آج ایک بس مقبوضہ کشمیر سری نگر سے مظفرآباد اور دوسری مظفرآباد سے سری نگر پہنچنے گی نصف صدی کے بعد اس روٹ پر کوئی بس سروس چلے گی،دونوں طرف کے لوگ اب دریا کی دو کناروں پر کھڑے ہو کر چلا چلا کر باتیں کرنے کے،کاغذ پر پیغام لکھ کر دریا کے دوسسرے کنارے پر پتھر کے ذریعہ پھیکنے بجائےاب چکوٹھی کے پل کے ذریعےایک دوسرے کے قریب بیٹھ کردل کا حال سنا سکے گے،ایسا صرف ۵۷ سال قبل ہوتا تھا۔آگرہ سے شروع ہونے والے یہ سفر اس موڑ پر کشمیر بس سروس تک آگیا ہے۔سب ٹھیک ہے خوف اس بات کا ہے کہ کہیں اس بس کی دھول میی ہم تاریخ نہ بھول جائے تاریح جو بہت ظالم ہے، نصف صدی کی بات۔
۔"دو چار برس کی بات نہیں یہ نصف صدی کا قصہ ہے"۔
وادی کشمیر کا رقبہ ۸۴۴۷۱ مربع میل اور یہ برصغیر پاک و ہند کے انتہائی شمال میں واقع ہے۔تقسیم ہند کے وقت اس کی آبادی کی بڑی اکثریت تقریبا ۷۷ فیصد مسلمانوں پر مشتمل تھی،اس وادی کا مہاراجہ ہندو تھا ،چالیس لاکھ آبادی والی یہ ریاست انگریز سے ۷۵ لاکھ میں خریدی گئی ۔مہاراجہ نے بے رحمی سے ٹیکس لگائے،مسلمان کے لئے گائے ذبح کرنے پر سزائے موت ،جسے بعد میں دس سال قید میں بدل دیا۔
۳جون پلان کے اعلان کے بعد مہاراجہ نے ریاست کے مستقبل کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کیا،۱۸ جون کو ماؤنٹ بیٹن کشمیر گئے اور ۲۳ کو واپس آگئے جناب نے مہاراجہ کشمیر کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی آزادی کا اعلان نہ کرے بلکہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کرلے واضح رہے حیدرآباد اور دوسری ریاستوں کو صاحب ان کے جغرافیائی اور ہندو آبادی کی بنا پر ہندوستان سے الحاق کا مشورہ دیتے رہے۔
یکم اگست کو گاندھی جی سری نگر پہنچ گئے،انہوں نے مہاراجہ کو وزیراعظم پنڈت رام چند کاک کو اس عہدے سےہٹانے کا کہاکیونکہ وہ ریاست کے پاکستان سے الحاق کے حامی تھے۔گاندھی کی واپسی کے بعد بارہ اگست کو کاک کی جگہ ڈوگر جرنل جنک سنگھ کو وزیراعظم بنا دیا گیا۔
جس نے اس عہدے پر آتے ہی ریاست سے قریب پانچ لاکھ مسلمانوں کو باہر نکال دیا جن میں سے دو لاکھ کا کچھ معلوم نہیں کہاں گئے غالب امکان یہ ہے کہ وہ قتل کر دیئے گئے،اس ظلم سے تنگ آ کر جموں کے علاقے پونچھ جہاں دوسری جنگ عظیم کے ۶۵ ہزار سابق فوجی موجود تھے نے ہتھار اٹھا لئے اور مہاراجہ کے فوجیوں کو مار بھگایا اور اس علاقے پر قبصہ کر لیا ۔۲۴ اکتوبر ۱۹۴۷کو مسلم کانفرنس نے مہاراجہ کے تسلط سے آزاد کرائے گئے علاقے پر "آزاد کشمیر" کے نام سے اپنی حکومت قائم کر لی۔
۲۵ اکتوبر ۱۹۴۷ وی پی مینن کشمیر آیا اور مہاراجہ سے کشمیر سے الحاق کے واسطے بات کی۔۲۶ اکتوبر بروز اتوار صبح دہلی پلٹا،ماؤنٹ بیٹن اور نہرو کو رپورٹ دی کہ مہاراجہ کسی فیصلہ پر نہیں پہنچ رہا۔مہاراجہ اس وقت ڈوگر کی جگہ مہر چند مہاجن کو وزیراعظم بنا چکا تھا۔جو اس وقت دہلی میں مینن کے ساتھ گیا تھا،۲۷ اکتوبر کو ہوا/ی جہار ہندوستانی فوجیوں کو لے کر دہلی سے سری نگر جانا شروع ہوے،مہاراجہ بھی ائرپورٹ اگیا،مینن بھی وہاں پھنچا اس نے مہاراجہ کشمیر سےالحاق کے رسمی کاغذات پر دستخط کرالئے۔بقول مہاجن کے میبب نے مہاراجہ سے یہ دستخطزبردستی کروائے تھے مہاجن کو بعد میں انڈیا کا چیف جسٹس بنا دیا گیا،صلہ میں۔
قائداعظم کو لاہور میں ہندوستانی فوجیوں کے کشمیر پر حملہ کی اطلاع ملی انہعں نے پاکستان کے قائم مقام کمانڈر انچیف جنرل گریسی کو حکم دیا کہ وہ کشمیر میں فوجیں بھیج دیں اور ہندوستانی فوج کو کشمیر پر قنصہ کرنے سے باز رکھے مگر اس نے ایسا نہ کیا۔
قائداعظم نے دونوں ممالک کے گورنر جنرل اور وزیرعظم کی لاہور میں میٹگ بلانے کی سپریم کمانڈر فیلڈمارشل آکنلگ کی تجویز مان لی یہ میٹگ ۲۹ اکتوبر کو ہونا طے پائی۔ہندوستان نے اس میٹگ سے کریز کیا۔۳۰ اکتوبر کو پاکستان نے ایک بیان جاری کیا کہ انڈین یونین سے کشمیر کا الحاق دھوکے بازی اور تشدد پر مبنی ہونے کی بنا پے نہ قابل قبول ہے۔۳۱ اکتوبر کو نہرو نے پاکستان کے وزیراعظم کو اپنے تار میں یقین دلایا کہ ہم امن امان قائم ہوتے ہی اپنی فوجیں کشمیر سے وابس بلالیں گے
یکم نومبر کو ماؤنٹ بیٹن لاہور آئے قائداعظم سے میٹنگ میں اس نے تسلیم کیا کہ کشمہر کا الحاق تشدد اور دھوکے پر مبنی ہے اور نا جائز ہے۔اس موقعے پر نہرو نے بیماری کا بہانہ کر کے غیر حاضر رہا۔
۲ نومبر کو نہرو نے اعلان کیا کہ حکومت ہندوستان اس بات پر تیار ہے کہ جب کشمیر میں امن قائم ہو جائے گا تو وہاں بین الاقوامی سر پرستی میں ریفرنڈم کروایا جائے۔وہ خود ہی اس معاملے کو سلامتی کونسل میں لے کر گیا جہاں اس نے دوبارہ اس ہی طرح کا وعدہ کیا۔
یہ مسئلہ تب سے دونوں ممالک کے درمیان ہے،پاکستان کا موقف ہے کہ بھارت استصواب رائے کے ذریعہ کشمیری عوام سے ان کی رائے معلوم کرے کیوں کہ ایسا کرنے کا اس نے وعدہ کیا ہے جبکہ بھارت اس سے انکاری ہے۔
اب تک ۸۰۰۰۰کشمیری اس آزادی کی تحریک میں شہید ہوئے،دستیاب اعداد و شمور کے تحت سال ۲۰۰۴ میں۳۰۰۰ کے قریب کشمیری مسلمان شہید ہو بھارتی فوج کے ہاتھوں، ۵۴۱۰ تشدد کا نشانہ بنے، ۵۰۰۰ دوکانیں اور مکانات جلا دیئے کئے، ۴۰۰ خوتین بیوہ ، ۳۷۰ خواتین کی عصمت دری ہوئی اور ۱۱۶۰ بچے یتیم ہوئے۔
0 تبصرے:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔