اردو بلاگرز کی ایک ملاقات (اس کے بعد بھی دو ہو چکی ہیں) سے دو گھنٹے قبل فہیم آن لائن ملا پوچھے لگا “تو آپ پدھار رہے ہیں“ میرا جواب تھا نہیں میں آرہا ہو! اس میں آپ کو یقین کوئی حیرت انگیر یا ہٹ کر بات نظر نہیں آئے گی! اور یقین آپ درست ہیں کہ اُس نے وہ ہی پوچھا تھا جس کا میں نے جملے کا منفی آغاز کر کے مثبت جواب دیا مگر کئی مرتبہ اصل زندگی میں اس سے ایک دلچسپ صورت حال پیدا ہو جاتی ہے!
اس سلسلے میں چند اپنے وکالت کے قصے شیئر کرنے سے قبل ایک لطیفہ آپ کے گوش گزار کرتے ہیں!
ایک شخض اپنے بیٹے کو کان سے پکڑ کر اُس کے انگریزی کے اُستاد کے پاس لائے اور گویا ہوئے “میں نے اپنے بیٹے کو آپ کے پاس اس لئے ٹیوشن پر رکھا تھا کہ میں نے آپ کی تعریف سُنی تھی اور سوچا آپ کے پاس یہ آئے گا تو کچھ انگریزی سیکھ لیں گا آج چار ماہ بعد میں نے اس کا پہلی مرتبہ ٹیسٹ لیا اور یہ نالائق انگریزی جملے کا ترجمہ بتانے سے قاصر ہیں“ استاد محترم کافی پریشان ہوئے کہنے لگے “اچھا! چلیں آپ میرے سامنے پوچھے“ بندہ اپنے بیٹے سے مخاطب ہوا! “چلو بتاؤ I don't know کا مطلب کیا ہے؟“ لڑکے نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا “میں نہیں جانتا“ وہ بندہ اُستاد سے مخاطب ہوا “دیکھا آپ نے اِسے نہیں آتا“ اب اُستاد کا جواب کیا تھا یہ آپ خود ہی سوچ لیں!
بہر حال ایسے ہی چند قصے ہماری اس چھوٹی سی وکالت کی پیشہ ورانہ زندگی کے بھی ہیں!
ایک فیملی کیس پری ٹرائل پر تھا پری ٹرائل کیس (جس میں خاتون خلع کے لئے عدالت سے رجوع کرتی ہے) میں وہ اسٹیج ہوتی ہے جس میں جج دونوں فریقین کو اپنے چیمبر میں آمنے سامنے بیٹھا کر اُن میں صلح کی ایک کوشش کرتا ہے کہ گھر بچا رہے! اور ناکامی کی صورت میں نکاح ختم قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس موقع پر ایک ہی صورت ہے جو معاملہ کو لٹکاسکتی ہے وہ یہ کہ مرد کہہ دے کہ میں نے خاتون (بیوی) کو حق مہر ادا کر دیا ہے پھر عدالت عورت کو پابند کرتی ہے کہ وہ حق مہر واپس کرے گی تو نکاح ختم کردیا جاتا ہے! ورنہ اس معاملہ پر کیس چلتا ہے کہ مرد وعورت میں کون سچ کہہ رہا ہے۔ ایسے ہی ایک پری ٹرائل میں سینئر نے مرد (وہ گھر بچانے کا آرزو مند تھا) کو کہا اگر بیوی صلح نہ کرے تو جج کے پوچھنے پر کہہ دینا کہ میں آدھا حق مہر ادا کرچکا ہوں! پری ٹرائل کے بعد جب دونوں باہر آئے تو معلوم ہوا کہ جج نے خلع گرانٹ کر دی ہے پوچھا میاں اندر جج سے یہ نہیں کہا تھا کیا کہ آدھا حق مہر ادا کر چکا ہوں! کہنے لگے“ اُس نے پوچھا ہی نہیں! بس اتنا کہا تھا کہ آپ نے دادی ماؤنٹ دی ہے“ میں نے کہہ دیا کہ نہیں! میری شادی سے پہلے ہی ا کی دادی مر گئی تھی میں کیوں مارو گا؟“ اب وہ بندہ dowery amount کو کیا بنا گیا!دیکھ لیں!
ایسے ہی ایکسیڈنٹ کے کیس جن میں عدالت یہ اختیار مقدمہ کے فریقین پر چھوڑتی ہے کہ آیا وہ آپس میں صلح کرنا چاہے تو کر لیں! ایسے ہی ایک موقع پر جب ہم دونوں پارٹیوں سمیت جج کے سامنے کھڑے تھے! تو جج نے مدعی سے پو چھا “تو آپ دونوں کے درمیان Compromise ہو گیا ہے؟“ مدعی نے جواب دیا “نہیں سر“۔ جج فورا ہماری جانب متوجہ ہو “وکیل صاحب کیا کرنے جا رہے ہیں“ پہلے تو ہم حیران ہوئے یہ ہوا کیا! پھر فورا کہا “سر! دونوں پارٹیاں انگریری نہیں جانتی! آپ اردو میں پوچھے!“ اس سے پہلے ہم یہ ہی سوال اُن سے دوبارہ کرتے سرکاری وکیل صاحب نے پھر پوچھ لیا “آپ دونوں کے درمیان Compromise ہو یا نہیں“ مدعی فورا بولا “ نہیں نہیں! ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اللہ واسطے معاف کیا ہے! اب ہمیں ان سے کوئی شکایت نہیں“۔ تب جا کر جج صاحب کو سکون آیا!
ایک ہی ایک قصہ ہمارے ایک دوست نے سنایا کہ فلاح جج کے سامنے پولیس جب ملزم کو ریمانڈ کے لئے لے کر آئی تو اُس کے ہاتھ پر پلستر چڑھا ہوا تھا! جج صاحب نے پوچھا کہ تم پر پولیس والوں نے تشدد تو نہیں کیا؟ ملزم کا جواب تھا کہ نہیں بس ہاتھ توڑا ہے!
زبان سے ناواقفیت بھی کیا کیا گُل کھلاتی ہے!
0 تبصرے:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔