کچھ باتیں ہماری قوم کے مزاج میں بہت عجیب ہیں، یہ ناواقف ہیں یا نا سمجھ اس سے خدا ہی آشنا ہے۔ کچھ برائیاں ہم میں ہیں مگرحرکات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ کچھ ہم خود میں دیکھانا چاہتے ہیں!
یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم سر سے پیر تک خود کو اور اپنوں کو بُرا ثابت کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں!اس بات کو میں نے پہلی بار تب محسوس کیا جب میں سعودی عرب گیا! پھر تب تب جب کوئی یار دوست یا رشتہ دار باہر سے آیا!!
سعودی عرب میں میں نے محسوس کیا کہ وہ لوگ معاشرتی برائیوں میں ہم سے ذیادہ مبتلا ہے مگر ایک خاص چیز جو اُن میں خوبی کی شکل میں ہے وہ برائی کی تشہیر نہ کرنا! وہاں ہمارے وہ عزیز جو بھٹو دور میں جا کر آباد ہوئے اور اُن کی ایک نسل وہاں ہی پروان چڑھی کی زبانی جو باتیں معلوم ہوئی اُنہیں سُن کر شکر ادا کیا کہ ہماری قوم عملا اتنی خراب نہیں! ہمارے ہاں یہ عام تاثر لیا جاتا ہے کہ سعودیہ میں ہیروہین کے اسمگلر کو موت کی سزا دے دی جاتی ہے اور کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جاتی! مگر ایسا وہ اپنے سعودی شہریوں کے ساتھ نہیں کرتے! اور نہ ہی اپنے اُن دوستوں کو جن کو وہ اپنا "جگری" مانتے ہوں! مگر باقی افراد کے لئے اُن کا قانون نہایت سخت ہے!! یہ بات ہم قریبی مشاہدے کی بناء پر کر رہے ہیں کہ ایسے ایک دو قصے ہمارے علم میں ہیں! باقی اگر آپ اُس معاشرے میں اجنبی ہیں تو لازم ہے کہ جرم سرزد ہونے پر آپ قانون کے شکنجے میں جکڑے جائے بغیر کسی رعایت کے۔
اس سے ملتی جلتی صورت حال مجھے تو کم از کم یورپ و امریکہ میں بھی نظر آتی ہے ایسے معاملات کا علم ہوا کہ مقامی پولیس اپنے ہم نسل کو دوران تفتیش کئی معاملات میں آسانیاں فراہم کرتی ہے جس میں معمولی جرم کی صورت میں گرفتار نہ کرنا یا تفتیش میں سست روی دیکھانا وغیرہ۔ مگر ہمیں اُن میں کوئی برائی نظر نہیں آتی۔ ایسا نئی نسل ہی میں نہیں بلکہ بزرگوں میں بھی نظر آتا ہے۔ جیسے کہ ایک بار کا قصہ یوں کہ اہم ایک بزرگ وکیل کے پاس بیٹھے تھے (کہ کچھ کام کی باتیں سیکھنے کو مل جاتی ہیں)، اُن کے ایک ہم عمر دوست و کلائینٹ آ گئے پہلے پہل تو اپنے بیٹوں کہ پاکستان سے پردیس ہجرت کر جانے کے عمل کو سراہنے لگے پھر ملک کے حالات کا رونا رویا یہاں تک ٹھیک تھا! اچانک کہنے لگے یہ ملک ان حکمرانوں سے نہیں چل سکتا انگریز ہی ٹھیک تھا!میں تو کہتا ہوں اب بھی اُن کو بلا کر حوالے کرو دیکھو کیسے ٹھیک ہو جائے گا! اس بات پر اُس سے جو بحث ہوئی وہ ایک خاص نقطہ پر جا کر بلا شبہ بدتمیزی کے ذمرے تک پہنچ گئی مگر نہ معلوم مجھے اُس پر افسوس نہیں ہے، اور مجھے لگتا ایسے افراد مجھ سے خواہ وہ چھوٹے ہو یا بڑے! عالم ہوں یا جاہل! میں بدتمیزی، خاص کر جو میرے ملک اور یہاں کے لوگوں کو بُرا سمجھیں با حیثیت قوم، ہونا اُن کا حق ہے!
بات کہاں سے کہاں نکل گئی میں یہ کہہ رہا تھا کہ خود میں برائی کا احساس ہونا بُرا نہیں مگر اس کی یوں تشہیر اچھی نہیں! 2005 کے زلزلے میں یقین حکمران جماعتوں اور مختلف این جی اوز نے امداد کے سامان میں خُردبرد کیا مگر اس قدر نہیں کتنی آپسی دشمنی کی بناء پر تشہیر کی گئی اور یہاں سے خبریں بنا بنا کر عالمی میڈیا کے ذریعے بدنامی کمائی گئی تھی اب یہ حال ہے وہ بدنامی عالمی سطح پر بے اعتباری کی شکل میں مدد میں رکاوٹ کا روپ لیئے ہوئے ہے غیروں میں ہی نہیں اپنوں میں بھی اور وہی سیاست اب بھی جاری ہے!! سیلابی پروپیگنڈہ کے روپ میں کیا ایسے معاملات میں اپنوں کو گالی دے کر اپنا نام کمایا جا سکتا ہے؟جبکہ محسوس ہو کہ یہ گالی حقیقت کے بیان کے بجائے اندرونی نفرت کے زیراثر جھوٹ کا فروغ ہے! اور اس جھوٹ کے فروغ میں شعوری و لاشعوری طور پر شریک احباب بھی برابر کے شریک ہیں! پچھلے دنوں کراچی کے حالات خراب ہوئے تب بھی اور اب جب ملک میں سیلابی آفت نازل ہےتو بھی آپسی نفرت کے زیر اثر موبائل پر ایس ایم ایس کی شکل میں اور انٹرنیٹ پر ای میل و دیگر انداز میں خود اپنوں کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کی تشہیر کی جا رہی ہے، نہایت افسوس تب ہوتا ہے جب اہل عقل بھی اس عمل میں شریک نظر آتے ہیں! اب یہاں دینی حوالہ دوں گا تو کئی احباب کو خود کو مومن کی فہرست سے باہر کرنے پرتکلیف ہو گی!۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم سر سے پیر تک خود کو اور اپنوں کو بُرا ثابت کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں!اس بات کو میں نے پہلی بار تب محسوس کیا جب میں سعودی عرب گیا! پھر تب تب جب کوئی یار دوست یا رشتہ دار باہر سے آیا!!
سعودی عرب میں میں نے محسوس کیا کہ وہ لوگ معاشرتی برائیوں میں ہم سے ذیادہ مبتلا ہے مگر ایک خاص چیز جو اُن میں خوبی کی شکل میں ہے وہ برائی کی تشہیر نہ کرنا! وہاں ہمارے وہ عزیز جو بھٹو دور میں جا کر آباد ہوئے اور اُن کی ایک نسل وہاں ہی پروان چڑھی کی زبانی جو باتیں معلوم ہوئی اُنہیں سُن کر شکر ادا کیا کہ ہماری قوم عملا اتنی خراب نہیں! ہمارے ہاں یہ عام تاثر لیا جاتا ہے کہ سعودیہ میں ہیروہین کے اسمگلر کو موت کی سزا دے دی جاتی ہے اور کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جاتی! مگر ایسا وہ اپنے سعودی شہریوں کے ساتھ نہیں کرتے! اور نہ ہی اپنے اُن دوستوں کو جن کو وہ اپنا "جگری" مانتے ہوں! مگر باقی افراد کے لئے اُن کا قانون نہایت سخت ہے!! یہ بات ہم قریبی مشاہدے کی بناء پر کر رہے ہیں کہ ایسے ایک دو قصے ہمارے علم میں ہیں! باقی اگر آپ اُس معاشرے میں اجنبی ہیں تو لازم ہے کہ جرم سرزد ہونے پر آپ قانون کے شکنجے میں جکڑے جائے بغیر کسی رعایت کے۔
اس سے ملتی جلتی صورت حال مجھے تو کم از کم یورپ و امریکہ میں بھی نظر آتی ہے ایسے معاملات کا علم ہوا کہ مقامی پولیس اپنے ہم نسل کو دوران تفتیش کئی معاملات میں آسانیاں فراہم کرتی ہے جس میں معمولی جرم کی صورت میں گرفتار نہ کرنا یا تفتیش میں سست روی دیکھانا وغیرہ۔ مگر ہمیں اُن میں کوئی برائی نظر نہیں آتی۔ ایسا نئی نسل ہی میں نہیں بلکہ بزرگوں میں بھی نظر آتا ہے۔ جیسے کہ ایک بار کا قصہ یوں کہ اہم ایک بزرگ وکیل کے پاس بیٹھے تھے (کہ کچھ کام کی باتیں سیکھنے کو مل جاتی ہیں)، اُن کے ایک ہم عمر دوست و کلائینٹ آ گئے پہلے پہل تو اپنے بیٹوں کہ پاکستان سے پردیس ہجرت کر جانے کے عمل کو سراہنے لگے پھر ملک کے حالات کا رونا رویا یہاں تک ٹھیک تھا! اچانک کہنے لگے یہ ملک ان حکمرانوں سے نہیں چل سکتا انگریز ہی ٹھیک تھا!میں تو کہتا ہوں اب بھی اُن کو بلا کر حوالے کرو دیکھو کیسے ٹھیک ہو جائے گا! اس بات پر اُس سے جو بحث ہوئی وہ ایک خاص نقطہ پر جا کر بلا شبہ بدتمیزی کے ذمرے تک پہنچ گئی مگر نہ معلوم مجھے اُس پر افسوس نہیں ہے، اور مجھے لگتا ایسے افراد مجھ سے خواہ وہ چھوٹے ہو یا بڑے! عالم ہوں یا جاہل! میں بدتمیزی، خاص کر جو میرے ملک اور یہاں کے لوگوں کو بُرا سمجھیں با حیثیت قوم، ہونا اُن کا حق ہے!
(یہ تحریر عنیقہ ناز کی تحریر پر ایک "بے نام" تبصرے میں بلا ثبوت ہوائی اُڑانے پر لکھی گئی ہے، اُس تبصرہ میں فوج مخالف پروپیگنڈہ تھا! جس کی حمایت خود عنیقہ ناز نے ثبوت فراہم کئے بغیر کی!میرے علم کے مطابق اُس پورے تبصرہ میں صرف ایک بات سچی تھی کہ امدادی سرگرمی میں شامل فوجیوں کو ہنگامی حالات کے اختتام پر چند دن کی چھٹی دیی جائے گی! میں سمجھتا ہوں بے نام اور بے ہودہ تبصرے بلاگرز کو اپنے بلاگ سے ہٹا دینے چاہئے! یہ خود صاحب بلاگ کے لئے اچھا ہے)
11 تبصرے:
انکا کاں چٹا ہے۔
میں محترمہ کو سمجحا چکا ہوں کہ والد کی شناخت مستعار لے کر تبصرہ کرنے والے خود اپنی ہی نہیں اس کی بھی بات کی اہمیت ختم کر رہے ہیں مگر وہ سمجھنے میں کافی وقت لیتی ہیں۔
مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ کسی تحرير اور اس پر تبصرے کی اصلاح کی کوشش ميں لکھ رہے ہيں ۔ ميں آپ کی ايک ايک بات سے متفق چلا آ رہا تھا ۔ ميں نے ساری زندگی يہی محسوس کيا ہے کہ ہماری قوم کے افراد سچا جھوٹا پراپيگنڈہ کر کے اپنی قوم کو بدنام کرتے ہوئے يہ بھول جاتے ہيں کہ وہ خود بھی بدنام ہو رہے ہيں ۔ ميں اس کے متعلق لکھ چکا ہوں کہ ميں نے دنيا ميں صرف اپنے ہموطنوں کو ہی اپنی قوم يا ملک کی بدنامی کرتے ديکھا اور کسی قوم کے افراد کو ايسا کرتے نہيں ديکھا
چند لوگ ايسی باتيں اخبارات اور بلاگز پر مزے لے لے کر لکھتے ہيں قوم کو بدنام کرنے کيلئے ۔ وہ اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہيں کہ وہ اپنے آپ کو قوم ميں سے اچھا ثابت کر رہے ہيں
عنيقہ ناز صاحبہ کو ميں نے مخلصانہ طور پر سمجھانے کی کوشش کی تھی تو وہ اتنی بوکھلا گئی تھيں کہ جابجا وہ مجھ پر بہتان تراشنے لگيں اور ميرا تمسخر اُڑانے لگيں ۔ جتنی بے بنياد باتيں وہ لکھتی ہيں اتنی کسی اور بلاگ پر ميں نے نہيں ديکھيں ۔ اُن کے سچ کا يہ حال ہے کہ کسی نے انہيں بکواس قسم کے تبصرے حذف کرنے کا کہا تو جواب ديا کہ "ميرے پاس تبصرے پڑھنے کا وقت ہی نہيں ہوتا"۔ اسی تحرير پر انہوں نے فٹ فٹ لمبے تبصروں کے جواب بھی لکھے ہوئے تھے
ہم بھی معاشرے کی برائیوں کے خلاف لکھتے ہیں۔
لیکن جن کا کاں چٹا ہوتا ھے ناجی۔
وہ تمام برائیاں دوسروں کے سر لگا کر ہاتھ جھاڑتے ہیں۔
اور ہاتھ جھاڑ کر کہتے ۔
ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب سمجھ آئی؟
بندہ کہہ دے نہیں! تو جناب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تجربہ تو ہوا ہوگا؟
اب آپکی اس پوسٹ میں جو تبصرے ہیں وہ ایک مخصوص گروپ سے ہی تعلق رکھتے ہیں اسکے علاوہ نہیں۔
صرف میرا نہیں آپ سب کا بھی کاں چٹا ہے اگر آپ اسے سمجھ سکیں تو۔
شاہ محمود قریشی صاحب نے بھی یہی کہا کہ میڈیا کے اس غیر ذمہ دار روئیے کی وجہ سے کوئ حکومت کو امداد دینے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ انکا کاں بھی چٹا ہے۔ ادھر ساری دنیا کے ممالک کہہ رہے ہیں کہ انکا تو کام ہی مانگنا ہے۔ یا تو مانگتے ہیں یا دہشت گردی پھیلاتے ہیں ۔ انکا کاں بھی چٹا ہے۔
زرداری صاحب کا کہنا ہے کہ سیلاب میں مناسب امداد نہ ملنے کی وجہ سے طالبان مضبوط ہونگے انکا کاں بھی چٹا ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق جنوبی پنجاب سے آنے والے سیلابی پانی میں اینٹی کرافٹ اسلحہ سمیت دیکگر اسلحہ بھی بہہ کر آرہاہے۔ انکا کاں بھی چٹا ہے۔
سندھ میں مختلف سیاستدانوں پہ الزام ہے کہ انہوں نے اپنی زمینوں کو بچانے کے لئے عوام کو ڈبو دیا۔ انکا کاں بھی چٹا ہے۔
ادھر بلوچستاں میں عین اس سیلابی آفت میں سولہ پنجابیوں کو ٹارگٹ کلنگ میں مار دیا، انکا کاں بھی چٹا ہے۔
خیبر پختونخواہ میں بھی سیلابی ریلہ آیا ہے۔ لیکن اس وقت ہم صرف دو صوبوں کے حالات سے کما حقہ واقف ہیں انکا کاں بھی چٹا ہے۔
ابحی بہت سارے چٹے کاں کی تفصیلات باقی ہیں۔
آپ لوگوں نے گورے ہونے کے اس زمانے میں اب تک کس طرح اپنے اپنے کووں کو کالا رکھا ہوا ہے۔ اس پہ کچھ روشنی ڈالیں گے۔
افتخار اجمل صآحب آپ ان لوگوں میں شامل ہیں جو ابھی نومان کی اتحاد باہمی پیدا کرنے والی پوسٹ پہ اپنا اتحاد باہمی سے بھرپور بیان ڈال کر آئے تھے۔ آپ سب لوگ اپنی اپنی باتوں کی کچھ دنوں تک تو خیال رکھا کریں۔
میں فٹ فٹ لمبے تبصرے اور بلاگ دونوں لکھتی ہوں اس لئے کہ لکھ سکتی ہوں اور پڑھنے والے پڑھ بھی لیتے ہیں۔ میری بے بنیاد باتیں آپ کیوں پڑھتے ہیں۔ آپ سب کو میں پہلے بھی مشورہ دے چکی ہوں کہ مت پڑھیں۔ خالص سچ کا پروپیگینڈہ کرنے کے لئے آپ سب کے پاس اپنے بلاگ ہیں وہ لکھا کریں۔
شعیب صفدر صاحب، مناسب بات تو اس وقت ہوتی جب آپ اس تبصرے کی رد میں تحریری ، دستاویزی ثبوت پیش کرتے۔ آپ نے کیا کیا، چند بے سرو پا باتیں جو آپکی پوسٹ کے مرکزی خیال سے مطابقت نہیں رکھتیں انہیں یہاں ڈالدیا۔ یہ آپ نے کس قدر اعلی اخلاقی حرکت کی ہے، ایک چیز کا مطالبہی آپ مجھ سے کرتے ہیں مگر خود وہ کرنے سے قاصر ہیں۔ اور اس پہ دوسرے لوگ کسی اور وقت کے پھپھولے آکر پھوڑنا شروع ہو گئے۔
آُ سب لوگوں کو اپنی طبیعتوں کا یہ تضاد دور کرنے کی فرصت کب ملے گی۔
عنیقہ ناز صاحبہ بار ثبوت الزام لگانے والے پر ہوتا ہے! نہ نہ اُس سے انکار پر!!۔
باقی جن باتوں کو آپ بے سروہا کہہ رہی ہیں ممکن ہیں کہ وہ بے سروپا ہی ہو مگر ان کے بیان کا مقصد یہ تھا کہ ہم خود اپنی بدنامی کمانے اور باتوں کی تصدیق کے بغیر اُن کی حمایت کرنے یا آگے بڑھانے میں پیش پیش ہوتے ہیں جو ایک غلط عمل ہے!!۔
اس تحریر میں کون کون سے بات مرکزی بات سے تعلق نہیں رکھتی اُس کی نشاندہی کر دیں میں سمجھا دوں گا کہ کیسے تعلق رکھتی ہے!!!۔
جن احباب کے تبصرہ مٹائے گئے وہ میعاری نہ تھے اس بناء پر مٹائے گئے ہیں!۔
سکریہ
جو آدمی بھوکا مر رہا ہو۔۔۔ مُلک کے حالات نے اُس کا جینا حرام کر رکھا ہو۔۔۔ یا تو وہ چُپ کر کے سسک سسک کر زندگی گزار کر مر جائے گا یا پھر اُسکا اندر اُسے اتنے آرام سے بیٹھنے نہیں دے گا۔۔۔ اب وہ اِن حالات اور معاشرے کی اصلاح بھی نہیں کر سکتا تو بتائیے کہ کیا کیا جائے؟ کیا وہ اِس صورت حال میں کسی کو بُرا بھلا بھی نہ کہے؟ ہاں اگر ٖکسی بات کی غلط تشہیر کی جاتی ہے تو وہ غلط ہے۔
اور بھوپال کشمیری صاحب:: اخبارات میں اگر مُلک کے خلاف لکھنے سے مراد صرف شہرت ہے تو یہ واقعی غلط ہے وگرنہ کوئی بُری بات نہیں۔۔۔ جب تک بُرائی کے خلاف آواز مت اُٹھاو یہاں کون سُنتا ہے؟
شعیب صاحب، میرا خیال ہے کہ آپ چونکہ عرصہ ء پانچ سال سے بلاگنگ کر رہے ہیں اس لئے آپکو اپنی بات سمجھآنے کے لئے علیحدہ سے کلاس لینے کی ضرورت نہیں یہ اس تحریر میں کھلے طور پہ موجود ہے البتہ اسے بیان کرنے کےے لئے جو مثالیں آپ نے اٹھآئ ہیں وہ اس سے تعلق نہیں رکھتیں۔ اسکے لئے آپ خود اسے بار بار پڑھیں۔ کیا آپ اپنے امتحانی پرچے کے نیچے بھی یہی لکھ دیا کرتے تھے کہ مزید سمجھنے کے لئے مجھ سے رابطہ کریں۔
آپ نے جس جگہ سے یہ تبصرہ اٹھآیا ہے اس پوسٹ کے مندرجات میں، میں نے جو بات فوج کے متعلق لکہی آپکی دلچسپی اس میں پیدا نہیں ہو سکی۔ یہ اس تبصرے میں مکمل طور پہ جو بات کہی گئ وہ آپ نے نہیں پڑھی۔ آلبتہ چونکہ آپکی ہمدردیاں فوج کے ساتھ شاید ہمیشہ رہی ہیں مشرف کو ہٹا کر اس لئے آپکو یہ برا لگ گیا۔ آپ بغیر کسی دستاویزی ثبوت کے ان چیزوں پہ یقین رکھتے ہیں جو آپ نے بیان کیں۔ اور آپ نے لکھ دیا کہ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے یہ یوں ہے۔
میں جس چیز کی وجہ سے اس بات پہ یقین رکھتی ہوں وہ بنیادی شیادتیں ہیں، جو آرمی کی پچھلی تریسٹھ سالہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ جیسے موئین جو ڈرو کے کھنڈرات کی وجہ سے آپ یقین رکھتے ہیں کہ یہاں پانچ ہزار سال پہلے ایک ترقی یافتہ تہذیب موجود تھی۔
آپ نے لکھا کہ میں نے اسکی تشہیر کی۔ درست جملہ یہ ہونا چاہئیے کہ کسی نے یہ تبصرہ میرے بلاگ پہ کیا کیا اور وہ میرے بلاگ پہ ظاہر ہوا۔ میرے نزدیک تبصرہ ایک تحریر پہ آپکے اردگرد موجود لوگوں کا رد عمل ہے۔ وہ منفی بھی ہو سکتا ہے اور مثبت بھی۔ ہر تبصرے کو شائع ہونا چاہئیے اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپکے معاشرے کو لوگ بطور ایک سوسائیٹی کیا سوچتے ہیں۔
مجھے ماڈریشن کرنا کبھی پسند نہیں رہا، میں نے اسکی تشہیر کی ہوتی تو میں اس پہ علیحدہ سے ایک تحریر لکھتی۔
آپکے بزرگ بلاگر جو ہر غکط بے بنیا اور جھوٹی بات کو پھیلانا خدا کی طرف سے عطا کردہ مخصوص اختیارات کی وجہ سے اپنے لئے جائز سمجھتے ہیں انکی بات کو دوہراتی ہوں کہ کسی بات کو بغیر تصدیق کے پھیلانا جھوٹ ہے۔ میں نے آج سے دو میہینے پیشتر کہا کہ مجھے بالکل فرصت نہیں ہے کہ میں بیٹھ کر چیک کروں کے تبصروں کو ماڈریٹ کرنے کے ممکنہ طریقے کیا ہو سکتے ہیں تو یہ بات اتنی ہی سچ ہے جتنی یہ کہ یہ کہ میں اس وقت جب آپکو لکھ رہی ہوں اس وقت دن ہے۔
مگر وہ اتنی بنیادی اخلاقیات سے قطعاً ناواقف ہیں۔ ہر انسان مجھ اور آپ سمیت کبھی بالکل فارغ نہیں ہوتا اور کبھی زیادہ فارغ ہوتا ہے۔ ہم سب ان حالات سے گذرتے ہیں۔ مگر وہ چونکہ اس عمر میں اس مہم پہ ہیں کہ دوسرے لوگوں کو اخلاقی لحاظ سے کم تر ثابت کرنے کا ریکارڈ قائم کریں تو انکے لئے یہ روا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ آپ سمیت کچھ لوگوں نے انہیں اپنا مرشد بنایا ہوا ہے۔ اب ہم دیکھ سکتے ہیں کہ آج سے کچھ عرصے بعد آنے والی پچھتر سالکہ نسل کیا ہوگی اگر ہم بطور ایک قوم بچے تو۔ خدا بعد میں آنے والوں پہ اپنا رحم کرے، انہیں ہمت دے۔
میں نے اپنے ہی لکھے بلاگ کو دوبارہ پڑھ لیا ہے اپ کے کہنے پر مجھے کوئی مثال اپنی بات سے مکتلف نہین لگتی اور مجھے لگتا ہے آپ بھی ایسا نہین ثابت کر سکتی اس لئے ہی نہین بتایا آپ نے۔ امتحانی پرچے اور بلاگنگ مین بہت فرق ہے! دوئم امتحانی پرچے میں تو میں بڑی ہی کتابی باتیں لکھتا ہو اور بلاگنگ میں حقیقی بڑا فرق ہے۔ اپنی بات دوسرے تک پہنچانے کے لئے مین بلاگ لکھتا ہوں لہذا اس لئے کلاس بھی لینی پڑے تو کوئی حرج نہیں ہے!!
جہاں تک میری ہمدردی کی بات ہے تو وہ اصل میں کسی ادارے کے ساتھ نہیں البتہ ناسمجھ لوگوں کے ساتھ ضرور ہوتی ہیں! جیسے مشرف! اور ۔۔۔۔۔۔ رہنے دیں!
باقی غلط بات غلط ہے آپ نے فوج کے بارے میں کیا کہا تھا پوسٹ اور تبصرے میں؟
“ان حالات میں کوئ اس انتشار کے درمیان ذرا بھی اتحاد کی علامت بنا ہوا ہے تو وہ پاک افواج ہیں لیکن افواج کی تربیت تحفظ کے لئے ہوتی ہے۔ ملک کی ترقی کی منصوبہ سازی کرنا، عوام کو ایک بہتر زندگی گذارنے کی سہولیات دینا ان میں ایک کامیاب قوم ہونے کا جذبہ پیدا کرنا یہ انکا کام نہیں۔"
اس جملے سے کہی بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ فوج اپنا اصل کام کر رہی ہے بلکہ یون لگتا ہے جیسے آپ کہہ رہی ہوں کہ جو کام فوج کر رہی ہے وہ اُس کا کام نہیں!
بزرگ کے بارے میں اپ کی جو رائے ہے اُس پر کوئی تبصرہ نہیں! وہ آپ جانے اور وہ۔
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔