سوات والی ویڈیو اصلی ہے یا نقلی؟ لڑکی پڑوس کے لڑکے کو گھر کی بجلی ٹھیک کروانے لائی یا اُس کے سسر سے تعلقات تھے یا وہ کسی غیر محرم کے ساتھ گھر سے باہر گئی؟ اُس کی عمر سترہ سال ہے یا چودہ سال؟ اس کے علاوہ طالبان نے سوات میں گزشتہ ڈیڑھ سال میں دیگر پچس مردوں اور ایک دوسری عورت کو بھی مختلف جرائم (جیسا کہ وہ سمجھتے ہیں) میں کوڑے مارے۔ اس بحث میں پڑے بغیر صرف اتنا جاننا ہے کہ آپ کی رائے کیا ہے اگر یہ سزا آج کسی بھی شخض کو دی جائے اگر وہ مجرم ثابت ہو جائے اور ایسا قانونی طور پر اختیار رکھنے والے باڈی کرے تو کیا تب بھی یہ سزا انسانیت سوز، انسانیت کی تذلیل! ظلم! اور بربریت کے ذمرے میں گنی جائیں گی؟
وجہ کچھ بھی ہو! بیان کر دیں!
اگر ہاں تو کیوں؟
اگر نہیں تو کیوں؟
اور شرعی سزائیں کیا ہیں؟ قرآن و احادیث والی سزائیں اب قابل عمل کیوں نہیں؟ کیا اجتہاد قرآن میں بیان کردہ سزاؤں کو بدلے کا اختیار عطا کرتا ہے اگر نہیں تو شور کس بات کا ہے؟
یا آپ بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
میں الجھن کا شکار نہیں مگر پریشان ہوں!
آپس کی بات ہے قیامت کی نشانیوں میں ایک نشانی شرعی سزاؤں کا معطل ہونا ہے! میں نے پڑھا ہے! ایسے ہی کہہ دیا!
6 تبصرے:
اگر انسانیت ہزاروں سال کے سفر کے بعد بھی آج اس مقام پر ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان پر تشدد کرے اور اسے سزا کا نام دے۔ تو انسانیت کے سفر کی، تہذیب کی، انسانی ارتقا کی کیا حیثیت ہے۔ اگر انسان جانوروں کی طرح برتاؤ کرے۔ خوف ظلم اور تشدد کو قانون بنائے اور سزاؤں کو الہامی قرار دے کر ناقابل بحث قرار دے دے۔ تو تہذیب کی ترقی اور انسانی فلاح کی اگلی راہیں بند نہیں ہوجائینگی۔ جو ظلم آپ آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ جو چیخیں آپ کانوں سے سن رہے ہیں اگر وہ آپ کو ناگوار گزر رہی ہیں تو وہ غلط ہیں وہ ظلم ہیں اور ان کی کوئی صفائی کسی بھی الہامی کتاب سے پیش نہیں کی جاسکتی۔ تشدد کو جائز قرار دینے کے لئے خدا کے فرمان کا سہارا لینا ہمیشہ انسانوں پر ظلم کا سبب بنا ہے۔
میرا زہن بھی اسی طور پریشان ہے۔
آخری بات آپکی سب سے اہم ہے ، میرے خیال میں، ایسے ہی کہہ دیا!۔
ظلم و تشدد الگ ہے اور الہامی سزائیں الگ، ظلم و تشدد قابل بحث بھی ہے اور قابل مذمت بھی لیکن الہامی سزاؤں کو ظلم و تشدد کی آڑ میں قابل بحث قرار دینا اتنا ہی برا ہے جتنا ظلم و تشدد کو الہامی سزاؤں کا نام دینا
نعان تمکو تو بہت خوشی ہو رہی ہے مسٹر یہ وڈیو اور آپ جیسے اسلام دشمنوں کی ہی کرتوت ہے لعنت کسی اور پر نہیں اپنے آپ پر کرو کیونکہ جس لڑکی کی بات ہو رہی ہے اس نے سرے سے اس معاملہ کو خارج کر دیا اب آپ یہ کروکہ اپنا منہ ٹانگوں میں ڈال لو اور کوئ اور خیالی زہر پاشی کرو اپنے اوپر
نعمان چاچا یہ تہذیب کا سبق اپنے آپ کو سکھاؤ جو اپنے آقا کے ھر ظلم پر خوشی ظاہر کرتا ہے غزہ پر حملہ کی مذمت میں آپ کے لب نہ کھلے نہ ہی احتجاج کی تائید میں کوئ تبصرہ کیا تم نے اور ایک ناٹک کی فرضی مووی لیۓ پھر رہے ہو تشدتشد جیسے بان کی مون نے غزہ پرحملے کو غلط کیا کہتا بلکہ الٹا فلسطین کو قصوروار ٹھہرادیا جس میں ہزاروں لڑکیا خون میں نہلا دی گیں وہی بان کی مون چند دن پہلے بولا "لڑکی پر تشدد برداشت نہیں" اس حرام خور کو اتنا بھی احساس نہیں کہ اسکا یہ فرضی واڑا یہاں نہیں چلنے والا
کون کہتا ہے نفرت دکھائ نہیں دیتی ہے
آنکھو سے ٹپکتی ہے باتوں میں سنائ دیتی ہے
وہ شخص جو افغانستان اور پاکستان میں لاکھوں مسلمانوں کے قتل عام کو صحیح ٹھراۓ اسکے منہ سے یہ ہمدردی کے الفاظ اور کھڑیالی آنسو زیب نہیں دیتے نعمان
سلام
اگر مجاز اتھارٹی نے قانونی تقاضوں کے بعد یہ سزا سنائی ہو ،تو یہ سزامحض اس لئے قابل مذمت نہیں ہو سکتی کہ یہ جسمانی سزا ہے۔ اس لئے کہ جسمانی سزا اللہ تعالیٰ نے سورہ نور میں بیان کی ہے ۔اور اس مین شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ لیکن اگر کوئی اللہ تعالیٰ کو نہ مانے یا قرآن کو اللہ کی کتاب نہ مانتا ہو تو اسے یہ اختیار ہے کہ ایسی سزائوں کو ظالمانہ قرار دے اور یہ اختیار خود اللہ تعالیٰ نے اس کو دیا ہے۔یعنی چاہے تو وہ اللہ کے حکم کو آخری حکم سمجھے یا اپنی عقل اور عہد حاضر کے فیشن کو اعلیٰ جانے۔۔۔۔یہ ہر ایک کا اپنا معاملہ ہے۔بے سوچے بولنے اور حکم لگانے اور بولتے چلے جانے کا اختیار بھی اللہ نے ہر ایک کو دیا ہے۔ اس دنیا مین ہر ایک اس کو استعمال کر سکتا ہے۔۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔