Pages

2/14/2010

یہ بھی مغرب کی سازش ہے؟

کر لو گل آج کے اخبارات میں یوم محبت منائے جانے کی خبروں کے ساتھ اس کی مخالفت میں بھی بے تحاشہ بیان آئے ہیں ایک پارٹی نے تو یوم محبت کو یوم حیا کے طور پر منانے کا اعلان کر دیا ہے بقول اُن کے یہ دل کا نہیں دین کا معاملہ ہے۔
نوجوان شادی شدہ جوڑے بہتر ہو گا احتیاط کے طور پر اپنے ساتھ نکاح نامہ رکھ لیں نہیں تو امکان ہے کہ یوم حیا والے اپنے آج کے "منشور" پر عمل کرنے میں جلد بازی کا مظاہرہ کر لیں ، لہذا نکاح نامے یا نکاحی رشتہ کے غیر موجودگی میں "کزن ہے کزن ہے" کی رٹا لگانے کی مشق کر لیں ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔ خالی خودپُرلیں اندازہ تو ہو گا آپ کو، اس کے علاوہ جیب میں چند پیسے پارک کے چوکیدار و ریسٹورنٹ کے ویٹرکے علاوہ قانون کے "محافظوں" کے لئے بھی رکھ لیں کہ ضرورت پڑ سکتی ہے۔
ایک تو یہ دن آیا بھی چھٹی والے دن ہے یار لوگوں کے لئے تو مسئلہ نہیں مگر "قوموں کی عزت جن سے ہے" اُن کے لئے کارگر بہانے کی تلاش دشوار ہو گئی ہے۔ اس سلسلے میں انجمن عاشقین نے کوئی دس دن پہلے ہی ممکنہ بہانوں کی ایک فہرست بذریعہ ایس ایم ایس انجمن کے اراکین و ہمدردوں تک پہنچا دی تھی۔
اب آتے ہیں سنجیدہ بات کی طرف ہم بعض مرتبہ ضرورت سے زیادہ رد عمل دیکھاتے ہیں یا یوں کہہ لیں درست طریقے سے ردعمل نہیں کرتے بات کو لوجیکل طریقے سے کرنے بجائے جذباتی انداز میں پیش کرتے ہیں، ہر معاملہ کو بلاوجہ مغربی سازش قرار دے دیتے ہیں یہ بات سمجھ سے قاصر ہے کہ وہ اپنے تہواروں کو کسی بھی سازش کے تحت کیوں کر متعارف کروائے گے؟، بے شک محبت ایک اچھا جذبہ ہے مگر یہ انداز محبت ہمارا نہیں یہ بات ہمیں سمجھنے و سمجھانے کی ضرورت ہے۔ کورٹ میں کورٹ میرج کے لئے آنے والے جوڑوں میں نہ نہ کرتے ساٹھ فیصد وہ افراد ہوتے ہیں جو اپنی "بھول" کو نکاح کا شیڈ دینا چاہتے ہیں۔ میڈیا کو احتیاط کرنا تو چاہئے ہی کیونکہ کم عمر بچے ٹی وی پروگرام دیکھنے کے بعد اس طرح کے سوالات کے ساتھ وارد ہوتے ہیں کہ جواب دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ نا پختہ ذہن صحیح و غلط کا فیصلہ کرنے میں ناکام رہتے ہی اور برائی میں بہت کشش ہے۔
اگر ہمارا معاشرہ جس میں کسی دور میں میاں بیوی خاندان کے بزرگوں کی موجودگی میں ایک چارپائی پر بیٹھنے تک سےاحتیاط کرتے تھے اور نوبیہاتے جوڑے آپسی گفتگو سے، اور بزرگ آج بھی ان باتوں کو بتاتے ہوئے خوبیوں میں گنتے ہیں، اگر آج اُس سطح پر پہنچ گیا ہے جہاں نوجوان لڑکی لڑکے تعلق کو جائز سمجھنےکی روایت پڑ چکی ہے تو آپ ایسے دنوں کو نہ منانے کا کوئی جواز پیش کر دیں رد سمجھا جائے گا جو اپنی ثقافت و روایات اور دینی معاملات کوجان کر بھی ایسے دنوں کے حامی ہیں وہ کسی دلیل سے ماننے والے نہیں۔ ہاں آپ اُن کی نظر میں قدامت پسند، تنگ نظر،مذہبی اور جاہل وغیرہ ضرور مانے جائے گے۔
ایک سوال آخر یوم محبت پر ایسا کیا ہوتا ہے کہ یار لوگ ٹھیک نو ماہ بعد بچوں کا دن مناتے ہیں؟

6 تبصرے:

REHAN نے لکھا ہے کہ

بہت عمدہ تحریر لکھی ہے ۔۔

اللہ ہم سب کو ٹھیک راہ پر قائم رہنے کی حمت دے ۔

Abdullah نے لکھا ہے کہ

اگر ہمارا معاشرہ جس میں کسی دور میں میاں بیوی خاندان کے بزرگوں کی موجودگی میں ایک چارپائی پر بیٹھنے تک سےاحتیاط کرتے تھے اور نوبیہاتے جوڑے آپسی گفتگو سے، اور بزرگ آج بھی ان باتوں کو بتاتے ہوئے خوبیوں میں گنتے ہیں،

باقی سب باتیں ٹھیک ہیں مگر میں اسے بھی انتہاءپسندی سمجھتا ہوں جس کا تذکرہ جناب نے اوپر کے پیراگراف میں کیا ہے!یہ حیا نہیں نری ڈرامہ بازی اور بڑوں کا پیدا کیا ہوا بے جا خوف تھا

عنیقہ ناز نے لکھا ہے کہ

لیجئیے جناب، یہ ڈیٹا آپ نے کہاں سے حاصل کیا کہ نومبر میں بچوں کی ریکارڈ توڑ پیدائش ہوتی ہے۔ مجھے اس بات کی صحت پہ شبہ ہے۔
یہاں بہت ساری باتیں ہیں جنہیں اس زکر میں ڈالنا ضروری ہے۔ اول تو خود مغرب مین یہ دن کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ منایا جاتا ہے وہ بھی اتنے اہتمام سے۔ اسکی بنیادی وجہ کنزیومیرزم ہے جس سے ہمارے ملک کے اکثر لوگ ناواقف ہیں۔ اس طرح کو مواقع کو پیدائش اور انکی تشہیر اس لئیے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ پروڈکٹ مارکیٹ میں آئیں اور لوگ انہیں زیادہ سے زیادہ خریدیں یا خریدنے پہ مجبور ہوں اور کچھ نہیں تو جذبات کے ہاتھوں۔ تو معاملے کی اصل جڑ سے آگاہ کرنے کے بجائے اس میں بھی مسلمان بہت مہارت سے مذہب کو گھسیٹ لیتے ہیں۔ کل میں ایک کتابوں کی دوکان پہ کھڑی تھی جہاں پہ میں نے بہت ساری کتابیں لال رنگ کے کور کی دیکھیں۔ میں نے یہ سوچ کر اٹھایا کہ کس نے اتنے روشن سرخ رنگ کا کور بنایا ہے اپنی کتاب کا تو اسکے کور پہ لکھا تھا ایک چاند سی لڑکی کے نام۔ لیجِءے جناب یہ تو بیچنے والوں نے ایک دھندہ نکالا کسی بہانے وہ کچھ تو پیسے بنائیں۔ اس کنزیو میرزم کا نتیجہ ہے کہ نوزائیدہ بچوں کے لئیے رنگ مخصوص کر دئیے گئے ہیں گلابی رنگ بچی کا اور نیلا رنگ بچے کا۔ اب ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپکے پہلے بچے کے رکھے ہوئے کپڑے دوسرے کے کام آ سکیں خاص طور پہ اگر انکی جنس الگ ہو۔
لیک ہم تو جناب فوراً اسے مسلمانوں کی غیرت پہ طمانچہ سمجھتے ہوئے اتنا زیادہ رد عمل ظاہر کتے ہیں کہ ہر سال مجھے سب سے پہلے اینٹی ویلنٹائن ڈے نعرے لکھے دیکھ کر یاد آتا ہے کہ اوہ ویلینٹائن ڈے آرہا ہے۔ دوسری وجوہات اسکی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں نوجوانوں کے لئیے فی الوقت کوئ صحتمند سرگرمی یا تحرک موجود نہیں انہیں یہی چیزیں اپنی طرف کھینچیں گیں۔ ہر ملک کی ثقافت میں موسموں اور اسکی فصلوں یا اس سے ملتے جلتے میلے ٹھیلے ہوتے ہیں۔ اب پنجاب ایک زرعی علاقہ ہے وہاں بسنت منانا کوئ ایسی اچنبھی کی بات نہیں۔ دنیا کے ہر خطے میں جو زراعت سے وابستہ رہا ہو موسم بہار کی آمد اور نئ فصل کی کٹائ سے منسلک تہوار رہے ہیں انہیں بیک جنبش زبان غیر اسلامی اور ہندوءون کی تہذیب قرار دے دینا کہاں کا انصاف ہے۔ بس مسلمانوں کے دو تہوار ہیں انکے علاوہ خوشی منانا حرام ہے۔ جناب ہندو ازم دنیا کی قدیرم ترین تہذیبوں میں شامل ہوتا ہے اور اگر آپ اتنی تفصیل سے ہر چیز کو جھانکنے بیٹھیں گے تو بڑی مشکل ہو جائے گی۔ یہودی یوم عاشور پہ حضرت موسی کے حوالے سے روزہ رکھتے تھے۔ رسول اللہ نے مسلمانوں کو ان سے الگ کرنے کے لئیے ایک کے بجائے دو روزوں کا حکم دیا۔

اب آجائیے، پرانے زمانے کی روائیتوں کی طرف۔ ایک زمانے میں مرد اپنا بچہ نہیں اٹھا سکتا تھا اور عورت اپنے پیدا کئیے ہوئے بچے کو اپنا بچہ نہیں کہہ سکتی تھی۔ مرد اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑنے کے لئیے کئ دن کی محنت اور موقع تلاش کرتا تھا۔ عورتیں پہلے بھی اور اب بھی بہت سے علاقوں میں اپنے شوہر کیساتھ کھانا نہیں کھا سکتی تھی اسکے ساتھ ایک برابر کی جگہ پہ نہیں بیٹھ سکتی تھیں۔ اور یہ تو اب بھی ہوتا ہے کہ اپنے شوہر کو اسکے نام سے نہیں بلا سکتیں۔ میں تو اسے غیر متوازن معاشرے کی مثال سمجھتی ہوں۔ ذرا مجھے اسلامی دور میں سے ایسی غیر فطری باتیں نکال کر دکھائ جائیں۔ میرے خیال میں اسلام نے عورت اور مرد کے تعلق کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔کیونکہ یہ ایک خاندان کی بنیاد بنتا ہے اور اس وقت کا عرب معاشرہ اس معاملے میں خاصہ کھلا تھا۔ یہ تنگ نظری ہم نے ہندءووں سے لی اور اب اس پہ فخر کرتے ہیں۔ میں تو یہ نہیں جانتی کہ ہندو تہذیب کے کچھ حصے تو ہمارے لئیے اتنے قابل فخر ہیں کہ ہندو چھوڑ دیں گے مگر ہم نہیں دوسری طرف کچھ باتوں پہ ہم ہر وقت ہندو تہذیب سے اپنا تقابل کر کے ایکدوسر ےکو شرم دلاتے رہتے ہیں۔ اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے۔
تو جب ایک انتہاء پسندی آپکے لئیے قابل پسند ٹہری دوسری میں کیا حرج ہے۔ غیر متوازن روئیے غیر متوازن رویوں کو جنم دیتے ہیں۔
گلوبالائزیشن کے اس دور میں آپ اتنے قدیم ہتھیار استعمال کر کے اپنے گھر کے اندر جنگ نہیں جیت سکتے باہر والوں سے کیا کریں گے۔
چلیں پھر میں ہیر رانجھا سنتی ہوں۔ میں نئیں جانا کھیڑیان دے نال۔

Shoiab Safdar Ghumman نے لکھا ہے کہ

محترمہ میں نے کہاں کوئی دیٹا دیا ہے؟ میرا اشارہ 20 نومبر کی طرف تھا ذرا دیکھ لینا کہ کیا دن منایا جاتا ہے۔
آپ ہیر رانجھا سنتی ہیں سمجھ بھی لیں اُس میں وارث شاہ کہتے کیا ہے آپ قصہ سمجھ کر سنتی ہیں انہوں نے نصیحت کے طور پر لکھی ہے یہ ہی فرق ہے۔
آپ نے مثالوں میں بھی وہ مثالیں دی جو ہر سطح پر ہی نا قابل قبول ہیں میں نے کہاں ان کی حمایت میں لکھا ہے۔ یا یہ کہاں کہا ہم خود میں موجود برائیوں سے چمٹے رہیں؟ میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ ہم دوسروں کی برائیوں کو بھی اچھائی کہہ کر نہ اپنائے تو اچھا ہے۔
آپ پسند کرتی ہیں تو یہ آپ کی مرضی ہے ، حمایتی ہیں ٹھیک ہے یہ بھی آپ کی مرضی ، دونوں طرف نہیں ہیں بس مکالفت کرنی ہے تو بھی ٹھیک ہے کوئی زور زبردستی نہیں۔

عنیقہ ناز نے لکھا ہے کہ

جی نہیں میں کسی حامی نہیں اور نہ ہی آپکی مخالفت مین یہ کہہ رہی ہوں۔ معاملات کو صحیح تناظر مین ہی دیکھنا چاہئیے۔ آج سے پچیس سال پہلے بھی یہ دن پاکستان میں منایا جاتا تھا مگر ایلیٹس کے ادارون میں۔ عوام وافق بھی نہ تھے کہ یہ کیا بلا ہے۔ اب ساری دنیا سمٹ کر ایک ذریعے پہ آگئ ہے۔ جسے انٹر نیٹ کہتے ہیں۔ اس میں ایسے مسائل کیا فتووں سے حل ہونگے۔ میں تو نہیں سمجھتی اور نہ ان مثالوں کی مثالیں پیش کرنے سے جو اپنے وجود میں خود بہت کمزور اور منفی ہیں۔ ویلنٹاءنز ڈے کو ہٹائیں تو بسنت بھی غیر اسلامی ہے۔ میں تو ایک شہر مین رہتی ہوں جہاں کچھ مخصوص جگہوں پہ ہی بسنت منائ جاتی ہے خود مجھے تو منانے کا کبھی موقع نہیں ملا۔ لیکن اسے غیر اسلامی بنانے کی کوئ وجہ سمجھ میں نہین آتی۔ پورا شہر ان بینرز سے بھرا ہوا ہے آخر کیوں؟ اس لئیے کہ جو لوگ نہیں مناتے وہ بھی دلچسپی لیں کہ دیکھیں ہوتا کیا ہے؟
اب اس سے میرا تعلق نہیں لیکن خیال تو آتا ہے کہ احباب اتنے زور و شور سے کس مصیبت کو مٹانے کے درپے ہیں۔
ویسے یہ بتائیں، بچوں کے حقوق کا دن منانے سے بچوں کی پیدائش کے زیادہ ہونے کا کیا تعلق ہے وکیل صاحب۔
صحیح بات تو یہ ہے کہ میں نے ہیر رانجھا پوری نہیں سنی۔ بچپن میں ایک فتوی پڑھا تھا کہ ہیر ایک بد معاش عورت تھی۔ جسے وارث شاہ نے ہیروئین بنا دیا۔ تو بس ڈر لگ گیا تھا۔ بس کچھ گانوں اور شاعری کے ذریعے پھر بھی کان میں پڑ ہی گیا بھلا اس دور میں ایسا ممکن ہے کہ لوگوں کی ایسی بدمعاشی سننے کو نہ ملے۔

Shoiab Safdar Ghumman نے لکھا ہے کہ

محترمہ میں نے کہاں لکھا ہے بچوں کی پیدائش یا اُن کی ذیادتی کا۔ کیا آپ مذاق سمجھنے سے قاصر رہتی ہے؟
فتوی نہ پڑھا کریں؟ بد ہضمی ہو جائے گی۔
جو کام غلط ہے میں سمجھتا ہو وہ آج سے پچس کیا ہزار سال پہلے بھی غلط تھا۔
بسنت پر بات پھر کریں گے

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے

نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔