Pages

11/04/2011

وال چاکنگ سے آرٹ تک

یار دوستوں کا خیال ہے کہ وال چاکنگ ایک بھی آرٹ کی ایک شکل ہے، کئی مرتبہ یہ آرٹ دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اگر آرٹ ایسا ہے تو آرٹسٹ کیسا ہو گا، اگر اندر سے آرٹسٹ خوبصورت ہو تو شہر کے در و دیوار خوبصورت کرے گا ورنہ یہ نفرت کے بیج تو جا بجا بکھیر ہے رہا ہے نا۔ شہرکراچی میں یہ آرٹ عام طور پر رات میں ہی بکھیرا جاتا ہے، ہر نئے آرٹ کے نمونے شہر میں ایک نیا خوف و نفرت کے کانٹے لیئے ہوتا ہے۔
ہماری قوم کی بنیادی طور پر ایک خوبی یہ ہے کہ ہم ہر مواملے میں کوئی نہ کوئی مثبت پہلو تلاش کر لیتے ہیں لہذا بات درست ہو یا نہیں مگر یار لوگ دلیل/تاولیل دیتے ہیں یہ شہر کی دیواروں پر لکھے نعرے عوام کو عوامی جذبات کے اظہار کا راستہ فراہم کرتے ہیں۔ وہ الگ بات ہے کہیں کمپنیوں و اداروں کو اشتہار کا راستہ بھی فراہم کرتے ہیں نیز ملک بھر کے عاشقوں و نامردوں کے علاج و حل کا مقام بھی ان ہی دیواروں پر پایا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں بلوچ کالونی سے پہلے بنے ایک فلائی اوور پر شہر کے ایک تعلیمی ادارے نے اپنے طالب علموں کو آرٹ بنانے کا پروجیکٹ دیا۔ پل کی ویواروں پر بنے نقش و نگار ہمیں عمدہ لگے لہذا کیمرے میں محفوظ کر لیئے۔ اب آپ فیصلہ کرے کہ اصل میں جنہیں آرٹ بتا کر دل کو تسلی دی جا رہی ہے وہ آرٹ ہے یا یوں شہر خوبصورت ہو سکتا ہے؟

5 تبصرے:

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے کہ

ميرا خيال ہے کہ سب سکولوں والے اپنے طلباء کو کہيں کہ جہاں جہاں دل جلوں کے نعرے لکھے ہيں وہان اس پُل جيسا آرٹ بنا ديں
ميرا خيال يہ ہے کہ جس قسم کے نعرے کراچی ميں ديواروں پر يا بينرز پر نظر آتے ہين ايسے نعرے يا مطالبے پاکستان کے کسی اور شہروں ميں نطر نہيں آتے ۔ مردانہ کمزوری کے نُسخے تو سارے پاکستان ميں ہی نہيں يورپ اور امريکا ميں ديکھنے کو ملتے ہيں ۔ فرق صرف يہ ہے کہ يورپ اور امريکا ميں وال چاکنگ نہيں ہوتی
مواملے - معاملے ۔ ۔ ۔ دلیل/تاولیل ۔ دلیل/تاویل

محمداسد نے لکھا ہے کہ

ایک بات جاننا چاہوں گا کہ دیواروں پر لکھنے کا کام صرف کراچی ہی میں ہوتا ہے یا ملک کے دیگر شہروں میں بھی دیواریں نعروں سے رنگی جاتی ہیں۔

UncleTom نے لکھا ہے کہ

اجمل چاچا پہلے تو یہ ہی پتا کر لیں کہ آرٹ کتنے سکولوں میں سکھائی جاتی ہے ۔ جب تک میں پاکستان تھا تب تک تو صرف امیروں کو ہی میسر تھا یہ موضوع ۔

علی نے لکھا ہے کہ

ارے واہ اچھا سوچنے والے لوگ ابھی موجود ہیں۔ کیا گورنمنٹ نے اس آرٹ اسکول پر ٹیکس نہیں لگایا یا کوئی سزا نہیں دی کیونکہ یہاں اچھے کام پر ہی سزا مل سکتی ہے عامل بابے اور لسانی تفریق پھیلانا تو عین جائز ہے۔
پل کی تصاویر دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔

dr Raja Iftikhar Khan نے لکھا ہے کہ

دنیا کے مختلف ممالک میں دیواروں پر پینٹنگ کرنا واقعی ایک آرٹ ہے اور عمومی طور پر چرسی آرٹ سمجھا جاتا ہے۔ چرسی پارٹی رات کو ادھر ادھر کے ڈیزائین بنا کر صبح کے اچالے سے پہلے ہی نو دو گیارہ ہولیتے ہیں
وطن عزیز پاکستان میں چونکہ کچھ بھی نہیں چل رہا لہذا یہ کام بھی کچھ اہمیت کا حامل نہیں ، البتہ اس سے یہ اندازہ ہوسکتا ہے کہ ہمارا معاشرہ کس سمت جارہا ہے، حکیم درویش باوا کے فقیری تحفوں کی طرف یا پھر مہاجر ملت کی بڑھکوں کی جانب

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے

نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔