١٩ فروری١٩٤٨ کو اسٹریلیاں کے عوام سے نشری خطاب میں لادینی اوردینی ریاست کی وضاحت کرتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناح نے کہا“ ہماری عظیم اکثریت مسلمان ہے ، ہم رسول خدا کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں ہم اسلامی ملت برادری کے رکن ہیں جس میں حق ، وقار اور وفاداری کے تعلق سے سب برابر ہیں ،نتیجاَ ہم میں اتحاد کا ایک خصوصی اور گہرا شعور موجود ہے لیکن غلط نہ سمجھے پاکستان میں کوئی نظام پاپائیت رائج نہیں ، اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے، اسلام ہم سے دیگر عقائد کو گوارا کرنے کا تقاضہ کرتا ہے اور ہم اپنے ساتھ ان لوگوں کے گہرے اشتراک کا پر تپاک خیر مقدم کرتے ہیں خود پاکستان کے سچے اور وفادار شہریوں کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنے کے لئے آمادہ اور رضامند ہوں۔(قائداعظم تقاریر و بیابات جلد چہارم صحفہ ٤١٥)۔
جہاں تک “مذہبی حکومت“ اور “سیکولر اسٹیٹ“ کا تعلق ہے اس سلسلے میں قائداعظم کے افکار اور نظریات کیا تھے ، وہ بالکل صاف وشفاف اور واضح ہیں، غیر مبہم ہیں اور ہر قسم کے شک وشبہ سے پاک ہیں۔٢٥ رجب ١٣٦٠ھ بمطابق ١٩ اگست ١٩٤٠ کو قائداعظم محمد علی جناح نے راک لینڈ کے سرکاری گیسٹ ہاوس (حیدرآباد دکن) میں طلباء اور نوجوانوں کو یہ موقع مرحمت فرمایا کہ وہ آپ سے بے تکلفانہ بات چیت کرسکیں۔اگر چہ آپ کی طبیعت ناساز تھی لیکن اس کے باوجود آپ نے پنتالیس ٤٥ منٹ تک ان سے گفتگو فرمائی ۔ اس یاد گار اور تاریخی موقع پر نواب بہادر یار جنگ بھی موجود تھے ۔ جناب محمود علی بی اے (عثمانیہ یونیورسٹی) نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام گفتگو ریکارڈ کر کے اوریئنٹ پریس کو ارسال کردی۔
قائداعظم کا دوسرا خطاب دراصل وہ ہے جو انہوں نے ٢ نومبر ١٩٤١ کو مسلم یونیورسٹی یونین علی گڑھ سے فرمایا اور جس میں نہایت تفصیل کے ساتھ ہندو اخبارات کے بے بنیاد، شرارت آمیز اور مضحکہ خیز اداریوں کوکچا چٹھا بیان فرمایا جس میں انہوں نے غلط اور حقیقت سے دور پروپیگنڈہ کیا تھا کہ پاکستان ایک سیکولر اسٹیٹ ہو گی جس میں انہیں جملہ اختیارات سے محروم رکھا جائے گا۔قائداعظم نے اپنے خطاب میں واضح کیا؛“ آپ نے ہندو رہنماؤں کے بیانات اور ذمہ دار ہندواخبارات کے ادارئے پڑھے ہو گے ۔ وہ بہت شرارت آمیز اور خطرناک قسم کے دلائل دے رہے ہیں لیکن یقیناَ وہ الٹ کر انہی کے سر آن پڑیں گے ، میں صرف ایک ممتاز سابقہ کانگریسی اور ایک سابقہ وزیر داخلہ مسٹر منشی کی تقریر سے ایک اقتباس پیش کروں گا۔ اخبارات میں شائع شدہ تقریر کے مطابق انہوں نے کہاکہ تجویز پاکستان کے تحت جو حکومت قائم ہو گی وہ “سول حکومت“ نہیں ہوگی جو تمام فرقوں پر مشتمل ایک مخلوط مجلس قانون ساز کے سامنے جوابدہ ہو بلکہ وہ ایک “مذہبی ریاست“ ہو گی جس نے اپنے مذہب کی تعلیمات کے مطابق کے مطابق حکمرانی کرنے کا عہد کر رکھا ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ تمام جو اس مذہب کے پیروکار نہیں ہوں گے ان کا اس حکومت میں کوئی حصہ نہیں ہو گا۔ایک کروڑ تیرہ لاکھ سکھ اورہندو مسلمانوں کی مذہبی ریاست کے زیر سایہ اقلیت بن جائی گے۔ یہ ہندو اور سکھ پنجاب میں عاجز ہوں گے اور ہند کے لئے غیر ملکی! ۔۔۔۔کیا ہندوؤں اور سکھوں کو مشتعل نہیں کیا جا رہا ہے؟ان کو یہ بتانا کہ وہ ایک “مذہبی ریاست“ ہوگی جس میں انہیں جملہ اختیارات سے تہی دست رکھا جائے گا، یہ کلیتَا “غیر درست“ بات ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہےکہ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں غیر مسلموں کے ساتھ اچھوتوں کا سلوک کیا جائے گا۔ میں مسٹر منشی کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ صرف ان کے مذہب اور فلسفہ کی ہی اچھوتوں سے آشنائی ہے۔ اسلام ان غیر مسلموں کے ساتھ جو ہماری حفاظت میں ہوں عدل ، مساوات، انصاف، رواداری بلکہ فیاضانہ سلاک کا قائل ہے۔ وہ ہمارے لئے بھائیوں کی طرح ہوں گے اور ریاست کے شہری ہوں گے“۔(قائداعظم تقاریر و بیانات جلد دوم صفحات ٥١٨)۔
جہاں تک سوشلزم ، کمیونزم ، نیشنل سوشلزم وغیرہ کا تعلق ہے ایسے نظام ہائے حکومت کے دلدادگان اور پرستاروں کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ قائداعظم ان کے سخت خلاف تھے اور انہیں خارج از بحث کردانتے تھے۔٩ مارچ١٩٤٤ءکو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی یونین سے خطاب کے دوران آپ نے واضح طور پر اعلان کرتے ہوئے فرمایا
۔“ایک اور پارٹی جو کچھ عرصے سے سرگرم ہو گئی ہی “کمیونسٹ پارٹی“ ہے ان کا پروپیگنڈہ مکارانہ ہے اور میں آپ کو خبردار کرتا ہوں کہ ان کے چنگل میں نہ پھنسیں۔ان کا پروپیگنڈہ ایک سراب ہے اور ایل دام۔آپ کیا چاہتے ہیں؟یہ ساشلزم،کمیونزم،نیشنل سوشلزم اور ہر دیگر “ازم“ کی باتیں خارج از بحث ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آپ فی الفور کچھ کر سکتے ہیں؟ کب اور کس طرح؟ آپ اس امر کا فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آپ کو پاکستان میں کون سا نظام حکومت مطلوب ہوگا؟ کوئی نہ کئی پارٹی ہم سے کہتی ہے کہ ہمیں پاکستان میں جمہوری حکومت یا سوشلٹ یا نیشنلسٹ حکومت قائم کرنی چاہئے۔ یہ سوال آپ کو فریب دینے کےلئے اٹھائے جاتے ہیں۔اس وقت تو آپ صرف پاکستان کی حمایت کیجئے۔ اس کا مطلب ہے کہ سب اے پہلے آپ کو ایک علاقہ اپنے قبصے میں لینا ہے۔پاکستان ہوا میں قائم نہیں ہو سکتا۔ جب آپ اپنے “اوطان“ کا قبصہ لے لیں گے تب یہ سوال اٹھے گا کہ آپ کون سا نظام حکومت رائج کرنا چاہتے ہیں لہذا آپ اپنے ذہن کو ان فضول خیالات سے ادھر ادھر بھٹکنے نہ دیجئے۔(قائداعظم تقاریر و بیانات جلد سوم صفحہ ٢٦٦-٢٧٢)۔
قائداعظم کے مندرجہ بالا خیالات و نظریات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ قائداعظم پاکستان کو ایک دینی اسلامی ریاست بنانے کے حامی تھے لہذا بانی پاکستان کو سیکولرزم نظریات کا حامل قرار دینا انتہائی ظلم و زیادتی ہے۔
(تحریر= ایاز محمود رضوی بشکریہ نوائے وقت)