لوگوں نے کہا
اس در سے کبھی
کوئی نا اُمید نہیں لوٹا
کوئی خالی ہاتھ نہیں آیا
میں بھی لوگوں کے ساتھ چلا
چہرے پر گرد مِلال لیے
اک پر امید خیال لیے
جب قافلہ اس در پر پہنچا
میں اس گھر کو پہچان گیا
پھر خالی ہاتھ ہی لوٹ آیا
اس در سے مجھے کیا ملناتھا
وہ گھر تو میرا اپنا تھا
شاعر: سرشار صدیقی
3 تبصرے:
کافی گہرِی شاعری ہے۔ ہعنی بانٹنے والا خود محتاج ہے۔
واہ جناب کیا بات ہے۔
ٓآپکی پسند تو لاجواب ہے ہی، یہ تھیم کی بھی کیا بات ہے۔
کہاں سے لائے جناب یہ، زرا ہمھیں بھی تو پتہ چلے۔
یہ سرشار صاحب نے تو پورے سرشار ہی نکلے
یہ سانچہ اچھا ہے ۔ کہاں سے لیا ہے ؟
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔