جب سے حکومت و صوفی محمد میں معاہدہ ہوا ہے یار لوگوں نے خیالات کے گھوڑے ڈوڑانا شروع کر دیئے ہیں کسی نے حمایت کی اور کوئی مخالف ہے۔ معاملات کو اُس وقت تک سمجھنا ناممکن ہو گا جب تک فریقین کے درمیان ہونے والے معاہدہ و اُس کے نتیجے میں جاری ہونے والے نظام عدل کا نہ دیکھ لیا جائے!!
معاہدہ کے اعلان پر کُل نو افراد کے دستخط ہیں، جن میں چھ (صوبائی) حکومت کے نمائندے اور تین تحریک تنظیم نفاذ شریعت کے ممبران کے! دلچسپ یہ ہے کہ ملکی تاریخ میں یہ انوکھا واقعہ ہے کہ حکومت وقت نے ایک ایسی تنظیم سے معاہدہ کیا جسے وہ کالعدم قرار دیتی ہے۔
اگر اعلان کے متن کو دیکھے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ نیا عدالتی نظام رائج کیا جائے گا!
“ملاکنڈ ڈویژن بمشول ضلع کوہستان ہزارہ کے نظام عدالت کے تعلق میں جتنے غیر شرعی قوانین یعنی قرآن اور حدیث کے خلاف ہیں وہ موقوف اور کالعدم تصور ہونگے یعنی ختم ہونگے۔ اسی نظام عدالت میں شریعت محمدی جس کی تفصیل اسلامی فقہ کی کتابوں میں موجود ہے اور اس کے ماخذ چار دلائل ہیں، کتاب اللہ، سنت رسول، اجماع، قیاس و جو اب بافذالعمل ہونگے اس کے خلاف کوئی فیصلہ قبول نہیں ہو گا۔ اس کی نظرثانی یعنی اپیل کی صورت میں ڈویژن کی سطح پر درالقضاء یعنی شرعی عدالت بینچ قائم کر دیا جائے گا جس کا فیسلہ حتمی ہو گا۔“
یعنی دونوں فریقین ضلعی سطح پر نظرثانی کے لئے حتمی عدالت کے قیام پر متعفق ہیں جسے وہ دارلقضاء کا نام دیا گیا!۔ نیا نظام عدل حکومت تنہا لاگو نہیں کرے گی درج ہے کہ
“حضرت صوفی بن حضرت حسن کے باہمی مشورے سے عدالتی شرعی نظام کے ہر نقطے پر تفصیلی غور کرنے کے بعد اس کا مکمل اطلاق ملاکنڈ ڈویژن بمشول ضلع کوہستان ہزارہ میں امن قائم کرنے کے بعد باہمی مشورے سے کیا جائے گا۔“
مطلب یہ کہ جو بھی عدالتی نظام نافذ ہو گا وہ جناب کے مشورے سے ہو گا! اور شرط امن ہے شاید تب ہی امن ہو گیا! اس اعلان کے علاوہ کسی اور دستاویز پر میرے علم کے مطابق دونوں فریقین میں سے کسی نے کوئی دستخط نہیں کئے!! لہذا غیر مسلح ہونے والی بات نامعلوم کیوں کی جاتی ہے؟ کہیں اور باتیں بھی منسوب کی جاتی ہیں اگر کوئی ہے تو منظرعام پر کیوں نہیں لایا جاتا؟
اب اگر اس اعلان (معاہدہ) کے نتیجے میں نافذ ہونے والے “نظام عدل ریگولیشن“ پر ایک نظر ڈالے تو بھی کافی دلچسپ باتیں سامنے آتی ہیں! مثلا دفعہ 2 (b) کے تحت “دارلدارلقضاء“ سپریم کورٹ کے بنچ کو کہا گیا! دفعہ 2 (c) کے تحت “دارلقضاء“ دراصل ہائی کورٹ کا بنچ ہو گا! دفعات ذیل میں ہیں!
دفعہ 2 (b)
دفعہ 2 (c)
دفعہ 2 (g) کے تحت جج کو قاضی کہا گیا ہے، اس دفعہ کی روشنی میں District and Sessions Judge کو ضلع قاضی، Additional District and. Sessions Judge کو اضافی ضلع قاضی، Senior Civil Judge/Judicial کو اعلیٰ علاقہ قاضی اور Civil Judge/Judicial Magistrate کو علاقہ قاضی کہا جائے گا! یوں درحقیقت ایک طرح سے لگتا ہے کہ یہ انگریزی اصلاحات کو اردو ترجمہ کیا گیا! مگر اصل اضافی خاصیت (لازمی نہیں) جو اس رکھی ہے جج (قاضی) کے لئے وہ یہ کہ اُس نے شریعہ کا کورس کیا ہو دفعہ 6 (1) میں درج ہے
اور دفعہ 2 (h) میں یہ بیان کر دیا گیا ہے تسلیم شدہ ادارے سے مراد وہ ادارہ جو بین الاقوامی اسلامک یونی ورسٹی آردینس 1985 کے تحت بنے یا کوئی بھی دوسرا ادارہ جسے حکومت تسلیم کرتی ہو! اورقاضی اپنے فیصلوں کے سلسلے میں نہ صرف دیگر قوانین (جن کی فہرست نظام عدل ریگولیشن کے شیڈول اول کے کالم دو میں دی گئی ہے) کا پابند ہو گا بلکہ دفعہ 9 (1) کے تحت وہ پابند ہو گا کہ وہ کیس کا فیصلہ قرآن کریم، سنت رسول، اجماع اور قیاس کی روشنی میں کرے دفعہ میں درج ہے!
اور (قاضی) عدالتی کاروائی کی جانچ پرتال دفعہ 6 (3) کے تحت دارلقضاء (ہائی کورٹ) اور ضلع قاضی ماتحت عدالتوں کرے گے! یاد رہے قاضی عدالتوں کا قیام دفعہ 5 کے تحت عمل میں آئے گا اور دفعہ 11 کے تحت نظام عدل کے نفاذ کے بعد جتنی جلد ممکن ہو حکومت عدالتیں قائم کرے گی (جو قائم ہو چکی ہیں بس دارلقضاء کا قیام باقی ہے جس کی پہلے آخری تاریخ 23 اپریل تھی اب مزید وقت بڑھا دیا گیا ہے)۔ اور دفعہ 12 کے تحت دارلقضاء کے فیصلوں کے خلاف اپیل دارلدارلقضاء (سپریم کورٹ) کے پاس ہو گی دفعہ میں درج ہے
اس قانون کی دفعہ 19 کے تحت نظام عدل کے نفاذ کےساتھ ہی ضابطہ فوجداری آرڈینس 2001 ختم ہو جائے گا اور مزید جو میرے لئے دلچسپ تھا کہ سابقہ شرعی نظام عدل ریگولیشن 1999 بھی ختم یعنی کہ پہلے بھی جو قانون نافذ تھا اُس کا نام شرعی نظام عدل ہے!
“نظام عدل ریگولیشن“ کا اطلاق آئین پاکستان کے آرٹیکل 247 کے تحت عمل میں آیا ہے! یاد رہے آئین کے آرٹیکل 246 کے تحت سوات کا شمار “قبائیلی علاقے“ میں کیا جاتا ہے۔ اور آرٹیکل 247 قبائیلی علاقوں میں انتظامی امور سےمتعلق ہے۔ آرٹیکل 247 (3) میں صاف درج ہے کہ مجلس شورٰی (پارلیمنٹ) و صوبائی اسمبلی کے دار اختیار سے وفاقی و صوبائی قبائیلی علاقے باہر ہیں اور صوبے کا گورنر صدر کی ہدایت یا اجازت سے کوئی قانون یا حکم کسی قبائلی علاقے پر نافذ کرے گا!
مزید آرٹیکل 247 (4) کے تحت صدر کسی ایسے معاملے سے جس کے متعلق پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہو اور گورنر صدر کی اجازت سے کسی اسے معاملے سے جس کے متعلق صوبائی اسمبلی کو قانون سازی کا اختیار ہو ایک ریگولیشن بنا کرصوبائی قبائلی علاقے میں لاگو کر سکتا ہے! (اس سلسلے میں پارلیمنٹ یا صبوبائی اسمبلی کی اجازت کی ضرورت نہیں)۔
اور ایسا ہی اختیار وفاقی قبائلی علاقوں سے متعلق صدر کو آرٹیکل 247 (5) کے تحت حاصل ہے۔ یاد رہے آرٹیکل 247 (3) (4) کے تحت ہی نظام عدل ریگولیشن کا نفاذ عمل میں آیا ہے! اور آرٹیکل 247 کے تحت بنائے جانے والے اور نافذ کئے جانے والے حکم سے متعلق پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی سے تو نہیں البتہ متعلقہ قبائلی علاقے کے رہائشیوں کی مرضی معلوم کرنا ضروری ہے آرٹیکل 247 (6) میں درج ہے۔
لہذا صدر کا اس ریگولیشن کو اسمبلی میں پیش کرنے کا مقصد اسے ایکٹ آف پارلیمنٹ بنانا نہیں بلکہ بین الاقوامی دباؤ سےبچنے کا ایک راستہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ ریگولیشن جاری کرنے کے لئے پارلیمنٹ سے اجازت کی ضرورت نہیں مگر اب یہ کہ جا سکات ہے کیا کریں پارلیمنٹ نے اسے منظور کیا ہے! ورنہ یہ مکمل صدر کا صوابدیدی اختیار تھا۔
اچھا ایک اور دلچسپ بحث ملک میں متوازی عدالتوں کے قیام سے متعلق سننے کو ملتی ہے کہ حکومت کی رٹ قائم نہیں رہتی اور الگ عدالتی نظام رائج ہو رہا ہے! اس سلسلے میں آئین کا آرٹیکل 247 (7) دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے اُس میں درج ہے
یعنی آئین پاکستان پہلے ہی کہہ رہا ہے سپریم کورٹ و ہائی کورٹ اپنے اختیارات قبائیلی علاقوں میں استعمال نہیں کر سکتے۔ سوائے اس کے کہ پارلیمنٹ اس سے متعلق کوئی راہ نہ نکالے۔۔۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے کیا رزلٹآتا ہے؟ حکومت نے نظام عدل کے ذریعے ہائی کورٹ (دارلقضاء) اور سپریم کورٹ (دارل دارلقضاء) کا اختیار سماعت ملاکنڈ ڈویژن بمشول ضلع کوہستان ہزارہ تک قائم کیا ہے مگر صوفی محمد سے ہونے والے معاہدہ (اعلان) کی روشنی میں دارلقضاء وہ شرعی عدالت ہوگی جو ملاکنڈ ڈویژن بمشول ضلع کوہستان ہزارہ کی سب سے بڑی عدالت ہو گی۔ فیصلہ وقت پر ہے ۔
5 تبصرے:
یہ پورے پاکستان میں کب لگے گا
یہ ہوا نا کام قانونی ماہروں والا ۔ یہ بذریہ ای میل نعمان یعقوب کو بھیج دیں وہ اس کے خلاف بہت شور کر رہا تھا
نظام عدل معاہدے کا اہم سقم یہ ہے کہ دارلقضا دارلقاضا نامی ادارہ سپریم ہوگا مگر اس سے مراد سپریم کورٹ آف پاکستان نہیں بلکہ یہ ڈویژن کی سطح کا سپریم کورٹ ہوگا جس کے فیصلے کے خلاف اپیل پاکستان کے سپریم کورٹ میں نہیں کی جاسکتی۔ کسی ملک میں دو سپریم کورٹ بھی ہوتے ہیں جو دو الگ الگ مجموعہ قوانین کے تحت فیصلے کرتے ہوں؟
ایک بات جو کئی بار دہرائی جاچکی اور نظرانداز کی جاچکی ہے وہ یہ ہے کہ اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ کونسے پاکستانی قوانین غیر اسلامی ہیں اور جو اب صوفی محمد کی ریاست میں لاگو نہیں ہونگے؟ مثال کے طور پر پاکستانی بینکوں کو سودی کاروبار ریاست سوات اور مالاکنڈ ڈیویژن میں غیر اسلامی قرار دیا جاسکتا ہے۔
اگر یہ عدالتیں پاکستان کے آئین کے ان غیر اسلامی قوانین کو رد کرتی ہیں۔ تو اس کا ایک اور آسان حل ان قوانین کو سپریم کورٹ کی شریعت بنچ میں چیلنج کرنا ہے کیونکہ پاکستان کے آئین کے مطابق پاکستان میں ایسی قانون سازی نہیں کی جاسکتی جو اسلام سے مطابقت نہ رکھتے ہوں۔
اسطرح ایک مخصوص علاقے کے مخصوص طبقہ فکر والے علماء دین کو یہ اختیار حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ باقی پاکستان سے مختلف ایک ریاست قائم کرسکیں۔ جہاں ایک مختلف طرز فکر کے تحت وہ اپنی زندگی گزار سکیں۔
یہ اختیار پاکستان کے آئین سے متصادم ہے۔ کیونکہ آئین پاکستان تمام شہریوں کو یکساں مساوی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ لیکن اس قانون کے نفاذ کے بعد پاکستان کے ایک علاقے میں رہنے والے لوگوں کے حقوق کا تعین شرعی عدالتیں اور دوسرے علاقے میں رہنے والے لوگوں کے حقوق کا تعین آئین پاکستان کرے گا۔
یہ دو سپریم کورٹ والی کہانی بھی آپ نے خوب کہی ہے! آپ کے علم میں شاید FCRنہیں ہے !! یہ قریب سوا سو سال سے قبائیلی علاقوں میں رائج ہے اور اس کے قوانین کے خلاف ہائی کورٹ و سپریم کورٹ میں کوئی اپیل نہیں وہسکتی! وجہ یہ جو میں اوپر بین کر چکا کہ پاکستان کا آئین یہ کہتا ہے پارلیمنٹ ان علاقوں پر اثر انداز نہیں ہو سکتی! سپریم کورٹ کو دائرہ اختیار حاصل نہیں! نیز صرف صدر یا گورنر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ریگولیشن بنا کر نافذ کریں وہ بھیاُن کے جرگہ کی مشاورت سے یہ میں نہیں آئین کے آرٹیکل 247 میں درج ہے آپ خود پڑھ لیں اوپر لنک دیا ہے!
سود کو تو خود پاکستان کی سپریم کورٹ نے غیر اسلامی قرار دیا ہے!! وہ تو وفاق نے نظرثانی کی اپیل میں اسے ختم کرنے کے لئے وقت لیا ہوا ہے! اب صوفی محمد کو کیوں قصور وار ٹھہرا رہے ہے! باقی یہ مسلکی جنگ میں نہ پڑے!!! اس پر میں تفصیل سے لکھو گا ایک دو ہفتوں میں اگر وقت ملا تو!!
behtreen kam kara hai ..
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔