Pages

8/03/2010

دوپٹہ

عالمی اخبار کے بلاگ پر اج "نادیہ بخاری" کا یہ بلاگ پڑھا اچھا لگا اس لئے یہاں شیئر کر رہا ہوں۔
اٹھارہ سالہ شکیلہ میرے ہاسٹل میں تقریبا دس سال سے ملازمہ ہے میرے ہا سٹل مالکان ابھی کچھ دن پہلے ہی امریکہ سے واپس ائے اور کافی سامان بھی ساتھ لائے کل میں کچن میں کھڑی تھی تو شکیلہ مجھے کہنے لگی باجی امریکی پاگل ہیں کیا ؟میں نے حیرت سے جواب دیا نہیں کیوں کیا ہوا؟ کہنے لگی دیکھیں نہ باجی اپ کے پیچھے جو چپل پڑی ہے وہ ہاسٹل والی باجی امریکہ سے لائی ہے اور اس پر امریکہ کا جھنڈا بنا ہوا ہے بھلا بتاو کوئی جھنڈا بھی اپنے پاوں میں پہنتا ہے مجھے شکیلہ کی پریشانی میں لطف انے لگا میں نے شکیلہ کو چھیڑنے کے لئے کہا کہ شکیلہ تیرا کیا بھروسہ ابھی ہوسٹل والی باجی نے کوئی پرانا سا پاکستانی جھنڈا نکالنا ہے اور تو نے اس سے جھاڑ پونچھ شروع کر دینی ہے تو فورا شکیلہ بولی ہاے بخاری باجی میں مر نہ جاوں جو میں اپنے ملک کے جھندے کو اس مقصد کے لئے استعمال کروں میرے ملک کا جھنڈا تو میرے سر کا دوپٹہ ہے بھلا کوئی دوپٹہ کی بھی بے قدری کرتا ہے شکیلہ نے اپنی زندگی میں ابھی تک سکول کا منہ نہیں دیکھا لیکن اس کی سوچ یقینا ان کئی نوجوانوں سے افضل ہے جو اپنی تعلیم سے تخریب کاری کا سامان تیار کر کے ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں جہاں شکیلہ جیسے حب الوطن نوجوان ہوں بھلا بتائیں کہ کیا کبھی اس ارض پاک کی طرف کوئی دشنمن میلی انکھ سے دیکھ سکتا ہے؟


9 تبصرے:

گمنام نے لکھا ہے کہ

بہت عمدہ و اعلٰی
شرم ہم کو مگر فیر وی نی آنی

عثمان نے لکھا ہے کہ

اس واقعے سے آپ نے ایک اور دلچسپ نتیجہ نہین نکالا
امریکی کمپنی جس نے جوتوں پر جھنڈا بنا یا ان کی حب الوطنی کے متعلق۔
شائد آپ کو معلوم نہیں کہ امریکی اپنے ملک سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی؟
سادہ لوحی کے بارے میں آپ نے کبھی سنا ہے؟

عنیقہ ناز نے لکھا ہے کہ

لکھنے والی نے اس پاکستانی کو نہیں دیکھا جو چودہ اگست پہ لگائے جانے والے پاکستانی جھنڈے کو لپیٹ کر نالے کے کنارے پڑا تھا۔ اور دوسری جانب گاڑیاں رواں دواں تھیں۔
واقعی شرم ہم کو مگر نہیں آتی۔
یہ ڈائیجستوں کی کہانیاں، حقیقی دنیا سے اتنی الگ کیوں ہوتی ہیں۔

گمنام نے لکھا ہے کہ

شکیلہ پڑھی لکھی معلوم ہورہی ہے.....

Noumaan نے لکھا ہے کہ

آپ کی یہ تحریر پڑھنے کے کچھ دیر بعد گھر سے باہر نکلا تو ہماری بلڈنگ کی سیڑھیوں پر یہ منظر دیکھا:


http://www.facebook.com/photo.php?pid=4965805&l=2fa3b1450d&id=504332694

یاسر خوامخواہ جاپانی نے لکھا ہے کہ

بہت عمدہ۔

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے کہ

اگر يہ واقعہ سچ ہے تو شکيلہ پڑھی لکھی نہيں ہے بلکہ تعليم يافتہ ہے ۔ آج کی دنيا ميں پڑھنا لکھنا عام طور پر اسناد حاصل کرنے کا ذريعہ ہے ۔ تعليم کا نہيں

تانيہ رحمان نے لکھا ہے کہ

کاش 14اگست کو شکيلہ پاکستان کی سڑکوں کا چکر لگائے تب پتا چلے گا ، گاوں اور عمارتوں پر لگائي گئی جھنڈياں اگلے دن زمين پر پڑی پاوں کے نيچے روندي جاتي ہیں

علی نے لکھا ہے کہ

او بھائی جی پاکستان سنبھلتا نہیں اسکا جھنڈا کہاں سے سنبھالیں
اور بھی کام ہیں ضروری اس سے ہاں جی

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے

نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔