Pages

8/24/2010

لاقانونیت + درندگی+ تاویل= المیہ

یہ آج سے تین سال قبل کی بات ہے ہم گھر میں بیٹے ٹی وی دیکھ رہے تھے کہ باہر محلے میں شور کی آواز آئی وجہ جاننے کے لئے باہر گئے تو معلوم ہوا کہ اہل محلہ ایک ڈاکو/چور کو پکڑے بیٹھے ہیں! جس کا ایک ساتھی بھاگ گیا اور وہ قابو آ گیا محلے کی دوکان پر ڈاکہ ڈالنے آئے تھے، پکڑے جاننے والے کی حالت یہ تھی کہ چہرہ لہولہان تھا! سیدھے ہاتھ پر بھی چوٹ لگی ہوئی تھی جس کے بارے میں معلوم ہوا کہ اس ہاتھ میں پسٹل تھی جسے جھڑوانے کے لئے ہاتھ پر بلاک مارا گیا جس سے زخم آیا ہے، پولیس کو فون کیا گیا مگر جب تک پولیس نہیں آئی ہم نے دیکھا کہ جمع ہجوم کی اسی فیصد نے اُسے ضرور تھپڑ رسید کیا! چند ایک نے ٹھوکریں بھی ماری،چند ایک نے پتھر بھی مارے،ہر آنے والا قصہ معلوم کر کے دو چار گالیاں نکال کر اُسے مارنے کا فتوی جاری کرتا اور تھپڑ یا گونسہ کی شکل میں اپنا حصہ ڈالتا! کسی بھی ملزم کے ساتھ اہل محلہ کا یہ سلوک میرے لئے پہلا تجربہ تھا۔ بعد میں پولیس اُسے پکڑ کر لے گئی تو اہل محلہ کے اس تشدد سے اُسے نجات ملی۔ بعد میں اہل محلہ کی طرف کیس کی پیروی بطور وکیل ہم نے عدالت میں کی اور اُسے ڈھائی سال کی سزا ہوئی مگر سزا پا کر بھی وہ ہمارا ہی شکر گزار تھا کہ اُس رات ہم نے اُس کی جان بچائی پولیس کو بلوا کر۔
اس کے علاوہ میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ چور/ڈاکو جو علاقے کے لوگ پکڑ کر پولیس کے حوالے کرتے ہیں عام طور اُس پر اہل علاقہ اپنا غصہ اُتار چکے ہوتے ہیں مارنے والوں کے ذہین میں یہ بات ہوتی کہ اس نے قانون کے شکنجے سے بچ جانا ہے لہذا ابھی اس کے ساتھ جو سلوک کرنا ہے کر لو دوئم ایک خاص سوچ جو مختلف وجوہات ہی بناء پر عام افراد میں شعوری یا لا شعوری طور میں پروان چڑ چکی ہے وہ یہ کہ یہ افراد اس ہی سلوک کے حقدار ہیں وہ کسی نا کسی نقطہ یا بحث میں ایسے افراد یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ تشدد کا یہ عمل قانون، اخلاق اور انسانیت کی رو سے غلط ہے مگر لاشعوری طور پر اس کے ہامی ہوتے ہیں ایسا کیوں؟
اس کی بہت سے وجوہات ہو سکتی ہیں!اول اول تو یہ تاثر کہ قانون کی عملداری نہیں ہے! کسی بھی جرم کے مجرم کے بارے مین عام آدمی کا یہ تاثر کہ یہ تو بچ جائے گا! اس تاثر میں مکمل سچائی نہیں! مگر چونکہ لوگ ایسا ہونا سچ مانتے ہیں اس لئے وہ عدلیہ کے بجائے خود سزا دینا ٹھیک جانتے ہیں!
اس کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ معاشرہ کا عام شہری عدالت سے ملنی والی سزا کو اپنے مخالف کے لئے نا کافی سمجھتا ہے! مثلا ایسے واقعات دیکھنے میں آئے جہاں بچوں کی لڑائی پر لوگ مخالفین کو دس دس سال سزا دلوانا چاہتے ہیں جو انتہا پسندی ہے! یا معمولی تکرار پر اگلے کو پھانسی لگوانا!
ایک اور چیز یہ کہ ہمارے معاشرے نے تشدد کو قبول کر لیا ہے! اگر معاشرہ کے ہر طبقے یا گروہ کو دیکھے تو کسی نا کسی شکل میں وہ تشدد کو اپنائے ہوئے ہے، ہم اپنے پسندیدہ مذہبی رہنماء کے قتل/ قاتلانہ حملہ میں زخمی ہونے پر ملک/شہر میں ردعمل میں دس بارہ گاڑیوں کے جل جانے، بیس تیس کے قتل ہونے، دو چار دن شہر بند ہونے اور بدلہ لینے کا بیانات کو فطری ردعمل جاننے لگ پڑے ہیں!نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اسے غلط جان کر بھی لاشعوری طور پر اسے اپنا چکا ہے۔ معمولی یا غیر معمولی دونوں صورتوں میں!
تشدد پر آمادہ ہونے اور اسے قبول کرنے کی جانب گامزن ہونے میں میڈیا کا بھی رول ہے! کیسے؟ آپ گذشتہ بیس سال کی کہانیاں، ڈرامے اور فلمیں دیکھ لیں آپ کو ان مین اکثریت خاندان دشمنی یا باہمی جھگڑوں پر بنے والی وہ فلمیں ملیں گی جن میں فلم/کہانی کا نام نہاد ہیرو اپنے دشمن کو عدالت کے کہٹرے مین لانے یا عدالتی سزا دلوانے کے بجائے خود بدلہ لینے کو ترجیح دیتا ہے! اور اُس کے اس عمل کو گلیمرائز کر کے دیکھایا/لکھا جاتا ہے! نہ صرف یہ بلکہ جرم و سزا کی کہانیوں و فلموں میں کسی ایک کی جان کو مرکزی کردار کے لئے اہم بتا کر باقی کرداروں کو مارنے کو عظیم کارنامے کے طور پر دیکھایا جاتا ہے! کیا ایسے میں یہ ممکن ہے کہ معاشرہ تشدد کی طرف راغب نہ ہو؟
اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں مستقبل میں سیالکوٹ جیسے واقعات و المیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے تو ضروری ہے کہ ہم ہر سطح پر لاقانونیت کو ختم کرنے کی عملی کاوش کا حصہ ہوں، اپنے اردگرد یہ آگاہی دے کہ ملزم کے گناہگار اور بے گناہی کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے، یہ کہ ایک بُرے کام کی تاویل دوسری بُرائی نہیں ہوسکتی! نیز یہ جانے کہ انسانی جان کی حرمت کیا ہے!
جب میں ایسے واقعات کا ٹھنڈے ذہین سے تجزیہ کرتا ہوں تو یہ محسوس ہوتا ہے اس درندگی، حیوانیت اور ظلم میں کہیں میں بھی قصور وار ہوں۔

6 تبصرے:

محمداسد نے لکھا ہے کہ

گذشتہ سال کراچی میں بھی ایسے کئی واقعات ہوئے جن میں چوروں کو زندہ جلادیا گیا۔ اس وقت بھی لوگوں کی یہی رائے تھی کہ جو موبائل چھینتے وقت لوگوں کو گولی مارنے سے گریز نہ کرے، اس کے ساتھ یہی سلوک ہونا چایہے۔

یہ بات محض سوچ ہی نہیں بلکہ لوگوں کا تجربہ بھی ہے کہ چوروں، ڈاکووں اور لٹیروں کو کسی نا کسی کا ساتھ حاصل ہوتا ہے۔ بچلے درجہ کے پاکٹ مار وغیرہ پولیس کے ساتھ ملی بھگت رکھتے ہیں تو دوسری طرف بڑے چوروں کو سیاسی و غیر سیاسی طاقتور گروہ پناہ دیتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہیں سے شروع ہوتا ہے۔

سزا کا دورانیہ طے کرنا یقیناَ عدالت کا ہی کام ہے، لیکن جب ملزم عدم ثبوت کی بناء پر رہا کیے جاتے ہیں تو وہ دو لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے کا پروانہ جاری کرتے ہیں۔ ایک وہ جس کے ساتھ ظلم ہوا اور دوسرا وہ جو غیر قانونی راستہ میں اس کے ہم عصر ہیں۔

ضرورت ہے بلا امتیاز، تیز تر اور فعال انصاف فراہم کرنے والے نظام کی۔

راشد کامران نے لکھا ہے کہ

آپ نے ایک خطرناک لیکن معاشرے کے بالکل حقیقی طرز عمل کی نشاندہی کی ہے۔ ملزم اور مجرم کے درمیان فرق تقریبا ختم کردیا گیا ہے اور بات یہاں تک آگئی ہے کہ کوئی بھی کسی بھی وقت کسی بات پر اپنا بدلہ نکالنے کے لیے کسی بھی شخص کے خلاف ایک مجمع اکھٹا کرکے اپنی ذاتی چپقلش پر جان لینے کے نزدیک آجائے گا۔ حالات کچھ بھی ہوں لیکن اس طرز عمل کی کوئی بھی تاویل چاہے وہ حقیقی مجرموں کے خلاف ہی کیوں نا ہو ناقابل قبول ہونی چاہیے ورنہ یہ معاشرے کو مزید پستیوں میں دھیکل دے گا۔

Kashif Naseer نے لکھا ہے کہ

I am 100% agree with you.

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے کہ

اس کا سبب تو ذرائع ابلاغ ہيں مگر ان کے زيرِ اثر اپنی عادت خراب کرنے کا ذمہ دار تو خود غلط کام کرنے والا ہے ۔ ايک آدمی کا گذر طوائف محلہ سے ہو اور وہ زنا کر لے تو کہا جائے کہ طوائفوں کے محلہ کا قصور ہے ۔ حقيت يہ ہے کہ دين کا نہ کسی کو علم ہے اور نہ اس پر عمل کرتے ہيں شيطان کے نرغے ميں آ چکے ہيں

عادل بھیا نے لکھا ہے کہ

اسد بھیا کے تبصرے کا دوسرا اقتباس پسند آیا۔ بات بھی یہی ہے۔

م بلال م نے لکھا ہے کہ

مجھے تحریر کے آخر پر لفظ ”عملی کاوش“ بہت زبردست لگا اور اس میں جو آپ نے پیغام دیا ہے وہ تو آپ نے میرے دل کی بات کی ہے۔
بہت خوب۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ہو۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے

نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔