی نا اونٹ کی اونٹ!“ خاوند بگڑ کر بولا۔
اب اللہ کی مرضی ہے چاہے لڑکی دے یا چاہے لڑکا دے۔ اب وہ تجھ سے پوچھنے تھوڑی آئے گا۔اس وقت اگر لڑکے کی شرط لگا دیتی تو لڑکا ملتا۔ یہاں مانگی ہوئی دعا کبھی نا منظور نہیں ہوتی۔“ یہ سن کر بیوی کف افسوس ملنے لگی۔
پھر چہک کر بولی۔ “تم فکر نہ کرو، ابھی بہت طواف باقی ہیں ۔ اگلی بار اپنے خداوند کو لڑکے کے لئے راضی کر لوں گی۔“
ان سیدھے سادے مسلمانوں کا ایمان اس قدر راسخ تھا کہ خانہ کعبہکے گردطواف کرتے ہوئے وہ کوہ طور کی چوٹی پر پہنچ جاتے اور اپنے حقیقی معبود سے رازونیاز کر کے نفس مطمئنہ کا انعام پاتے اور بڑی بے تکلفی سے اپنی اپنی فرمائش رب کعبہ کے حضور پیش کرکے کھٹا کھٹ مہر لگوا لیتے تھے۔ ان کے مقابلے میں مجھے اپنی عمر بھر کی نمازیں، اپنے طواف اور دعائیں بے حد کھوکھلی ، سطحی، بے جان، نقلی، اور فرضی نظر آنے لگیں۔ میرا جی چاہتا تھا کہ میں اس لڑاکا ساس اور بہو اور اس نوجوان کی بے اولاد بیوی کے پاؤں کی خاک تبرک کے طور پر اپنے سر پر دال لو تا کہ کسی طرح مجھے بھی ان کے یقین محکم کا یاک ذرہ نصیب ہو جائے۔
( خود نوشت = قدرت اللہ شہاب کی کتاب= شہاب نامہ)
0 تبصرے:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔