سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے
تو وہ حملہ نہیں کرتا
سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں
بئے کے گھونسلے کا گندمی سایہ لرزتا ہے
تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو
پڑوسی مان لیتی ہیں
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
تو مینا اپنے گھر کو بھول کر
کوے کے انڈوں کو پروں میں تھام لیتی ہے
سارا جنگل جاگ جاتا ہے
ندی میں باڑ آجائے
کوئی پل ٹوٹ جائے
تو کسی لکڑی کے تختے پر
گلہری سانپ چیتا اور بکری
ساتھ ہوتے ہیں
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہے
خداوندا جلیل و معتبر، دانا و بینا منصف اکبر
ہمارے شہر میں اب
جنگلوں کا ہی کوئی دستور نافذ کر
شاعرہ: ذہرہ نگار
2 تبصرے:
جنگلوں کا قانون تو جانوروں پر لاگو ہو گا اور جہاں جانوروں سے بھی بدتر لوگ رہتے ہوں وہاں کونسا قانون نافذ ہو گا؟
بہت اچھی اور باموقع نظم ہے . آپ کو آزادی کی سالگرہ مبارک
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔