امریکا کے یہودی جنگجو دانشور ڈینیل پائپس نے ایک جگہ لکھا ہے کہ وہ وقت گیا جب فتح وشکست کے فیصلے میدان جنگ میں ہواکرتے تھے‘ اب جنگوں کے فیصلے اخبارات اور ٹی وی چینلز کے نیوز رومز اور ادارتی صفحوں پر ہوتے ہیں۔ یہ صرف پائپس کی سوچ نہیں بلکہ ہر یہودی اس کا ادراک رکھتا ہے کہ دنیا پر تسلط کا خواب معاشی غلبے اور میڈیا پر قبضے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ دنیا پر غلبہ کے لیے درکار ان دونوں چیزوں پر آج یہودیوں کاکنٹرول ہے۔ دنیا کا 98 فیصد میڈیا براہ راست یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ باقی پر بھی مختلف طریقوں سے اثر انداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پاکستانی میڈیا خصوصاً باثر ابلاغی گروپوں پر بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ یہودیوں کے زیرکنٹرول ہیں۔ یہ غیرذمہ دارانہ بیان ہوسکتا ہے کیوں کہ الزام لگانے سے پہلے ثبوت پیش کرنا ضروری ہے۔
اب اگر پاکستانی میڈیالاعلمی میں یہودی مقاصد کو پورا کرتا ہے تو صرف اس بنیاد پر اس کو یہودیوںکے زیر کنٹرول قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ ہوسکتا ہے کہ بڑے ابلاغی گروپوں کے پالیسی ساز عہدوں پر ایسے افراد فائز ہونے میں کامیاب ہوگئے ہوں جو یا تو معاشی منفعت کی خاطر یا پھرآزاد خیالی کے شوق میں ایساکرتے ہوں۔ یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ اس وقت ملک کے کئی ٹی وی چینلز کے پالیسی سازاور نیوز کے شعبے میں کلیدی عہدوں پر وہ لوگ فائز ہیں جو بہت فخریہ انداز میں دین سے بیزاری کا اعلان کرتے ہیں گو کہ ان کے نام مسلمانوں کے سے ہیں۔ یہ بہترین پروفیشنل ہونے کے سبب ان جگہوں تک پہنچ کر نہ صرف نیوز اور ویوز یعنی خبر اور تجزیہ کے ذریعے اپنی ساری توانائیاں اسلام اور اسلام کے نام لیواوں کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے میں صرف کرتے ہیں بلکہ اس سے نچلی سطحوں پر بھرتی کا اختیار رکھنے کے سبب ایسے ہر فرد کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں جو وضع قطع یا سوچ سے ذرا سا بھی اسلامی لگتا ہو۔ ہمیں یقین ہے کہ مالکان کو اس کا ادراک نہیں ہے‘ ورنہ غیر جانب دار ہونے کا دعویٰ کرنے والے بے شک اپنے اداروں میں بھرتی کے غیر جانبدارانہ معیار کو یقینی بناتے۔ جب صورت حال یوں ہوتو ایسے میں پاکستانی ٹی وی چینلز سے پورا دن نام نہاد طالبان کی طرف سے عورت پر تشدد کی جعلی ویڈیو دکھانے کی شرمناک حرکت پر حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔
گزشتہ دنوں کسی بندہ خدا نے برطانیہ اور امریکا کے اخبارات میں خبروں کے تجزیہ پر مشتمل ایک ای میل بھیجی جس میں دکھایا گیا تھا کہ اگر کوئی عیسائی یا یہودی اپنی بیوی بچوں کو مار دے تو لکھا جاتا ہے کہ ”ایک آدمی نے بیوی‘ بچوں کا مار ڈالا“ لیکن جب مسلمان ایسا کرتا ہے تو سرخی جمتی ہے کہ”ایک مسلمان باپ نے بیوی بچوں کو بے دردی سے قتل کردیا“ جبکہ بعض اخبارا ت میں مسلمان کے ساتھ دہشت گرد کا لفظ بھی لکھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں صورت حال کچھ مختلف نہیں۔ وجہ وہی ہے۔ اس لیے جعلی ویڈیو دکھا کر مسلمانوں کو وحشی ‘ درندے اور ظالم ثابت کرنے کی کوشش کرنے والے میڈیا نے جب ایک جنونی ربی کے بیان کو جگہ نہیں دی تو مجھے ذراسی بھی حیرت نہیں ہوئی۔ مانیٹرنگ کا اعلیٰ ترین نظام رکھنے والے اردو اور انگریزی زبان کے بڑے اخبارات اور معروف ٹی وی چینلز نے خبرنشر تو نہیں کی تاہم مجھے یقین ہے کہ ان اداروں میں بننے والی مسِنگ کی لسٹ میں بھی یہ خبر شامل نہیں ہوگی۔ ایک ربی کی صورت میں وحشی‘ درندہ اور دہشت گرد کا کہنا ہے کہ ”جنگ جیتنے کے لیے یہودیوں کو عرب مردوں‘ عورتوں اور بچوں کو قتل کردینا چاہیے“ عمر البشیر کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے والی‘ امریکا کے گھر کی لونڈی اقوام متحدہ ایسے بیانات کا نوٹس نہ لے تو کوئی حیرت کی بات نہیں لیکن کوئی مسلمانوں کی نسلی کشی کا اعلان کرے اور مسلمان مذمت کے دو لفظ ادا نہ کریں تو اسے شرمناک اور افسوس ناک قرار دینا غلط نہ ہوگا۔
اسرائیلی اخبار ’ہارٹز ‘ کے مطابق موومنٹ میگزین کے ایک سوال کے جواب میں شبد( فرقے کی) ربی ’فرائیڈ مین‘ نے کہا ہے کہ” اخلاقی جنگ لڑنے کا واحد طریقہ یہودی طریقہ ہے۔ان (عربوں)کے مقدس مقامات تباہ کرو۔ (ان کی) آدمی ‘عورتیں اور بچے ماردو“ ممکن ہے بعض لوگ کہیں ” یہ تو ایک آدمی کی سوچ ہے‘ اسے یہودیوں کی نمائندہ سوچ نہیں کہا جاسکتا‘ اس لیے ہم نے اسے اپنی خبروں میں جگہ نہ دی ‘ہم صرف مولوی عمر اور مسلم خان کو اپنی خبروں میں جگہ دیتے ہیں جو اسکول تباہ کررہے ہیں۔ہم ان کے Beepers لیتے ہیں۔ہیڈلائز میں رکھتے ہیں کیوں کہ ان کی کہی بات خبر ہوتی ہے۔ ابلاغ عامہ میں پڑھا تھا کہ ’کتا کاٹے تو خبر نہیں ‘انسان کتے کو کاٹے تو خبر ہے‘ عملی صحافت میں آکر سب کچھ مختلف پایا۔ جو لوگ تعداد میں چند تھے ان کو اہم بنادیاگیا اور جو نمائندہ تھے‘ انتخابات سے عوامی نمائندگی ثابت کرچکے تھے ‘ ان کے لیے جگہ نہیں۔ معصوم بچوں ‘ عورتوں کے قتل کی ترغیب دینے کی خبر کے لیے بھی جگہ نہیں کیوں کہ اس سے یہود وہنود کی دوستی سے انکاری اسلام پسندوں کو فائدہ پہنچے گا ۔یا پھر یہودو ہنود کی وکالت کرنے والے دہریوں کو نقصان پہنچے گا‘ اس لیے یہ خبر نہیں۔“ دلیل کیا ہوگی؟ ایک غیر اہم آدمی کی پاگل پن کی بات۔ توآپ کو بتاتے چلیں کہ فرائیڈ مین کون ہیں؟ فرائیڈ مین 1772ءمیں شروع کی گئی سب سے بڑی یہودی تحریک Chabad کے سب سے موثر ربی ہیں۔ عام آدمی نہیں۔ ایک ٹی وی شو کے میزبان اور بسٹ سیلر ‘ایک کتاب کے مصنف ہیں‘ جس کو چار دفعہ شائع کیاجاچکا ہے اور ہر دفعہ کاپیاں ہاتھوں ہاتھ لی گئیں۔ان کے دیے گئے لیکچرز کی ڈیڑھ لاکھ سی ڈیز خریدی جاچکی ہیں۔فرائیڈ جس تحریک سے وابستہ ہیں اس کی چار ہزار چھ سو برانچز ہیں۔کیا یہ غیر موثر ہی؟ نہیں جناب ! یہ وہ تحریک ہے جس کے منشور پر امریکااور اسرائیل کی حکومتیں عمل درآمدکرہی ہیں۔ اتنے موثر آدمی کی مسلمانوں کو دھمکی کی خبر نہ بنے تو اس سے اپنے پاکستانی ٹی وی چینلز کو غیرپاکستانی چینلز قراردینے والوں کو تقویت ملے گی۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی اخبارات اور ٹی وی چینلز کے مالکان خصوصاً بڑے ابلاغی گروپ کے مالک اس بات پر غور کریں کہ کہیں ان کے پالیسی سازعہدوں پر ایسے لوگ براجمان ہونے میں کام یاب تو نہیں ہوئے ہیںجو ان کے اخبارات اور ٹی وی چینلز کو پاکستان ‘ اسلام اور پاکستانیوں کا نمائندہ بنانے کے بجائے اپنی مخصوص سوچ کی ترویج کا ذریعہ بنارہے ہیں۔ اخبار اور ٹی وی چینلز ان کا کاروبار ہے‘ معاشی مفاد اپنی جگہ اہم اور یہ ان کا حق ہے لیکن میڈیا کا ایک فرض یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ملک اور مذہب کی ترجمانی کرے۔یقین جانیے یہ لبرل انتہا پسند مٹھی بھر ہیں۔ ناظرین کی اکثریت اسلام پسند اور محب وطن ہے۔ ملک وقوم کی ترجمانی چینلز کی پسندیدگی کا سبب بنے گی اور معاشی فائدہ کا بھی۔
تحریر: ابو سعود _________________________بشکریہ: جسارت
5 تبصرے:
There is some problem with comment box. I tried with almost every browser but can't post/paste urdu content.
مقامی میڈیا جو ایک ڈبے میں بند میڈیا ہے اس سے تو گلہ ہی بے کار ہے لیکن بقول کالم نگار یہودیوں کے کنٹرول میں موجود بین الاقوامی میڈیا نے نہ صرف اس پر مناسب بحث کی ہے بلکہ سینکڑوں رپورٹس موجود ہیں۔ مقامی میڈیا میں کئی اہم خبروں سے صرف نظر کرلیا جاتا ہے کبھی ان کی مارکیٹ ویلیو کی وجہ سے اور کبھی اخبار و ٹی وی کے مخصوص ایجنڈے کے پیش نظر۔ جہاں تک پرتشدد سوچ کا تعلق ہے تو تینوں بڑے مذاہب کے ماننے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے خیالات یا مذہب سے مختلف ہر انسان کے لیے فوری موت برحق سمجھتے ہیں لیکن بہر حال یہ ایک بہت قلیل اقلیت کی سوچ ہے اور خوش قسمتی سے اکثریت اس جھانسے میں نہیں آتی۔
Note: the problem I reported earlier seems kinda fixed :)
لکھنے والے نے درست لکھا ہے ۔ جہاں تک ہمارے ملکی ذرائع ابلاغ کا تعلق ہے ان کے مالکان مال کمانے کی خاطر دین ، ملک اور قوم کے خلاف کام کر رہے ہیں
کالم نگار سارے کالم میں یہودی یہودی کرتا ہے اور پھر ساتھ اعتراض بھی کہ کوئ مسلمان کچھ کرے تو تمام مسلمانوں کے نام لگ جاتا ہے۔ کیا ابو سعود نے اس کالم میں یہودیوں اور مغرب کے ساتھ یہی حرکت نہیں کی؟
اگر ابو سعود کو یہودیوں سے پیار ہوتا تو کیا وہ ایسی بات نوٹ کرتے؟
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔