بعض باتیں کافی دلچسپ ہوتی ہیں!!! لڑائیاں بھی!!!مار بھی!!! بچپن میں جو پہلا جھگڑا میرا ہوا تھا اس میں میں مار کھا کر آیا تھا!!! پھر گھر آ کر مار کھائی گھر آنے پر پہلا سوال یہ ہوا کہ بھائی غلطی کس کی تھی جب بتایا کہ دوسرے کی تو اگلی کاروائی ہوئی کہ اگر لڑائی ہوئی تھی تو میں مار کھانے والا کیوں بنا مارنے والا کیوں نہیں!!! اس کے بعد پھر کبھی لڑائی نہ ہوئی!! پھر جب ہم آٹھویں جماعت میں تھے ایک دن ابو نے اپنے سگریٹ لینے کے لئے دکان ہر بھیجا نیا نیا شوق ویڈیو گیم کا چڑھا ہوا تھا کوئی ماہ دو ماہ ہوئے ہوں گے!!! لہذا ویڈیو گیم کی دکان میں جا کھڑے ہوئے!!! گیم دیکھنے (چونکہ ابھی اُس میں ماہر نہیں ہوئے تھے) میں اس قدر مگن کہ کچھ خبر ہی نہیں ، ایک لڑکا پاس آیا کہنے لگا آپ کی جیب میں پچاس روپے تھے؟ جو جیب دیکھی تو ابو کے دیئے ہوئے پیسے غائب تھے!!! فورا کہا ہاں یار تمہیں کیسے پتا؟؟ کہنے لگا وہ لڑکا نکال کر لے گیا ہے!!! میں نے جا اس لڑکے کو کہا “تم نے میری جیب سے جو پیسے نکالے ہیں وہ واپس کرو“ وہ انکاری ہو گیا!!! اور میرا ہاتھ غصہ سے اُٹھ گیا، اور لڑائی شروع ہو گئی بمشکل مار کھانے سے بچے!!! معاملہ پچاس روپے سے ذیادہ ابو کی ڈانٹ (ومار) کا خوف تھا!!!! آس پاس موجود لڑکوں نے اُس لڑکے کی پٹائی کرنے پر داد تو دی مگر ساتھ ہی یہ کہہ کر جان نکال دی کہ اس کا بھائی تو “فلاں“ پارٹی کا ہے اب تیری خیر نہیں!!!! پچاس کا نوٹ اُس لڑکے سے تو نہیں ملا مگر گیم کی دکان کے مالک نے مجھے اپنے پاس بلا کر پچاس کا نوٹ دے دیا اور کہا کہ اُس لڑکے کے واپس آنے سے پہلے پہلے میں وہاں سے نکل جاؤ!!! کہ غالب انکان ہے کہ وہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ آ سکتا ہے!!! لہذا ہم وہاں سے فرار ہو کر گھر لوٹ آئے!! گھر میں امی اور بہنوں نے تو ہماری حالت کا پوچھا تو ہم ٹال گئے البتہ ابو نے اُس کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا!!! شام میں دوستوں سے اس جھگڑے کا ذکر کیا تو اُں کے بیانات خون خشک کر دینے والے تھے!!! کہ وہ لڑکا تو جب تک بدلہ نہیں لیتا معاف نہیں کرتا!!! لہذا اگلے دن ہم نے چھٹی کر لی!!! اور اُس دن شام میں کھیلنے جانے سے پہلے ابو نے گزرے دن ہماری خراب حالت کے بارے میں پوچھ لیا!!! ہم نے ساری بات صاف صاف بتا دی!!! والد صاحب نے باقی باتیں تو جیسے سنی ہی نہیں اور گیم کی دکان پر جانے سے منع کر دیا اور “عزت“ (سمجھ گئے ہوں گے) کی گیم کی دکان پر جانے پر!!! “عزت“ سے فارغ ہو کر بس اتنا کہا کہ کل اسکول لازمی جانا ار اُس لڑکے سے ڈرنے والی کوئی بات نہیں اگر لڑائی کرے تو کسی خوف میں مبتلا ہوئے بغیر اُس کی پٹائی کر دینا اور اُس کا بھائی اُس کے ساتھ ہو تو اُس سے کہہ دینا کہ میرا آپ سے کوئی جھگڑا نہیں !!! اتفاق ایسا ہوا کہ اگلے دن وہ وہ صاحب ہمیں اپنے اسکول کے باہر “آدھی چھٹی“ میں مل گئے مگر اس نے مجھے سے کوئی بات نہیں کی!!!!
نویں جماعت میں تھے کہ ہماری کلاس کا جھگڑا دسویں کلاس سے ہوا!!! دونوں کلاسوں میں کافی ٹھیک ٹھاک قسم کا جھگڑا ہوا!!! ہماری شرٹ کی جیب پھٹ گئی دوسرا گلی کے ایک لڑکے نے اس جھگڑے کا تمام احوال گھر میں بتا دیا!!! اب کے ہمیں اس لڑائی کی وجہ سے ابو سے مار پڑی کہ اسکول مجھے پڑھنے کے لئے بھیجا جاتا ہے اِس کام کے لئے نہیں!! دوسرا میں غلط بعد پڑ جھگڑا ہوں!!!
اُس دن کے بعد ہم کسی بھی معاملہ میں اُس وقت تک لڑائی میں نہ پڑتے جب تک یہ یقین نہ ہو جائے کہ میں ٹھیک طرف ہوں!!!! ویسے والد سے کیا کبھی آپ کو مار پڑی ؟؟؟؟مجھے ڈانٹ تو پڑتی رہتی ہے!!! مجھے آخری بار ابو نے کوئی تین برس پہلے (تھپڑ) مارا تھا !!! ڈانٹ تو کوئی ایک ماہ ہو گیا پڑی ہے!!! اور سچی بات ہے اُن کی یہ ڈانٹ و مار میری زندگی کا سرمایہ ہیں!!! انہوں نے کبھی بھی بلاوجہ ایسا نہیں کیا!!! والدین کی مار مار نہیں ہوتی تربیت ہوتی ہے وہ کھا لینا ہی اچھاہے
2 تبصرے:
ابو تو پیدائش سے پہلے گزر چکے تھے۔ البتہ میری امی ذرا ذرا سی بات پر بہت مارا کرتی تھیں۔ میری امی مارتے وقت یہ نہیں دیکھتں کہ ان کے ہاتھ میں کیا ہے۔۔۔ اگر ہم نے کوئی حرکت کی اور امی کپڑوں کی سلائی میں مصروف ہوتیں تو ہمیں قینچی سے مارتیں ، اگر ہم پڑھ رہے ہوتے تو تختی سے اور جب کچن میں ہوتیں اور ہماری کسی شرارت کا پتہ چل جاتا تو چمٹے سے مارتیں تھیں
گلی کوچوں، میں تو ہمیشہ مار ہی کھائی یا پھر اماں جی کے مکے۔
لیکن حیرت ہوئی یاد کرنے پر ابا جی سے مار نہیں کھائی!!۔
ویسے مارنے کی نسبت مار کھانے کی ہمت ہونے چاھئے۔۔۔۔جاننے والے پنگا لینے سے پہلے سوچیں گے ضرور؛ڈ
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔