ضیاء کو جب تازہ تازہ ملک میں اسلام نافذ کرنے کا شوق چڑھا تب ہی اُس نے مختلف قوانین نافذ کئے اُن میں ایک احترام رمضان آرڈیننس 1981 ہے جس کا ایک مختصر تعارف ذیل میں ہے!
احترام رمضان آرڈیننس 1981 کُل دس دفعات پر مبنی ہے! اس قانون میں سب سے پہلے یہ وضاحت کی گئی ہے کہ آیا پبلک پلیس کیا ہے! قانون کی دفعہ 2 کے مطابق کوئی بھی ہوٹل، ریسٹورنٹ، کینٹین، گھر، کمرہ، خیمہ، یا سڑک، پُل یا کوئی اور ایسی جگہ جہاں عام آدمی کو با آسانی رسائی ہو پبلک پلیس میں آتا ہے!
اور آرڈینس کی دفعہ 3 کے تحت کوئی بھی ایسا فرد جس پر اسلامی قوانین کے تحت روزہ رکھنا لازم ہے اُسے روزے کے وقت کے دوران پبلک پلیس پر کھانا، پینا اور سگریٹ نوشی کی ممانعت ہوگی! اور اگر کوئی ایسا کرتا پکڑا گیا تو اُسے تین ماہ کی قید یا پانچ سو روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
آرڈینس کی دفعہ 4 کے تحت روزے کے وقت کے دوران کسی ریسٹورنٹ، کینٹین یا ہوٹل کے مالک، نوکر، منیجر یا کسی اور پبلک پلیس پر کسی فرد کو جانتے بوجھتے رمضان میں کھانے کی سہولت دینا یا دینے کی آفر کرنا منع ہے جبکہ اُس فرد پر روزہ لازم ہو اور جو کوئی ایسا کرے گا وہ تین ماہ کی قید، یا پانچ سو روپے جرمانہ یا دونوں سزاؤں کا حقدار ہو گا۔
دفعہ 5 میں وضاحت کہ گئی ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء کی تیاری اسپتال کے باورچی جانہ میں کی جاسکتی ہے اور مریضوں کو کھانے کا بندوبست کرنا کی ممانعت نہیں ہے، نیز ریلوے اسٹیشن، ایئرپورٹ، بحری آڈہ، ٹرین، جہاز یا بس اسٹینڈ پر پابندی نہیں ہے مزید یہ کہ پرائمری اسکول کے احاطے میں موجود کچن بھی اس پابندی سے آزاد ہے۔
دفعہ 6 کے تحت تمام سینما ہال، ٹھیٹر، یااس قسم کے دیگر ادارے سورج غروب ہونے کے بعد سے لے کر دن چھڑنے کے تین گھنٹے بعدتک بند رہے گے اگر اس کی خلاف ورزی کی گئی تو ادارے کے مالک، منیجر، نوکر یا دوسرے ذمہ دار شخص کو چھ ماہ کی قید یا پانچ ہزار روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
دفعہ 7 کے تحت مجسٹریٹ، ضلعی کونسل کا چیئرمین، زکوۃ و عشر کمیٹی کا ممبر، میونسپل کارپوریشن کا میئر جب یہ خیال کریں کہ اس آرڈیننس (احترام رمضان آرڈینس 1981) کے تحت کو جرم سرزدد ہو رہا ہے تو انہیں اختیار کے کہ وہ ایسے جگہ میں داخل ہو کر ملزمان کو گرفتار کر لیں کسی اور کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے۔
دفعہ 9 کے تحت بنائے گئے قواعد کی رو سےاسپتال کی کینٹن سے وہ افراد کھانا لے کر کھا سکتے ہیں جو خود مریض ہوں اور ہوئی اڈہ، ریلوے اسٹیشن ، بحری اڈہ اور بس اسٹنڈ پر سے وہ افراد کھانا کھا سکتے ہیں جن کے پاس ٹکٹ یا ایسا واؤچر ہو جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہو کہ وہ فرد یا افراد 75 کلومیٹر سے ذیادہ کا سفر کر رہے ہیں بمعہ اُس سفر کے جو وہ طے کر کے آچکے ہیں نیز پرائمری اسکول میں موجود کینٹن سے صرف وہ طالب علم کھانا لے کر کھا سکتے ہیں جو ابھی بالغ نہیں ہوئے!!!
سمجھ آئی کہ شہر میں ہوٹل، کینٹین اور ریسٹورینٹ کیوں بند ہیں!! اور بیکری والے کیسے بچ جاتے ہیں پابندی سے!!
جی جناب یہ ہے احترام رمضان آرڈینس!!! آسان الفاظ میں۔ سوچ رہا ہوں اپنے بلاگ میں مختلف قوانین کو آسان زبان میں لکھ دوں کیا رائے ہے!! اور نئے آنے والے قوانین خاص کر! اور وہ جو نافذ ہیں مگر لوگوں کے علم میں نہیں، اس لئے اُن کے بارے میں آگاہی بھی نہیں۔
احترام رمضان آرڈیننس 1981 کُل دس دفعات پر مبنی ہے! اس قانون میں سب سے پہلے یہ وضاحت کی گئی ہے کہ آیا پبلک پلیس کیا ہے! قانون کی دفعہ 2 کے مطابق کوئی بھی ہوٹل، ریسٹورنٹ، کینٹین، گھر، کمرہ، خیمہ، یا سڑک، پُل یا کوئی اور ایسی جگہ جہاں عام آدمی کو با آسانی رسائی ہو پبلک پلیس میں آتا ہے!
اور آرڈینس کی دفعہ 3 کے تحت کوئی بھی ایسا فرد جس پر اسلامی قوانین کے تحت روزہ رکھنا لازم ہے اُسے روزے کے وقت کے دوران پبلک پلیس پر کھانا، پینا اور سگریٹ نوشی کی ممانعت ہوگی! اور اگر کوئی ایسا کرتا پکڑا گیا تو اُسے تین ماہ کی قید یا پانچ سو روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
آرڈینس کی دفعہ 4 کے تحت روزے کے وقت کے دوران کسی ریسٹورنٹ، کینٹین یا ہوٹل کے مالک، نوکر، منیجر یا کسی اور پبلک پلیس پر کسی فرد کو جانتے بوجھتے رمضان میں کھانے کی سہولت دینا یا دینے کی آفر کرنا منع ہے جبکہ اُس فرد پر روزہ لازم ہو اور جو کوئی ایسا کرے گا وہ تین ماہ کی قید، یا پانچ سو روپے جرمانہ یا دونوں سزاؤں کا حقدار ہو گا۔
دفعہ 5 میں وضاحت کہ گئی ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء کی تیاری اسپتال کے باورچی جانہ میں کی جاسکتی ہے اور مریضوں کو کھانے کا بندوبست کرنا کی ممانعت نہیں ہے، نیز ریلوے اسٹیشن، ایئرپورٹ، بحری آڈہ، ٹرین، جہاز یا بس اسٹینڈ پر پابندی نہیں ہے مزید یہ کہ پرائمری اسکول کے احاطے میں موجود کچن بھی اس پابندی سے آزاد ہے۔
دفعہ 6 کے تحت تمام سینما ہال، ٹھیٹر، یااس قسم کے دیگر ادارے سورج غروب ہونے کے بعد سے لے کر دن چھڑنے کے تین گھنٹے بعدتک بند رہے گے اگر اس کی خلاف ورزی کی گئی تو ادارے کے مالک، منیجر، نوکر یا دوسرے ذمہ دار شخص کو چھ ماہ کی قید یا پانچ ہزار روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
دفعہ 7 کے تحت مجسٹریٹ، ضلعی کونسل کا چیئرمین، زکوۃ و عشر کمیٹی کا ممبر، میونسپل کارپوریشن کا میئر جب یہ خیال کریں کہ اس آرڈیننس (احترام رمضان آرڈینس 1981) کے تحت کو جرم سرزدد ہو رہا ہے تو انہیں اختیار کے کہ وہ ایسے جگہ میں داخل ہو کر ملزمان کو گرفتار کر لیں کسی اور کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے۔
دفعہ 9 کے تحت بنائے گئے قواعد کی رو سےاسپتال کی کینٹن سے وہ افراد کھانا لے کر کھا سکتے ہیں جو خود مریض ہوں اور ہوئی اڈہ، ریلوے اسٹیشن ، بحری اڈہ اور بس اسٹنڈ پر سے وہ افراد کھانا کھا سکتے ہیں جن کے پاس ٹکٹ یا ایسا واؤچر ہو جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہو کہ وہ فرد یا افراد 75 کلومیٹر سے ذیادہ کا سفر کر رہے ہیں بمعہ اُس سفر کے جو وہ طے کر کے آچکے ہیں نیز پرائمری اسکول میں موجود کینٹن سے صرف وہ طالب علم کھانا لے کر کھا سکتے ہیں جو ابھی بالغ نہیں ہوئے!!!
سمجھ آئی کہ شہر میں ہوٹل، کینٹین اور ریسٹورینٹ کیوں بند ہیں!! اور بیکری والے کیسے بچ جاتے ہیں پابندی سے!!
جی جناب یہ ہے احترام رمضان آرڈینس!!! آسان الفاظ میں۔ سوچ رہا ہوں اپنے بلاگ میں مختلف قوانین کو آسان زبان میں لکھ دوں کیا رائے ہے!! اور نئے آنے والے قوانین خاص کر! اور وہ جو نافذ ہیں مگر لوگوں کے علم میں نہیں، اس لئے اُن کے بارے میں آگاہی بھی نہیں۔
17 تبصرے:
ہمیں لگتا نہیں کہ آج کل اس قانون پر سختی سے عمل ہو رہا ہو۔
کیا کہا؟؟
پاکستان میں قوانین ہیں؟؟
اوہ اچھا
مختلف قوانین کو ضرور آسان زبان میں لکھیں۔
ہمیں پاکستان کے قوانین سمجھ کر خوشی ہوگی۔
برائے مہربانی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے قانون کی بھی وضاحت کردیں۔
اس آرڈننس کو بنے 30 سال بھی نہيں ہوئے ۔ 55 سال قبل ميں نے راولپنڈی ميں ان اصولوں پر سختی سے عمل ہوتے ديکھا تھا بلکہ ايک بے روزہ آدمی کو سڑک پر پٹتے بھی ديکھا تھا جسے راولپنڈی کے اے ڈی ايم صاحب دُرے لگا رہے تھے ۔ وہ زمانے اچھے تھے جب قانون عمل کيلئے ہوتا تھا ۔ اب تو حسرت ہی رہتی ہے کہ کسی قانون پر کوئی شہری يا سرکاری عہديدار يا حکمران عمل کرے
Zai ul Haq Sahab ko is tareh k ordinance jari kerne ka bohet shouq tha, jis raftaar se woh ja rahey they tin chaar so saal me woh Pora Islam nafiz ker hi dete
بہت شکریہ بھائی آسان الفاظ میںسمجھانے کا ۔ باقی قوانین بھی شئیر کردیں
قانون ضرور تحریر کریں اور دعا بھی کریں کہ ہمارے ملک میں قوانین کا نفاژ بھی ہو
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ روزہ دار کو کسی دوسرے کو کھاتے پیتے دیکھ کر کیوں تکلیف ہو گی۔ اور حکومت نے عبادات کا ٹھیکہ کیوں لیا۔ اللہ اور بندے کا معاملہ ہے۔ نماز، روزہ آدمی کی ذاتی ذمہ داری ہے۔
قوانین کو عام الفاظ میں لکھنے کا خیال بہت اچھا ہے۔ لیکن ہر آرڈیننس کے بعد یہ ضرور بتا دیجیے گا کہ آیا یہ ابھی تک جاری ہے یا آئین سے اس آرڈیننس کی چھٹی کی جاچکی ہے۔ :)
شعیب یہ ایک اچھا سلسلہ ہے اسکو جاری رکھھیں – یہ بھی بتائیں نہ عمل کرنے والے کی کیا ممکنہ سزائیں ہیں
اجمل صاحب - کوئی کسی کو درے لگائے قانون پہ عمل کرنے کے لیے اچھا نہیں – یہ تو قانون کو ہاتھ میں لینے والی چیز ہے ایسے ہی جیے سیالکوٹ میں حال ہی میں لوگوں نے لیا – تو اگر 55 سال پہلے بھی یہ حالت تھی تو بس پھر تو خیر ہے اس ملک کی-
آسان الفاظ میں قوانین لکھنے والی بات مجھے بہت پسند آئی ہے۔
صفدر صاحب
قانون پہ اس طرح آگاہ کرنے کا شکریہ
اچھی کوشش ہے
احترام رمضان آرڈیننس 1981 کی تفصیلات شئیرکرنے کے لیے شکریہ -میں مزید اس پرکیا کہوں ایک قابل تعارف آرڈینسس ہے
اچھا سلسلہ ہے، ضرور شروع کریں۔ قانون کے بارے میں عوامی شعور اور آگاہی اس کے نفاذ کی طرف پہلی سیڑھی ثابت ہو سکتی ہے۔
کیا یہ آرڈینینس قانونی طور پہ اب بھی نافذ ہے یا نہیں؟؟
@عمیر ملک جی جناب نافذ ہے تو اس پر لکھا ہے ناں
آپ نے بہت اچھے انداز میں سمجھا دیا۔ جی بالکل آئندہ بھی ایسے ہی سمجھائیں۔ خاص کر وہ قوانین جس کا کچھ ادارے غلط استعمال کرتے ہیں جیسے ٹریفک پولیس۔ اور ایسے قوانین بھی جن کی عام دنوں میں ضرورت ہوتی ہے
اسلام علیکم ۔۔ دوستو
اگر ایسا قانون بنایا گیا تھا یا آج پھر اس کو نافذ کیا جارہا ھے تو اس میں برائی کیا ھے اچھی بات ھے نا ۔۔۔ رمضان المبارک ہمارے دین کے 5 ستونوں میں سے ایک ھے ۔۔۔ کیا اس کا احترام نہیں کیا جانا چاھئے ؟؟ یہاں قانون بنانے والے کی غلطی نہیں بلکہ آگے عمل درآمد کرنے والوں پر منحصر ھے
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔