ہمیں نہیں معلوم کبھی برہنگی کو قبول کیا گیا ہو! یہ ہی نہیں بلکہ یہاں تک کہ ننگاپن ہمیشہ گالی ہی رہی ہے، خواہ کوئی معاشرہ ہو یا تہذہب! قریب ہر زبان میں کسی کی بےعزتی کے لئے عام طور پر جو جملے بھی کےجائے اُن میں ایک آدھ ایسا ہوتا ہے جو برہنگی کو ظاہر کرے جیسے ہماری زبان میں "تمہاری اس حرکت میں تمہیں سب کے سامنے ننگا کر دیا"۔ یا خود اس انگریزی زبان کے اس محاورے سے اندازہ لگائے "need makes naked man run" یعنی برہنہ ہونا لامحالہ ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔
لباس کا اصل مقصد جسم کو ڈھاپنا ہی رہا ہے باقی تمام فیکٹر ثانوی ہیں۔ جسم کی بےپردگی کسی طور پر تنہائی میں بھی جائز نہیں یعنی خود سے پردہ بھی ضروری ٹہرا اس کے کئی اخلاقی و نفسیاتی پہلو ہیں۔ ہمارے دین میں تو علاج کے لئے بھی ضرورت سے ذیادہ برہنہ ہونا درست نہیں! حیاء ایمان کا حصہ ہے۔ ایسے میں کسی اور شکل میں ایسا کرنا کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے؟
یوں تو اسکینر اسکرین پر جسمانی خدوخال دیکھتے ہوئے اگر کوئی سیکورٹی آفسر غیر مہذب حرکت میں پایا گیا تو اُسے سزا دی جئے گی جو 90 ڈالر تک جرمانے کی شکل میں بھی ہو سکتی ہے، دوسری جانب اسکین سے انکار کرنے والے مسافر کو اپنی سفری اخراجات کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔
کیا آپ اس اسکینر سے گزرنے میں اجتناب کرے گے؟ یا نہیں؟ خاص کر اُس وقت آپ کا رد عمل کیا ہو گا جب مخالف جنس اسکینر کی اسکرین پر نظر رکھے ہوئے ہو اور ایسا ہی اپنے خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ ہونا منظور کریں گے؟
ہمارے دوست کہتے ہیں کہ لو کر لو گل اب امریکہ ملک داخل کرتے ہوئے بھی اور نکالتے وقت بھی ننگا کرے گا!۔ ویسے اپنے تحفظ کے نام پر ہمارے تحفظ پر وار نہیں کیا گیا کیا؟
لباس کا اصل مقصد جسم کو ڈھاپنا ہی رہا ہے باقی تمام فیکٹر ثانوی ہیں۔ جسم کی بےپردگی کسی طور پر تنہائی میں بھی جائز نہیں یعنی خود سے پردہ بھی ضروری ٹہرا اس کے کئی اخلاقی و نفسیاتی پہلو ہیں۔ ہمارے دین میں تو علاج کے لئے بھی ضرورت سے ذیادہ برہنہ ہونا درست نہیں! حیاء ایمان کا حصہ ہے۔ ایسے میں کسی اور شکل میں ایسا کرنا کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے؟
دوسروں کو برہنہ دیکھنے کا شوق رکھنا ایک بیماری بھی ہے! ہم نے ایسے لوگوں کو لوگوں کو برہنہ دیکھنے والے آلہ (چشمہ) کے ہونے اور اُس کو خریدنے کی خواہش کرتے دیکھا ہے لگتا ہے اسی شوق کے مکمل کرنے کے سلسلے میں آج کل امریکہ و چند ایک مغربی ممالک میں ایئرپورٹ پر ایسے سکینر لگائے ہی جو لباس کے بغیر جسم دیکھ لیتے ہیں! دہشت گردی کی جنگ میں ہم جن کے اتحادی ہیں انہوں نے خاص کر پاکستانیوں کو ننگا کرنے کا انتظام اپنے ایئرپورٹ پر کر رکھاہے۔ کئی یار دوست اس اسکینر سے گزرنے سے انکار کر چکے ہیں جن میں چند ہمارے سینیٹر تو امریکہ میں داخل ہوئے بغیر ہی انکار پر واپس آ گئے! ایک ہندوستانی اداکار شاہ رخ اپنے ان اسکینرز سے گزرنے کی داستان سنا چکا ہے۔
اس اسکینر سے انسانی جسم کے خدوخال اور اُس پر سادہ سا Nagatrive ٹول کے استعمال سے اس شکل یوں ہو جاتی ہے۔ کیا اس کو ایک سالم رنگین تصویر میں بدلنا مشکل ہو گا؟یوں تو اسکینر اسکرین پر جسمانی خدوخال دیکھتے ہوئے اگر کوئی سیکورٹی آفسر غیر مہذب حرکت میں پایا گیا تو اُسے سزا دی جئے گی جو 90 ڈالر تک جرمانے کی شکل میں بھی ہو سکتی ہے، دوسری جانب اسکین سے انکار کرنے والے مسافر کو اپنی سفری اخراجات کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔
کیا آپ اس اسکینر سے گزرنے میں اجتناب کرے گے؟ یا نہیں؟ خاص کر اُس وقت آپ کا رد عمل کیا ہو گا جب مخالف جنس اسکینر کی اسکرین پر نظر رکھے ہوئے ہو اور ایسا ہی اپنے خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ ہونا منظور کریں گے؟
ہمارے دوست کہتے ہیں کہ لو کر لو گل اب امریکہ ملک داخل کرتے ہوئے بھی اور نکالتے وقت بھی ننگا کرے گا!۔ ویسے اپنے تحفظ کے نام پر ہمارے تحفظ پر وار نہیں کیا گیا کیا؟
12 تبصرے:
تو آپ امریکہ کب جا رہے ہیں..؟
ہماری بے غیرتی پر شک نہ کریں
ہماری میجارٹی کو کوئی سکینر آنے جانے سے نہیں روک سکتا
شعیب صاحب۔۔ نا معلوم کیا وجہ ہے کہ آپ آج کل غیر مصدقہ اور غلط معلومات اپنے بلاگ پر شائع کررہے ہیں۔۔ ابھی پچھلی کسی پوسٹ میں آپ نے غلط تصویر شائع کی تھی اور اس بلاگ میں بھی غلط معلومات جو عام طور پر جذبات ابھارنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے مثلا اسکینر پاکستانیوں کے لیے نہیں بلکہ تمام مسافروں کے لیے ہیں چاہے ان کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو۔۔ دوم شاہ رخ خان کو اس اسکینر سے نہیں گزارا گیا تھا جس کا آپ کی پوسٹ میں حوالہ ہے کیونکہ یہ مارچ 2010 سے لگائے جائے گیں؛ شاہ رخ خان کا مسئلہ دیر تک تفتیش کرنے کا تھا۔۔ سوم یہ کہ یہ اسکینر امریکی ایر پورٹس پر تمام مسافروں کے لیے اختیاری ہیں یعنی اگر آپ اس سے گزرنا نا چاہیں تو متبادل دستی تلاشی کے عمل سے گزرنا پڑے گا۔ پاکستانیوں اور چند کچھ اور ممالک کے نوجوان مردوں کے لیے اسپیشل رجسٹریشن ایک ایسا عمل ہے جو امتیازی کہا جاسکتا ہے ورنہ ائر پورٹ کے گیٹ سے لے کر جہاز کی سیٹ تک تمام مسافر ایک ہی سیکیورٹی سے گزرتے ہیں چاہے ان کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو۔
http://www.tsa.gov/approach/tech/imaging_technology.shtm
ہو سکتا ہے کہ شعيب صفدر صاحب کی معلومات نامکمل ہوں يا سو فيصد درست نہ ہوں مگر يہ اُسی انٹرنيٹ سے حاصل کی گئی ہيں جس کے حوالے عصرِ حاضر ميں کسی دليل کو معتبر بنانے کيلئے استعمال کئے جاتے ہيں ۔
راشد کامران صاحب نے عمل کو ضرورت سے زيادہ سادہ اور بے ضرر بنانے کی کوشش کی ہے ۔ ميں نے وہ جديد سکينر تو ابھی نہيں ديکھے جن کا تذکرہ آجکل ہے مگر آج سے دو دہائياں پرانے سکينر ميں جو کچھ ديکھا جا سکتا تھا اُس کا شاہد ہوں ۔ اُس ميں بھی کسی انسان کو ننگا ديکھا جا سکتا تھا سوائے اس کے کہ قدرتی رنگ کی بجائے سفيد کالے سليٹی رنگ ميں ۔ راشد کامران صاحب کا سب کے ساتھ ايک سلوک کا دعوٰی بھی عملی دنيا کی بجائے دفتری دنيا سے تعلق رکھتا ہے
میں شاید درست طرح لکھ نہیں سکا یا ہم لوگ ہر بات پر آنکھ بند کر یقین کرنے کے عادی ہیں چاہے معمولی سی سوچ بچار کڑیاں ملا کر ان کی صداقت پرکھی جاسکتی ہے۔۔ اب ہمارے سنیٹر ایک ڈومیسٹک ٹرپ میں اپنی نیشنلٹی کو ایشو بنار رہے ہیں جہاں نیشنلٹی، ویزا وغیرہ کا ایشو عموما نہیں ہوتا اور لگا بندھا پراسیس ہوتا ہے اور اسکینر اسی پراسیس کا حصہ ہیں۔۔ اسکینرز کے اوپر یہاں بھی سول رائٹس کی ہر تنظیم کو تشویش ہے کیونکہ ہر پیسنجر کو اس سے گزرنا پڑ رہا ہے؛ یورپ میں غالبا یہ اختیاری نہیں لیکن امریکہ میں اختیاری ہے۔۔
اجمل صاحب نے انٹر نیٹ سے معلومات حاصل کرنے کی بات کی ہے تو انٹرنیٹ پر معلومات کہاں سے حاصل کی جارہی ہے یہ بڑا اہم ہوتا ہے۔۔ ٹی ایس اے کی ویب سائٹ پر دی گئی گائیڈ لائن اور ایکسپریس کے آن لائن مانیٹرنگ ڈیسک کی معلومات ایک جیسی نہیں ہوتیں۔
راشد کامران صاحب
آپ جس عمل کو اختياری کہہ رہے ہيں وہ کچھ اس طرح ہے کہ يا سکينر ميں سے گذرو يا کمرے ميں جا کر ننگے ہو جاؤ ۔ آپ کا يہ دعوٰی بھی درست نہيں کہ سب کے ساتھ ايک جيسا سلوک ہوتا ہے ۔ حتٰی کہ ويزہ کيلئے بھی پاکستانيوں کے ساتھ جو عام طور پر سلوک کيا جاتا ہے وہ مجرموں کا سا ہے ۔ میں 1999ء ميں امريکہ گيا تو نہ صرف ويزہ آفيسر بلکہ نيوآرک ميں اميگريشن آفيسر نے بھی ميرے ساتھ وی آئی پی کی طرح سلوک کيا اور دونوں جگہوں پر مجھے قطار کے آخر سے بُلا کر سب سے پہلے فارغ کر ديا ۔ جب ميں نے 2004ء ميں ويزہ کيلئے درخواست دی تو چند ماہ بعد ميری درخواست اور پاسپورٹ تفتيش کے بعد واپس ديئے گئے اور کہا گيا کہ فيس جمع کرا کے فلاں دن انترويو کيلئے آؤ ۔ انٹريو کے دوران مجھ سے ويزہ آفيسر عورت نے اس طرح گفتگو کی جيسے ميں ایک سزا يافتہ مجرم ہوں اور اُس سے معافی کی بھيک مانگ رہا ہوں
اجمل صاحب اب یہ گفتگو آپ اس جگہ لے جارہے ہیں جسے ذاتی تجربہ کہا جاتا ہے اور وہ ہر ایک کا مختلف ہوسکتا ہے۔۔ میری کوشش تھی کہ میں سب کے سامنے یہ پیش کروں کے عام پراسیس کیا ہے اور اس بلاگ میں خاص طور پر ڈومیسٹک سفر میں جس طرح قومیت کا مسءلہ اٹھایا گیا ہے ایسا نہیں ہوتا۔۔ لوکل ایمبیسی اور ٹی ایس اے کیا تعلق ہے جو یہ واقعہ بیان کیا جائے؟ اسپیشل رجسٹریشن کا عمل امتیازی سلوک ہے اور اس پر بات کی جانی چاہیے۔
راشد یار انکل اجمل سے ہونے والی تبصراتی جنگ کے علاوہ آپ نے تین باتیں کی جن میں ایک پچھلی پوسٹ کا حوالہ دیتے ہوئے غیر مصدقہ معلومات بیان کرنے کی جس کا جواب آئندہ پر رکھے باقی دو کے سلسلے میں یہ کہ شاہ رخ نے اپنا قصہ ان الفاظ میں بقول یاہو نیوز کے سنایا جس کا لنک اُوپر ساتھ ہی دیا ہے۔
I was in London recently going through the airport and these new machines have come up, the body scans. You've got to see them. It makes you embarrassed - if you're not well endowed.
'You walk into the machine and everything - the whole outline of your body - comes out.'
Khan said he did not know that the body-scans - installed in the wake of last year's abortive Christmas Day bombing of a transatlantic flight over Detroit - showed up every little detail of one's body.
'I was a little scared. Something happens [inside the scans], and I came out.
'Then I saw these girls - they had these printouts. I looked at them. I thought they were some forms you had to fill. I said 'give them to me' - and you could see everything inside. So I autographed them for them.'
انٹرنیٹ پر ہی کہیں پڑھا تھا کہ یہ تجرباتی طور پر لگائے گئے تھے۔ ممکن ہے مارچ 2010 کے بعد مستقل طور پر لگ جائے۔دوسرا یہ کہ ایک حوالہ بی بی سی کی خبر کا دیا تھا جس میں پاکستان کو اُن چودہ ممالک کی فہرست میں شامل کیا جن کی خاص طور پر تلاشی لی جائے کی پاکستانیوں کے لئے اسکینر اختیاری نہیں ہیں، اختیاری اُن کے لئے ہیں ممالک کے مسافروں کی تلاشی سرسری کی جائے کی خبر کے چند حصے نیچے کاپی پیسٹ کر رہا ہوں۔
امریکی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ بیرونی دنیا سے امریکہ آنے والے تمام مسافروں کو سکیورٹی کے نئے مراحل سے گزرنا ہوگا۔
خصوصی طور پر پاکستان سمیت چودہ ملکوں سے امریکہ پہنچنے والے مسافروں کی مکمل جامہ تلاشی ہو گی اور ان کا دستی سامان بھی چیک کیا جائے گا۔
امریکہ حکومت نے پاکستان، افغانستان، یمن، نائجیریا، الجزائر، لبنان، ایران، عراق، لیبیا، سوڈان، شام، سعودی عرب، صومالیہ اور کیوبا کو خصوصی طور پر سکیورٹی کے لحاظ سے خطرناک قرار دیا ہے۔
امریکہ کی طرف سے متعارف کرائے گئے نئے سکیورٹی اقدامات کے مطابق دیگر ملکوں سے آنے والے مسافروں کی سرسری انتخاب کے تحت تلاشی لی جائے گی۔
ہماری ساری معلومات انٹرنیٹ سے ہی حاصل کردہ ہیں اگر وہ جھوٹ ہے تو ہم نے یہ جھوٹی خبریں ہی پڑھی ہوں گی جیسے آج یہ خبر پڑحنے کو ملی
http://ejang.jang.com.pk/3-8-2010/images/149.gif
شعیب صاحب۔۔ ان تمام ممالک پر اپلائی کیے جانے اس عمل کو اسپیشل رجسٹریشن کہا جاتا ہے اور یہ امیگریشن کے وقت کی جانے والی خصوصی دستاویزی جانچ اور انٹرویو ہوتا ہے جو بلاشبہ امتیازی اور ناروا ہے۔ لیکن خواتین اور عمر رسیدہ افراد کے لیے یہ لاگو نہیں کیا جاتا۔ میرا کہنا صرف یہ ہے کہ یو ایس گورنمنٹ کی ویب سائٹس سے معلومات کراس چیک کرلینی چاہءیں جو تیزی سے تبدیل ہوتی ہیں اور اردو اخبارات جس طرح مصالحہ لگا کر خبر شائع کرتے ہیں بلاگرز کو اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔۔۔ بعض اوقات کسی ایک مسافر کے ذاتی تجربہ کو بھی اصول یا قاعدہ بنا کر پیش نہیں کرنا چاہیے۔
Shoaib Sahab aap ko mukamal maloomat kar kay likhna chahiya! baat badalna tu koi app say sekay. scanner say sab ko guzar rahay hai hai ammrica walay pakistani kuch itnay kubsorat nai kay kapeay utar kar inhay dekha jay
ذاتی طور پر میں ان اسکینرز کا مخالف ہوں اور بہت پہلے میں نے اس پر لکھا بھی تھا۔ شائد ۲۰۰۷ میں ساتھ یہ جو کرسمس پر واقعات ہوئے یہ مجھے امریکی حکومت سے زیادہ اسکینرز والی کمپنی کے کارنامے لگے تھے۔ کانسپریسی تھیوری جو ٹھہری۔
خیر شاہ رخ کی کہانی پر مجھے صرف ایک اعتراض ہے کہ مسٹر خان کو یہ کیوں نہیں معلوم کہ یہ اسکینر کا پرنٹ آوٹ تو کیا اس کا امیج تک ایسی جگہ پر بھیجنے کا کہا گیا تھا کہ جہاں تک دیکھنے والا مسافر کو براہراست نہ دیکھ سکتا ہو۔ خیر ہونے کو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ وجہ وہی خوف پیدا کرو اور چیز بیچو
سب لوگ ایسے رو رہے ہیں جیسے ان کے بنیادی انسانی حقوق پر امریکہ نے ڈاکہ ڈال دیا ہو۔ جسے ننگا ہونے سے شرم آتی ہے وہ امریکہ نہ جائے۔ مفت میں رولا ڈال رکھا ہے۔
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔