Pages

5/28/2009

ہو گا کیا؟؟

ہم تو اُس دور میں پیدا نہیں ہوئے تھے! مگر اپنے بڑوں سے سنا اور کتابوں میں پڑھا ہے کہ جب 1965 میں پاک بھارت جنگ شروع ہوئی تو جتنے دن ملک میں جنگ ہوتی رہی! اتنے دن نہ تو کوئی ملک میں کوئی چوری ہوئی نہ ڈاکا پڑا لاہور جیسے بڑے شہر پر دشمن قبصہ کرنا چاہتا تھا مگر لاہور راتوں کو جاگ اور دن میں کاروبار زندگی چل رہا تھا! باقی ملک کا کیا حال ہو گا؟ پنجاب صوبے کا گورنر نواب آف کالا باغ تھا جس نے تمام تاجروں کو اپنے بلا کر کہہ دیا تھا کسی چیز کی کوئی کمی نہیں ہونے چاہئے! لہذا بازار کھلے تھے اوراشیاء خردونوش کی کوئی کمی نہیں تھی! اور پاکستان اُس وقت جنگ جیت گیا (یہ الگ بات ہے کئی کی رائے ہے کہ پاکستان وہ جنگ ہارا تھا!)
اب سوال یہ ہے کہ آج جب پاکستانی فوجیں حالت جنگ میں ہیں! جن علاقوں میں جنگ ہورہی ہے وہاں سے جان بچا کر بھاگنے والے ہم وطنوں کو وہ اپنے علاقوں میں قبول کرنے کو تیار نہیں جن کے نبی نے ہجرت کی، اور اُس نبی کے پیروکاروں نے ایک ہجرت کے بعد انصار و مہاجرین کی محبت کی عظیم داستانیں رقم کی اُس ملک کے باسی اپنے ہم وطنوں کی میزبانی سے انکاری ہے جن کی میزبانی ایک نئی مملکت کے شہریوں نے کی۔ اس بات ہر اختجاج کر رہے ہیں! ہرتال کر رہے ہیں! اپنے لوگوں کو مار رہے ہیں! اپنی املاک کو جلا رہے ہے! آپس میں نفرت کا بیج بو رہے ہیں! سیاست چمکا رہے ہیں! ملک میں لسانیت، عصبیت، فرقہ واریت، صوبائیت عروج پر ہے۔ ملک میں مرنے والوں کو یہ نہیں معلوم کہ اُن کا قاتل کون ہے؟ کیوں ہے؟ اس ملک میں جب پوری قوم کو ایک ہو جانا چاہئے! قوم منقسم ہے!
حکمرانوں کا یہ حال ہے کہ وہ بیرونی دوروں میں مصروف ہیں! وہ اہل بننے کے بجائے قرار دئے جانے پر جشن مناتے ہیں! وہ ملک کو بھیک میں قرضہ ملنے کو کامیابی بتاتے ہیں! وہ کروڑوں کا فائدہ بتا کا اربوں کا نقصان پنچاتے ہیں! وہ نجکاری کے نام پر ملکی املاک فروخت کرتے ہیں! وہ جدیدیت کے نام پر نظریات گروی رکھتے ہیں! وہ سفر کے نام پر عیاشی کرتے ہیں!
یہ معاملات امن میں ملکوں کو تباہ کر دیتے ہیں اور ہم تو حالت جنگ میں ہیں!
سوچیں!
یوم تکبیر پرکہ
آخر ان حالات میں اس ملک کا ہو گا کیا!!

5 تبصرے:

DuFFeR - ڈفر نے لکھا ہے کہ

ملک کا وہی ہو گا جو عوام چاہیں گے
عوام نے جو چاہا ابھی بھی وہی ہو رہا ہے
عوام ٹھیک ہو تو ٹھیک سیاستدان بھی پیدا ہوں
پھر کسی لیڈر کی پیدائش کی امید بھی کی جائے
اور ہم عوام سے کسی اچھے فیصلے کی امید کریں
ورنہ ایسے ایٹم بموں کو کیا چائے میں ڈبو کر کھانا ہے جو آپ کی اور آپ جن کی "رکھشا" نا کر سکیں؟

Jafar نے لکھا ہے کہ

پلاؤ کھائیں گے احباب، فاتحہ ہوگا

Iftikhar Ajmal Bhopal نے لکھا ہے کہ

میں ستمبر 1965ء میں ایک فیکٹری کے اسسٹنٹ ورکس منیجر کے علاوہ بعد دوپہر سے دوسرے دن صبح سات بجے تک واہ چھاؤنی کے سب ایریا کمانڈر کے فرائض بھی نبھاتا رہا ۔ اسلئے بہت سی درست خبریں مجھ تک پہنچتی تھیں ۔ قصہ طویل ہے مگر میں آپ کی تحریر کے صرف ایک حصہ تک محدود رہنے کی کوشش کروں گا ۔ 5 اور 6 ستمبر کی درمیانی رات حملہ ہوا ۔ 6 ستمبر کی صبح افواہ پھیلائی گئی کہ لوگ اپنے گھر چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں ۔ فوری طور پر اس افواہ کو ختم کرنے کیلئے اس کے منبع کو تلاش کرنے کی کوشش ہوئی اور افواہ اپنی موت آپ مر گئی ۔ حملہ چونکہ لاہور پر تھا ۔ اس افواہ کے زیرِ اثر دکانداروں نے دکانیں نہ کھولیں ۔ ۔ گورنر تک بات پہنچی ۔ اُس نے اسی سہ پہر کو بڑے تاجروں کو گورنر ہاؤس طلب کیا ۔ سب گورنر ہاؤس پہنچے لیکن خلافِ معمول وہاں اجلاس کا کوئی انتظام نہ تھا نہ بیٹھنے کیلئے کوئی کرسی تھی ۔ سب پائیں باغ میں کھڑے رہے ۔ ٹھیک مقررہ وقت پر گورنر نمودار ہوئے ۔ آتے ہی کہا "اپنے مال منڈیوں میں پھینک دو"۔ صرف ایک مثال دیتا ہوں ۔ خالص نہ ہونے کے باوجود دودھ جو 10 آنے کا سیر تھا دوسرے دن خالص دودھ 8 آنے سیر بکنا شروع ہو گیا اور مقدار میں کمی نہ ہوئی ۔ ایسا حکم صرف وہی دے سکتا ہے جو باعمل دیانتدار ہو ۔ یہ گورنر امیر محمد خان کالاباگ وہی شخص ہے جسے جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعہ ۔ قاتل ۔ زانی اور نجانے کیا کچھ کہا گیا ۔ اس کا ایک واقعہ اور ہے ۔ ایک نیک شخص مر گیا ۔ اُس کی وصیت تھی کہ نمازِ جنازہ وہ پڑھائے جس نے کوئی نماز قضا نہ کی ہو ۔ نمازِ جنازہ کے وقت یہ اعلان ہوا تو مولوی صاحب آگے سے ہٹ کر پیچھے آ گئے پندرہ بیس منٹ سکتہ رہا ۔ پھر کچھ لوگوں نے امیر محمد خان کی طرف دیکھا ۔ چند منٹ بعد امیر محمد خان سر جھکائے آہستہ آہستہ آگے بڑھے اور نماز جنازہ پڑھائی
رہے اہالیانِ لاہور تو اُن کی ہر بات نرالی ہے ۔ 1965ء کی جنگ میں پلاؤ کی دیگیں پکا پکا کر ریڑوں پر رکھ کر محاذ پر پہنچنے لگے ۔ اُن کا تقاضہ تھا کہ سب فوجی اپنی اپنی جگہ پر جنگ جاری رکھیں اُنہیں وہیں کھانا دیا جائے گا ۔ بڑی مشکل سے کمانڈر نے اُنہیں بتایا کہ کھانا پہنچانے کی بجائے شہر کی حفاظت کریں مگر نہ مانے پھر کہا کہ فلاں مقام تک کھانا پہنچائیں ۔ آگے نہ جائیں ۔
لبرٹی حملہ کے بعد جو کردار لاہوریوں نے ادا کیا اور اب شاہراہ فاطمہ جناح حملہ کے بعد جو کردار انہوں نے ادا کیا
صوبہ سرحد کے لوگ بے گھر ہونے والے لوگوں کی خدمت میں بھی بہترین کردار ادا کر رہے ہیں
کچھ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو بہت تعلیم یافتہ اور مہذب سمجھتے ہیں مگر کردار ان کا صرف بولنا اور دوسروں میں کیڑے نکالنا ہے ۔ عملی طور پر وہ صرف اپنی مدد کرتے ہیں یا اس کیلئے لسانی یا علاقائی بنیاد ڈھونڈتے ہیں

عنیقہ ناز نے لکھا ہے کہ

انیس سو اکہتر میں پاکستان کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ نوے ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈالے۔ اور بنگلہ دیش بن گیا۔ اندرا گاندھی نے فاتحانہ لہجے میں کہا آج پاستان کا دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا گیا ہے۔ لیکن اس وقت بھی کچھ بے وقوف یہ سمجھتے رہے کہ پاکستان ان کا وطن ہے انہوں نے مکتی باہنی والون سے لڑنے کی اپنے طور پہ کوشش کی۔ لیکن ان کا انجام یا تو موت نکلا یا بنگلہ دیش میں قائم ہونے کیمپ۔ اس وقت تین لاکھ کے قریب لوگ ان کیمپ میں انتظار کرتے رہے کہ کب مغربی پاکستان کے لوگ شاندار کردار کا مظاہرہ کریں گے اور کب انکو ان خستہ حال کیمپوں سے نجات ملے گی مگر افسوس افتکار اجمل صاحب ۱۹۶۵ کی جنگ میں بند ہو کر رہ گئے۔ یا کچھ نا معلوم وجوہات کی بناء پہ وہ ان لوگوں کو پاکستانی نہیں سمجھتے ہونگے۔ اب حقیقت حال یہ ہے کہ پورے پاکستان میں ان تین لاکھ لوگوں کے لئے جنہوں نے اپنے طور پہ آپ کے ملک کی سربلندی کی جنگ لڑی کوئ جہ نہیں۔ اس دوران میں بیس لاکھ افغانی یہاں آ کے بسے اور ہمیں ہتھیار اور ہیروئن جیسے تحفے بھی دے گئے۔ میرے محترم بزرگ دوست اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس ملک کو درست ہونا چاہئے تو اتنی عمر گذار کر آپ کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ شتر مرغ کیطرح منہ چھپانے سے مصیبت ٹل نہیں جاتی۔ اور اگر آپ ایسی عینک لگالیں جس سے آپ صرف اپنی پسند کی چیزیں دیکھیں تو اس سے آپ کے ارد گرد کی سچائ تبدیل نہیں ہوتی۔ میں بنگالی نہیں نہ میرے خاندان کا تعلق کبھی بھی بنگال سے رہا ہے مگر میں حق تلفی کرنے والوں کو بڑے بول سناتے نہیں سن سکتی۔ کاش اس عمر میں بھی آپ تعلیم یافتہ اور مہذب لوگوں کو ان کی تعلیم اور تہذیب کا طعنہ دینے کے بجائے کسی اچھے مشن پہ اپنا وقت لگاتے تو دوسروں کی تعلیم اور تہذیب پہ دل نہ جلاتے۔ یہ تو وہ چیز ہے جو ہر ایک انسان حاصل کر سکتا ہے مگر انصاف کی نظر ایسی چیز ہے جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔

naeemswat نے لکھا ہے کہ

سوات سے انخلاء کے دوران جب اہلیان سوات بے سروسامانی کی کیفیت میں جب بے دخل کر دئے گئے تو اُن کی حالت بالکل ویسی ہی تھی جیسے 1947 میں ہندوستان سے مسلمان پاکستان ہجرت کر رہے تھے۔ ہر طرف افرا تفری مچی ہوئی تھی، لوگ مجبوری کی حالت میں دربدر کی خاک چھاننے پر مجبور تھے، کسی کو سرجھپانے کی جگہ میسر نہیں تھی، کھانے کے لئے روٹی اور پینے کے لئے پانی بھی دستیاب نہیں تھا۔ ایسے وقت میں صوبہ خیبر پختون خواہ کے علاقوں درگئی، (مالاکنڈ ایجنسی) چارسدہ، مردان اور صوابی کے اضلاع کے مقامی باشندوں نے وہ مثال قائم کی جو ہجرت نبوی (ص) کے وقت لوگوں نے دیکھی تھی۔ان حالات میں بہت سارے لوگوں نے سوات کے لوگوں کی مجبوریوں کا بھرپور فائدہ بھی اُٹھایا مگر اجتماعی طور پر ہماری عوام نے سوات کے عوام کی دل کھول کر خدمت اور مدد کی۔ اہلیان سوات کی طرف سے تمام اہل وطن کا شکریہ۔
www.noonwalqalam.blogspot.com

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے

نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔