ہم اب ایک جدید دور کا حصہ ہیں، یہ ایسا دور ہے جہاں اہل عقل کو بات سمجھنے میں کم ہی دشواری ہوتی ہے۔ اس جدید دور کا کمال ہے نئی ٹیکنالوجی، جس میں دن بدن تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔
ہمیں یاد ہے ہمارا پہلا تعارف جس شخص یعنی دوست نے انٹرنیٹ سے کروایا تھا ہم نے اُس کا مذاق اس بات پر اُڑایا کہ وہ ہمیں بے وقوف بنا رہا ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنے گھر میں کمپیوٹر آن کریں اور دوسرا بندہ اپنے گھر میں! تب وہ ایک ٹیلی فون کی تار کی وجہ سے جان جائے کہ میں نے کمپیوٹر آن کیا ہے اور یہ ہی نہیں وہ مجھ سے تحریری گفتگو کر سکتا ہے۔ مگر پھر اپنے علاقے میں موجود واحد و قریب تب ہفتہ قبل ہی افتتاح ہونے والے کمپیوٹر انسٹیٹیوٹ کے اُستاد سے اجازت لے کر وہاں انٹرنیٹ چلاکر تصدیق کی تو یقین آیا۔
بعد میں ہم نے اس ایجاد کی جو تباہ کاریاں دیکھیں خدا کی پناہ، سچ تو یہ ہے ہم خود بھی اس کا شکار رہے تھے۔ نیٹ کیفے پر ای میل تو کیا یار لوگ چیک کرتے اصل میں تو اُس دور میں کئی بابا، بابو نام کےدیسی ویب ایڈریس ہمارے ہم عمروں میں مشہور تھے جو فحاشی کا مکمل سامان لئے ہوئے تھیں جن پر وقت برباد کیا جاتا اور دماغ خراب۔ درمیان میں ہم بقول شخصے مذہبی "انتہا پرستوں"کے قریب نہ جاتے تو شاید اس تباہ کاری سے کافی متاثر ہو چکے ہوتے مگر کہتے ہیں ناں جو ہوتا ہے اچھے کے لئے ہوتا ہے۔
اس میں کوئی شک شبہ نہیں انٹرنیٹ و جدید ٹیکنالوجی اپنے مثبت استعمال میں اپنے منفی استعمال کے مقابلے میں کئی گنا ذیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ کیا چھڑی کے استعمال کی مثال بزرگ اس موقعے پر دیتے ہیں مگر اس سےبھی انکار ممکن نہیں ایسا اُس وقت ہی ممکن ہے کہ کوئی اُس ناسمجھ ذہن کو اس کے منفی استعمال کے خطرات سے آگاہ کر دے یا وہ ماحول مہیا کرے کہ عمومی رجحان مثبت سرگرمی کی طرف رہے! اخلاقی تربیت اس سلسلے میں بہت اہم ہے۔
انٹرنیٹ سے ہر شے اچھی و بُری اب آپ کی پہنچ میں ہے، ان میں ایک شے جو ہماری تہذیب میں داخل ہو رہی ہے وہ ایک عجیب قسم عریانی ہے جو زندگیاں اور سماج دونوں کو تباہ کر رہی ہے۔ مجھے یاد ہے راولپنڈی والے کیفے اسکینڈل کے بعد جب چند لڑکیوں اور اُن کے خاندان کی زندگیاں تباہ ہوئی تھی تو کہیں جا کر نیٹ کیفے میں مخصوص ملاقاتوں کا رجحان کم ہوا تھا اُس وقت تنہائی کی ملاقاتوں کو کیفے مالک میں خفیہ طور پر ریکارڈ کیا تھا مگر اب عجیب صورت حال ہے دونوں خود مرضی سے موبائل کیمرے میں اپنی ایسی غیر اخلاقی سرگرمیوں کو محفوظ کرتے ہیں اس میں عموما لڑکیوں کی معصومیت اور لڑکوں کی شیطانیت کا ہاتھ ہوتا ہے مگر کچھ لڑکے و لڑکیاں ایسا شوق میں بھی کرتے ہیں شیئر کرنے کی نیت سے،ہمیں یاد ہے ایسے ہی چند کیس جب خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھ آئے تھے ریمبو سینٹر کے تو کافی تھر تھلی مچی تھی مگر ایجنسیوں نے حکمت عملی سے یہ معاملہ میڈیا سے دور رکھ کر ختم کیا! جو احسن قدم تھا دیکھنایہ ہےیہ اخلاقی گڑواہٹ ہم میں آئی کیوں؟
انٹرنیٹ پر یہ اخلاقی گڑواہٹ ایک مکمل صنعت کی شکل اختیار کر چکی ہے، انڈیا اور پاکستان کے چند گروپ مل کر یہ کاروبار چلا رہے ہیں! کئی بلاگ، فورم اور ویب سائیٹ موجود ہیں دس میں سے چار موبائلوں میں ایسا کوئی ناں کوئی فحش مواد پایا جاتا ہے جو انٹرنیٹ سے ڈالا ہوتا ہے۔ ایسی ہی اخلاقی پستی کی شکار ایک لڑکی کا قصہ ذیل میں ہے۔
ایسے موضوعات پر لکھنے سے ڈر لگتا ہے، یہ کئی اعتبار سے!
ہمیں یاد ہے ہمارا پہلا تعارف جس شخص یعنی دوست نے انٹرنیٹ سے کروایا تھا ہم نے اُس کا مذاق اس بات پر اُڑایا کہ وہ ہمیں بے وقوف بنا رہا ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنے گھر میں کمپیوٹر آن کریں اور دوسرا بندہ اپنے گھر میں! تب وہ ایک ٹیلی فون کی تار کی وجہ سے جان جائے کہ میں نے کمپیوٹر آن کیا ہے اور یہ ہی نہیں وہ مجھ سے تحریری گفتگو کر سکتا ہے۔ مگر پھر اپنے علاقے میں موجود واحد و قریب تب ہفتہ قبل ہی افتتاح ہونے والے کمپیوٹر انسٹیٹیوٹ کے اُستاد سے اجازت لے کر وہاں انٹرنیٹ چلاکر تصدیق کی تو یقین آیا۔
بعد میں ہم نے اس ایجاد کی جو تباہ کاریاں دیکھیں خدا کی پناہ، سچ تو یہ ہے ہم خود بھی اس کا شکار رہے تھے۔ نیٹ کیفے پر ای میل تو کیا یار لوگ چیک کرتے اصل میں تو اُس دور میں کئی بابا، بابو نام کےدیسی ویب ایڈریس ہمارے ہم عمروں میں مشہور تھے جو فحاشی کا مکمل سامان لئے ہوئے تھیں جن پر وقت برباد کیا جاتا اور دماغ خراب۔ درمیان میں ہم بقول شخصے مذہبی "انتہا پرستوں"کے قریب نہ جاتے تو شاید اس تباہ کاری سے کافی متاثر ہو چکے ہوتے مگر کہتے ہیں ناں جو ہوتا ہے اچھے کے لئے ہوتا ہے۔
اس میں کوئی شک شبہ نہیں انٹرنیٹ و جدید ٹیکنالوجی اپنے مثبت استعمال میں اپنے منفی استعمال کے مقابلے میں کئی گنا ذیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ کیا چھڑی کے استعمال کی مثال بزرگ اس موقعے پر دیتے ہیں مگر اس سےبھی انکار ممکن نہیں ایسا اُس وقت ہی ممکن ہے کہ کوئی اُس ناسمجھ ذہن کو اس کے منفی استعمال کے خطرات سے آگاہ کر دے یا وہ ماحول مہیا کرے کہ عمومی رجحان مثبت سرگرمی کی طرف رہے! اخلاقی تربیت اس سلسلے میں بہت اہم ہے۔
انٹرنیٹ سے ہر شے اچھی و بُری اب آپ کی پہنچ میں ہے، ان میں ایک شے جو ہماری تہذیب میں داخل ہو رہی ہے وہ ایک عجیب قسم عریانی ہے جو زندگیاں اور سماج دونوں کو تباہ کر رہی ہے۔ مجھے یاد ہے راولپنڈی والے کیفے اسکینڈل کے بعد جب چند لڑکیوں اور اُن کے خاندان کی زندگیاں تباہ ہوئی تھی تو کہیں جا کر نیٹ کیفے میں مخصوص ملاقاتوں کا رجحان کم ہوا تھا اُس وقت تنہائی کی ملاقاتوں کو کیفے مالک میں خفیہ طور پر ریکارڈ کیا تھا مگر اب عجیب صورت حال ہے دونوں خود مرضی سے موبائل کیمرے میں اپنی ایسی غیر اخلاقی سرگرمیوں کو محفوظ کرتے ہیں اس میں عموما لڑکیوں کی معصومیت اور لڑکوں کی شیطانیت کا ہاتھ ہوتا ہے مگر کچھ لڑکے و لڑکیاں ایسا شوق میں بھی کرتے ہیں شیئر کرنے کی نیت سے،ہمیں یاد ہے ایسے ہی چند کیس جب خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھ آئے تھے ریمبو سینٹر کے تو کافی تھر تھلی مچی تھی مگر ایجنسیوں نے حکمت عملی سے یہ معاملہ میڈیا سے دور رکھ کر ختم کیا! جو احسن قدم تھا دیکھنایہ ہےیہ اخلاقی گڑواہٹ ہم میں آئی کیوں؟
انٹرنیٹ پر یہ اخلاقی گڑواہٹ ایک مکمل صنعت کی شکل اختیار کر چکی ہے، انڈیا اور پاکستان کے چند گروپ مل کر یہ کاروبار چلا رہے ہیں! کئی بلاگ، فورم اور ویب سائیٹ موجود ہیں دس میں سے چار موبائلوں میں ایسا کوئی ناں کوئی فحش مواد پایا جاتا ہے جو انٹرنیٹ سے ڈالا ہوتا ہے۔ ایسی ہی اخلاقی پستی کی شکار ایک لڑکی کا قصہ ذیل میں ہے۔
ایسے موضوعات پر لکھنے سے ڈر لگتا ہے، یہ کئی اعتبار سے!