9/29/2010
9/26/2010
برکت
"جی سنتری صاحب کیسے ہیں"
ارے نہ پوچھو! وکیل صاحب کیا حال ہے
“کیوں بادشاہوں کیا ہوا؟"
یار لگتا ہے کمائی سے برکت ہی ختم ہوتی جا رہی ہے، پیسہ کہاں جاتا ہے سمجھ ہی نہیں آتی!
“جی جناب یہ تو آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں! سمجھ ہی نہیں آتی جو کماؤں خرچ ہو جاتا ہے بچت ہو ہو ہی نہیں پا رہی"
یار کس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے! شاید مہنگائی یا کچھ اور؟
“بہت سی وجوہات ہیں جن میں ایک مہنگائی بھی ہے! اس کے علاوہ سنا ہے حاکم وقت کا بھی اثر ہوتا ہے"
یہ بات ٹھیک کی تو نے! اب ہمارے تھانے کا ایس ایچ او تو تو علاقے کا حاکم ہی ہوتا ہے ناں!
“اچھا"
ہاں ناں اور جب سے یہ نیا ایس ایچ او آیا ہے تب سے تو واقعی لگتا ہے کمائی سے برکت کہیں غائب ہو گئی ہے!
“کیوں سنتری صاحب کیا ہو ہے تب سے"
یار دیکھو ناں جب پہلے والا ایس ایچ او تھا ناں تو میں نے کبھی تنخواہ کو ہاتھ ہی نہیں لگایا تھا بس روزانہ پانچ سات سو دیہاڑی لگ جاتی تھی اُس سے ہی گھر کا خرچ چل جاتا تھا!مگر جب سے نیا ایس ایچ او آیا ہے تنخواہ بھی خرچ ہو جاتی ہے!
“سنتری بادشاہ کیا کہنے"
ارے نہ پوچھو! وکیل صاحب کیا حال ہے
“کیوں بادشاہوں کیا ہوا؟"
یار لگتا ہے کمائی سے برکت ہی ختم ہوتی جا رہی ہے، پیسہ کہاں جاتا ہے سمجھ ہی نہیں آتی!
“جی جناب یہ تو آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں! سمجھ ہی نہیں آتی جو کماؤں خرچ ہو جاتا ہے بچت ہو ہو ہی نہیں پا رہی"
یار کس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے! شاید مہنگائی یا کچھ اور؟
“بہت سی وجوہات ہیں جن میں ایک مہنگائی بھی ہے! اس کے علاوہ سنا ہے حاکم وقت کا بھی اثر ہوتا ہے"
یہ بات ٹھیک کی تو نے! اب ہمارے تھانے کا ایس ایچ او تو تو علاقے کا حاکم ہی ہوتا ہے ناں!
“اچھا"
ہاں ناں اور جب سے یہ نیا ایس ایچ او آیا ہے تب سے تو واقعی لگتا ہے کمائی سے برکت کہیں غائب ہو گئی ہے!
“کیوں سنتری صاحب کیا ہو ہے تب سے"
یار دیکھو ناں جب پہلے والا ایس ایچ او تھا ناں تو میں نے کبھی تنخواہ کو ہاتھ ہی نہیں لگایا تھا بس روزانہ پانچ سات سو دیہاڑی لگ جاتی تھی اُس سے ہی گھر کا خرچ چل جاتا تھا!مگر جب سے نیا ایس ایچ او آیا ہے تنخواہ بھی خرچ ہو جاتی ہے!
“سنتری بادشاہ کیا کہنے"
9/21/2010
اخبار میں بولتا اشتہار!۔
یہ تصور بہت دلچسپ ہے! اخبار مین بولتا اشتہار۔ آن لائن اخبارات میں تو بولتے اشتہار تو ایک طرف ویڈیو اشتہار تک ہوتے ہین مگر پڑوسی ملک میں گاڑیاں بنانے والی بین الاقوامی کمپنی Volkswagen نے وہاں کے مشہور اخبار ٹائم آف انڈیا میں آوازی اشتہار کا ایک کامیاب تجربہ کیا ہے۔ جسے درج ذیل ویڈیوز میں دیکھ سکتے ہیں!۔
9/19/2010
وجہ گرفتاری؟ لطیفہ یا مذہب؟
آج کل کیتھولک عیسائیوں کے مذہبی رہنما پوپ بینڈکٹ شازدہم برطانیہ کے سرکاری دورے پر ہیں! معلوم ہوا اُن کے قتل کے منصوبہ بنانے والے چھ مسلمان دہشت گرد آخری وقت میں پکڑے گئے! چلو جی پھر شروع قیاس آرائیاں کہ القاعدہ کے بندے ہوں گے! ڈیلی ایکسپریس نے تو یہ ہیڈلائن لگائی "مسلمانوں کا پوپ کو قتل کرنے کا منصوبہ" (یہ تو روشن خیالی ہو گی ناں؟؟ انتہا پسندی یا تعصب تو نہیں کہلائے گا!!)۔
اس ہی طرح سنا ہے دیگر برطانوی اخبارات میں بھی کسی نا کسی شکل میں اسلام و مسلمان کا عنصر ضرور پیش کیا خبر میں!!
میڈیا ٹرائن ہونے کے بعد یہ میڈیا اُس کا ازالہ کیوں نہیں کرتا؟ یوں تو نہیں چلے گا!! اخبارات کو تو ایک طرف رکھے آپ اس قصہ پر لکھے جانے والے بالگ تو زرا تلاش کر کے پڑھے! اور دیکھے قیاس کے ان گھوڑوں نے کیا کیا گُل کھلائے ہیں!
اب اُنہیں برطانوی پولیس نے بے گناہ قرار دے کر چھوڑ دیا ہے، اور معلوم یہ ہوا کہ کسی لطیفہ کی بنیاد پر گرفتاریاں عمل میں آئی! ایک نے لطیفہ سنایا اور باقی سے سنا! جیسے آج کل پاکستانی آج کل ایس ایم ایس پر وہ z سے شروع ہونے والے نام سے متعلق لطیفہ بھیجتے ہیں!
تو ایسے میں اپ کیا خیال ہے؟ گرفتاری کی اصل وجہ کیا تھی؟ لطیفہ یا ۔۔۔۔۔۔ دہشت گردی کی عالمی جنگ جس میں ممکنہ دہشت گرد کون ہو گا؟میڈیا ٹرائن ہونے کے بعد یہ میڈیا اُس کا ازالہ کیوں نہیں کرتا؟ یوں تو نہیں چلے گا!! اخبارات کو تو ایک طرف رکھے آپ اس قصہ پر لکھے جانے والے بالگ تو زرا تلاش کر کے پڑھے! اور دیکھے قیاس کے ان گھوڑوں نے کیا کیا گُل کھلائے ہیں!
9/11/2010
عید اور سیلاب زدگان
دُکھ کی برسات ہے سیلاب کے ماروں کے لئے
غم کی بہتات ہے سیلاب کے ماروں کے لئے
گھات ہی گھات ہے سیلاب کے ماروں کے لئے
دن نہیں، رات ہے سیلاب کے ماروں کے لئے
برملا حرکت مزموم کئے جاتے ہو
کیوں اسے عید سے موسوم کئے جاتے ہو
ایسا منظر نہ کبھی چرخ نے دیکھا توبہ
گھر کی چھت ہے، نہ میسر کوئی سایا، توبہ
بھوک اور پیاس نے ہر سمت سے گھیرا توبہ
لقمے لقمے کو ترستی ہے رعایا توبہ
آہ کو واہ کامقسوم کئے جاتے ہو
کیوں اسے عید سے موسوم کئے جاتے ہو
لے گیا پانی بہا کر سبھی تاثیریں ہیں
بے مزہ خواب ہوئے، لٹ گئی تعبیریں ہیں
ان میں رانجھے ہیں کئی اور کئی ہیریں ہیں
آج سب غربت و افلاس کی تصویریں ہیں
عدل کو عدل سے محروم کئے جاتے ہو
کیوں اسے عید سے موسوم کئے جاتے ہو
مانگ کر دل سے دعا کام بحالی کا کرو
ہو چکا رقصِ بلا کام بحالی کا کرو
توڑ کر کاسہ ذرا کام بحالی کا کرو
کچھ کرو خوف خدا کام بحالی کا کرو
فکرِ شفاف کو موہوم کئے جاتے ہو
کیوں اسے عید سے موسوم کئے جاتے ہو
شاعر: جان کاشمیری
غم کی بہتات ہے سیلاب کے ماروں کے لئے
گھات ہی گھات ہے سیلاب کے ماروں کے لئے
دن نہیں، رات ہے سیلاب کے ماروں کے لئے
برملا حرکت مزموم کئے جاتے ہو
کیوں اسے عید سے موسوم کئے جاتے ہو
ایسا منظر نہ کبھی چرخ نے دیکھا توبہ
گھر کی چھت ہے، نہ میسر کوئی سایا، توبہ
بھوک اور پیاس نے ہر سمت سے گھیرا توبہ
لقمے لقمے کو ترستی ہے رعایا توبہ
آہ کو واہ کامقسوم کئے جاتے ہو
کیوں اسے عید سے موسوم کئے جاتے ہو
لے گیا پانی بہا کر سبھی تاثیریں ہیں
بے مزہ خواب ہوئے، لٹ گئی تعبیریں ہیں
ان میں رانجھے ہیں کئی اور کئی ہیریں ہیں
آج سب غربت و افلاس کی تصویریں ہیں
عدل کو عدل سے محروم کئے جاتے ہو
کیوں اسے عید سے موسوم کئے جاتے ہو
مانگ کر دل سے دعا کام بحالی کا کرو
ہو چکا رقصِ بلا کام بحالی کا کرو
توڑ کر کاسہ ذرا کام بحالی کا کرو
کچھ کرو خوف خدا کام بحالی کا کرو
فکرِ شفاف کو موہوم کئے جاتے ہو
کیوں اسے عید سے موسوم کئے جاتے ہو
شاعر: جان کاشمیری
9/10/2010
9/06/2010
چلو امداد کھائے!
ایک طرف تو ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جنہوں نے دکھی انسانیت کی خدمت کو اپنا نصب العین بنا رکھا ہے۔ کراچی میں اگر آپ کہیں کسی شاہراہ پر افطار کے وقت ہوں تو آپ کو بے شمار لوگ اللہ کی خوشنودی کے لئے روزہ دار کے انتطار میں روزہ افطار کروانے کے لئے نظر آئیں گے! صرف اللہ کی خوشنودی کے لئے اور ثواب کا لالچ میں۔
اس ہی طرح ایسےبھی افراد کی تعداد بھی بے شمار ہے جو چیریٹی کے نام پر لوٹ مار کرتے ہیں! خواہ وہ مذہب کے نام پر ہو یا سیاست کے پردے میں! چلتی گاڑیوں میں کسی دور دراز کی مسجد و مدرسے کے نام پر چندہ لینا، اپنی مظلومیت و پریشانی کی روداد سنا کر پیسے مانگنا اور بھتہ سے فطرے تک کا سفر بھی ہم نے اپنے شہر میں ہوتا دیکھا! مقصد روپیہ ہے خلق کی خدمت نہیں!
ملک میں سیلاب آ گیا ہے! کوئی شک نہیں اپنوں کو مدد کی ضرورت ہے اور امداد ہمارا فرض ہے مگر ایسے میں بھی کچھ بُری خبریں دل کو دُکھ دیتی ہیں!
جب سے یار لوگوں کو معلوم ہوا ہے کہ بیرونی امداد حکومت کے بجائے پرائیویٹ سیکٹر کے ذریعے خرچ کی جائے گی، امدادی رقم کے تخمینے اور طریقہ استعمال بھی ایجاد کیئے جانے لگ پڑے ہیں! یار لوگ علاقے کے رجسٹرار اور ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میں اپنا ٹرسٹ اور نئی این جی او رجسٹر کروانے پہنچ گئے ہیں! اور متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار رشوت کے نام پر 20 سے 50 ہزار روپے طلب کر رہے ہیں!! اور دینے والے خوشی خوشی دے رہے ہیں کہ بعد میں سود سمیت واپس لے لیں گے!! اس عمل میں وزیر و مشیر اور اُن کے اہل خانہ، میڈیا کے افراد، مذہبی گروپ اور عام افراد میں سے موقع پرست سب ہی شامل ہے! اس بات کا مشاہدہ ہمیں گزشتہ دنوں ایک ویلفیئر آرگنائزیشن کی رجسٹریشن کے موقع پر ہوا!
امداد کو لوٹنے کی تیاری ابھی مکمل نہیں ہوئی شاید!!
اس ہی طرح ایسےبھی افراد کی تعداد بھی بے شمار ہے جو چیریٹی کے نام پر لوٹ مار کرتے ہیں! خواہ وہ مذہب کے نام پر ہو یا سیاست کے پردے میں! چلتی گاڑیوں میں کسی دور دراز کی مسجد و مدرسے کے نام پر چندہ لینا، اپنی مظلومیت و پریشانی کی روداد سنا کر پیسے مانگنا اور بھتہ سے فطرے تک کا سفر بھی ہم نے اپنے شہر میں ہوتا دیکھا! مقصد روپیہ ہے خلق کی خدمت نہیں!
ملک میں سیلاب آ گیا ہے! کوئی شک نہیں اپنوں کو مدد کی ضرورت ہے اور امداد ہمارا فرض ہے مگر ایسے میں بھی کچھ بُری خبریں دل کو دُکھ دیتی ہیں!
جب سے یار لوگوں کو معلوم ہوا ہے کہ بیرونی امداد حکومت کے بجائے پرائیویٹ سیکٹر کے ذریعے خرچ کی جائے گی، امدادی رقم کے تخمینے اور طریقہ استعمال بھی ایجاد کیئے جانے لگ پڑے ہیں! یار لوگ علاقے کے رجسٹرار اور ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میں اپنا ٹرسٹ اور نئی این جی او رجسٹر کروانے پہنچ گئے ہیں! اور متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار رشوت کے نام پر 20 سے 50 ہزار روپے طلب کر رہے ہیں!! اور دینے والے خوشی خوشی دے رہے ہیں کہ بعد میں سود سمیت واپس لے لیں گے!! اس عمل میں وزیر و مشیر اور اُن کے اہل خانہ، میڈیا کے افراد، مذہبی گروپ اور عام افراد میں سے موقع پرست سب ہی شامل ہے! اس بات کا مشاہدہ ہمیں گزشتہ دنوں ایک ویلفیئر آرگنائزیشن کی رجسٹریشن کے موقع پر ہوا!
امداد کو لوٹنے کی تیاری ابھی مکمل نہیں ہوئی شاید!!
بھارتی فریب کا جال
پروپیگنڈہ میں بھارتی مہارت اور ان ہمسایہ ملکوں کیخلاف تیزی سے حرکت میں آنا جو اسکی خواہشات کی تعمیل نہیں کرتے یقیناً حیران کن ہے۔ پاکستان درحقیقت اس سے گرانقدر سبق سیکھ سکتا ہے کہ بھارت اپنی ظاہرہ ڈپلومیسی کو آگے بڑھانے کیلئے کس طریقے سے بیرونی پروپیگنڈہ کرتا ہے اور اس میدان میں امریکہ بھی اپنے اس سٹریٹجک اتحادی سے ایک یا دو سبق سیکھ سکتا ہے۔ بہرحال اس نے 60سال سے عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے جموں و کشمیر پر غیرقانونی قبضہ برقرار رکھتے ہوئے نہ صرف کشمیری عوام پر ظلم و جبر کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ یہ سب کچھ وہ اقوام متحدہ سے کئے گئے اپنے اس وعدے جو کسی حقیقت کے باوجود کر رہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں کشمیریوں کو حق خودارادی کے استعمال کی اجازت دیگا۔ بعض لوگ اس پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ عملی سیاست سے بڑھ کر تمام تر منڈیوں کا معاملہ ہے جو بھارت کی طاقت کے بجائے اسکے پروپیگنڈہ سے اندھا کرنے کا معاملہ ہے اس چیز نے عالمی طاقتوں کو اس بات سے روک رکھا ہے کہ وہ بھارت کو کشمیر پر اقوام متحدہ، سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کرنے کیلئے مجبور کریں اگرچہ یہ بھی وضاحت کا حصہ ہو سکتی ہے تاہم اس میدان یا کسی دیگر معاملے میں بھارت کے تیزی کیساتھ اور موثر پروپیگنڈہ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کو سمندر پار خصوصاً مغرب میں بہت سے مبصرین کی حمایت حاصل ہے۔ کسی ایک یا دوسری وجہ کے باعث بھارتی ریاست کیلئے صلیبی جنگجو بننے کے راستے کا انتخاب کر رکھا ہے۔
محض حال ہی میں رونما ہونے والی پیشرفتوں پر نظر ڈالنے سے ہی اس کی وضاحت ہو جائیگی جسے میں اجاگر کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ چین نے اس بھارتی جنرل کو ویزا جاری کرنے سے انکار کر دیا جو ناردرن ایریا کا کمانڈر ہے۔ اس کمانڈ کے دائرے میں جموں و کشمیر بھی شامل ہے جسے چین متنازع علاقہ تسلیم کرتا ہے۔ چینیوں نے کہا کہ وہ جنرل جسوال کو خوش آمدید نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ جموں و کشمیر کے متنازع علاقے کو کنٹرول کرتے ہیں بلاشبہ بھارت نے دوٹوک انداز میں جواب دیتے ہوئے دو چینی افسروں کو نیشنل ڈیفنس کالج کے کورس میں شرکت کی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور ایک بھارتی فوجی وفد کا دورہ بیجنگ منسوخ کر دیا لیکن زیادہ دلچسپ جواب بہت پوشیدہ اور نہ صرف چین بلکہ پاکستان کیلئے بھی کہیں زیادہ نقصان دہ تھا۔ یہ بھارت نواز اور پاگل پن کی حد تک پاکستان مخالف تجزیہ نگار سیلگ ہیریسن کا میدان عمل میں کودنا تھا۔ 80ء کے عشرے میں وہ نئی دہلی میں امریکہ کے ایک بڑے اخبار کا بیوروچیف تھا اور اس وقت سے اس نے ایشوز پر بھارتی موقف کی حمایت کا سلسلہ شروع کیا تھا‘ وہ لوگ جو افغانستان میں امریکہ کی زیرقیادت لڑی جانیوالی جنگ کو یاد کر سکتے ہیں وہ ان دنوں پاکستان کیخلاف سیلگ ہیریسن کی ہرزہ سرائیوں کو بھی یاد کرینگے۔
اب کیا یہ دلچسپ حسن اتفاق نہیں کہ وہ 26اگست کو نیویارک ٹائمز میں ایک نیا تنقید سے بھرا مضمون لکھتے ہیں جسے بہت سے پاکستانی میڈیا آئوٹ لیٹس دیکھتے ہیں لیکن بیشتر ہیریسن کے ماضی کے پیش نظر اسے محض پروپیگنڈہ خیال کرتے ہوئے نظرانداز کر رہے ہیں۔ یہ مضمون بھارتی جنرل کو ویزا دینے کے چینی انکار کے فوری بعد پاکستان اور چین کے بارے میں تحریر کیا گیا تھا۔ اچانک نیویارک میں بیٹھے ہوئے اس نے ایک انتہائی تصوراتی مضمون تحریر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ گلگت بلتستان میں علاقے کے حقیقی کنٹرول کیلئے 7ہزار سے 11ہزار تک چینی فوج پہنچ گئی ہے۔ اس نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس پورے علاقے میں پاکستان کے خلاف بغاوت ہو چکی ہے۔ یہ بے سروپا دعویٰ ہے کہ جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح علاقے کے لوگوں کو پہلی بار قومی سیاست کے دھارے میں لایا گیا ہے۔ بلاشبہ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ دنیا کیلئے اس علاقے کو بند کر دیا گیا ہے لیکن پھر بھی وہ اس علاقے میں رونما ہونیوالے تمام واقعات تک کھلی رسائی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کا یہ ایک مکمل جائز ایجنڈا ہے کہ گوادر پورٹ سے شمال کی جانب چین کے اندر سڑک اور ریل کے رابطے تعمیر کئے جائیں جس سے شاہراہ قراقرم کی اہمیت بڑھے گی۔ درحقیقت متواتر پاکستانی حکومتیں کوشش کر رہی ہیں کہ بحیرہ عرب سے چین تک ریل اور سڑک کے ذریعے زیادہ روابط قائم کئے جائیں اور اب ایران سے چین تک انرجی پائپ لائن کا منصوبہ بھی ہے یہ بتاتے ہوئے کہ چینی کس طرح بھارت کے اندر اپنے ریل رابطوں کو فروغ دے رہے ہیں۔ ہیریسن آخر کیوں پاکستان چین مواصلاتی روابط پر شبہات کا اظہار کرتے ہوئے فکرمند ہیں جبکہ کوئی انکے حد سے زیادہ پاکستان مخالف ذہنی رجحان کو بخوبی سمجھتا ہے کہ اگرچہ ہیریسن تسلیم کرتا ہے کہ بعض فوجی وہاں روڈ اور ریل انفراسٹرکچر کی تعمیر کے مقصد کیلئے مقیم ہیں جیسے شاہراہ قراقرم کیلئے وہاں رہے ہیں لیکن پھر بھی وہ خود کو بھارتی پراپیگنڈہ کار کے اس نقطہ نظر سے نہیں بچا سکا کہ وہاں ضرور کوئی اور کام بھی ہو رہا ہے۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی سیلگ ہیریسن اپنی سوچ کے گھوڑے کو بے لگام دوڑاتے ہوئے اعلان کرتے ہیں کہ ’’خفیہ مقام‘‘ میں 22 سرنگوں کے گرد پراسراریت چھائی ہوئی ہے جہاں جانے کی پاکستانیوں کو بھی ممانعت ہے لیکن انکے بارے میں ایک بار پھر وہ اتنی آسانی سے رازدار بنا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اگرچہ وہ تسلیم کرتا ہے کہ یہ سرنگیں براستہ گلگت قراقرم سے گزرنے والی ایران چین گیس پائپ لائن کیلئے ضروری ہو سکتی ہیں۔ انکی بھارتی غلبہ رکھنے والی سوچ میں یہ تصور ابھرتا ہے کہ یہ سرنگیں میزائل ذخیرہ کرنے کیلئے استعمال کی جا رہی ہیں۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ آیا یہ مقامات چینی میزائلوں یا پاکستانی میزائلوں کیلئے ہیں‘ اگر یہ بعدالذکر ہے تو اس پر تشویش کیوں ہے جبکہ بھارت خود سٹریٹجک مقامات پر میزائل نصب کر رہا ہے جہاں تک چین کا معاملہ ہے تو اسے بھارت کو نشانہ بنانے کیلئے ان مقامات کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ اپنے علاقے سے بھارت تک خاصی رسائی رکھتا ہے اور چین کی یہ تاریخ ہے کہ امریکہ کے برعکس اس نے سمندر پار فوجی اڈے بنانے کی کوشش نہیں کی اپنی بھرپور قیاس آرائیوں کے بعد ہیریسن نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ چونکہ پاکستان چین کو خلیج تک رسائی کی سہولت دے رہا ہے اس لئے یہ امریکہ کا اتحادی نہیں ہے۔ یہ انتہائی بیہودہ بات ہے کہ پاکستان مخالفت میں حد سے بڑھے ہوئے تجزیہ کار کو یہ بات لکھنے سے پہلے دو بار ضرور سوچنا چاہئے۔ آخر پاکستان نے امریکہ کیلئے اسکی گمراہ کن دہشت گردی کیخلاف جنگ میں قربانیاں دی ہیں اگر امریکہ پھر بھی پاکستان کو اپنا اتحادی نہیں سمجھتا تو پھر یہ ٹھیک ہے۔ کسی بھی معاملے میں بیشتر پاکستانیوں نے امریکہ کو حقیقی طور پر کبھی اپنا اتحادی تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ بے وفا امریکہ سے اتحادی تسلیم کرانے کیلئے اپنے سٹریٹجک اور دائمی اتحادی چین سے قطع تعلق کر لے ایک مضحکہ خیز مطالبہ ہے اور پاکستان میں اس وقت موجود حد سے زیادہ امریکہ نواز حکومت بھی خود کشی پر مبنی ایسا قدم اٹھانے کا حوصلہ نہیں کر سکتی۔ ہیریسن جس واحد دانشمندانہ نتیجے پر پہنچتے ہیں‘ وہ یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر حل کرنے کی ضرورت ہے لیکن وہ لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب بسنے والے کشمیریوں کے خود مختاری کے مطالبات کا حوالہ دیتے ہیں جس سے پتہ چلتا کہ وہ کتنی غلط بات کر رہے ہیں۔ جو کچھ انہیں کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ انہیں اپنی آنکھوں پر بندھی بھارتی پٹیاں اتار دینی چاہئیں تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے کشمیری خودمختاری نہیں بلکہ آزادی چاہتے ہیں اور اس آزادی کیلئے ہی کشمیریوں کو ایک کے بعد دوسری نسل مدت کو گلے لگا رہی ہے۔ ان کا یہ دعویٰ بھی درست نہیں کہ امریکہ کشمیر میں اعتدال پسندانہ کردارادا کرنے کیلئے تیار ہے۔ درحقیقت امریکہ یہ اعلان کرنے کے بعد اپنی تمام تر ساکھ کھو چکا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں کشمیریوں کے بہیمانہ قتل بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ بھارت کے کشمیر کو خودمختاری دینے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا کیونکہ کشمیری نوجوانوں کی نئی تحریک غضبناک دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان کی طرح جو تحریک آزادی کا حامی ہے۔ بھارت کے پرجوش حمایتی بھی تسلیم کریں گے کہ پتھرائو کرنیوالے نوجوانوں کی حالیہ تحریک قطعی طور پر انکی اپنی ہے۔ اور یہ کسی بیرونی کنٹرول میں نہیں ہے۔ غالباً یہ وقت ہے کہ مسٹر ہیریسن اس خطے کے حقائق جانیں بجائے اسکے پاکستان اور بھارت کے بارے میں محض اپنے تخیلات کے اسیر بن کر رہیں۔ ان کا نقطہ نظر زمینی حقائق سے ہر گز میل نہیں کھاتا اور اس وقت انکی ادھوری سچائیوں اور خفیہ ایجنڈا کے تمام اطراف پول کھل چکا ہے۔ بھارت کے ماہرانہ پروپیگنڈہ کی تکمیل کیلئے ہیریسن کے مضمون کی اشاعت کے فوری بعد بھارت حرکت میں آیا اور اس نے گلگت بلتستان کے واقعات اور وہاں چین کی مداخلت پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ واقعات کا تسلسل دیکھئے! چین کی طرف سے بھارتی جنرل کو ویزا دینے سے انکار ہیریسن کے مضمون کی اشاعت، بھارت کو سفارتی طور پر معاملہ اٹھانے کا بہانہ مل جانا کیا نان ایشو ہے؟ دریں اثناء ہم جو کچھ کر رہے ہیں ہمارے اردگرد فریب کاری کے ایسے ہی جال بنے جا رہے ہیں؟
محض حال ہی میں رونما ہونے والی پیشرفتوں پر نظر ڈالنے سے ہی اس کی وضاحت ہو جائیگی جسے میں اجاگر کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ چین نے اس بھارتی جنرل کو ویزا جاری کرنے سے انکار کر دیا جو ناردرن ایریا کا کمانڈر ہے۔ اس کمانڈ کے دائرے میں جموں و کشمیر بھی شامل ہے جسے چین متنازع علاقہ تسلیم کرتا ہے۔ چینیوں نے کہا کہ وہ جنرل جسوال کو خوش آمدید نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ جموں و کشمیر کے متنازع علاقے کو کنٹرول کرتے ہیں بلاشبہ بھارت نے دوٹوک انداز میں جواب دیتے ہوئے دو چینی افسروں کو نیشنل ڈیفنس کالج کے کورس میں شرکت کی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور ایک بھارتی فوجی وفد کا دورہ بیجنگ منسوخ کر دیا لیکن زیادہ دلچسپ جواب بہت پوشیدہ اور نہ صرف چین بلکہ پاکستان کیلئے بھی کہیں زیادہ نقصان دہ تھا۔ یہ بھارت نواز اور پاگل پن کی حد تک پاکستان مخالف تجزیہ نگار سیلگ ہیریسن کا میدان عمل میں کودنا تھا۔ 80ء کے عشرے میں وہ نئی دہلی میں امریکہ کے ایک بڑے اخبار کا بیوروچیف تھا اور اس وقت سے اس نے ایشوز پر بھارتی موقف کی حمایت کا سلسلہ شروع کیا تھا‘ وہ لوگ جو افغانستان میں امریکہ کی زیرقیادت لڑی جانیوالی جنگ کو یاد کر سکتے ہیں وہ ان دنوں پاکستان کیخلاف سیلگ ہیریسن کی ہرزہ سرائیوں کو بھی یاد کرینگے۔
اب کیا یہ دلچسپ حسن اتفاق نہیں کہ وہ 26اگست کو نیویارک ٹائمز میں ایک نیا تنقید سے بھرا مضمون لکھتے ہیں جسے بہت سے پاکستانی میڈیا آئوٹ لیٹس دیکھتے ہیں لیکن بیشتر ہیریسن کے ماضی کے پیش نظر اسے محض پروپیگنڈہ خیال کرتے ہوئے نظرانداز کر رہے ہیں۔ یہ مضمون بھارتی جنرل کو ویزا دینے کے چینی انکار کے فوری بعد پاکستان اور چین کے بارے میں تحریر کیا گیا تھا۔ اچانک نیویارک میں بیٹھے ہوئے اس نے ایک انتہائی تصوراتی مضمون تحریر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ گلگت بلتستان میں علاقے کے حقیقی کنٹرول کیلئے 7ہزار سے 11ہزار تک چینی فوج پہنچ گئی ہے۔ اس نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس پورے علاقے میں پاکستان کے خلاف بغاوت ہو چکی ہے۔ یہ بے سروپا دعویٰ ہے کہ جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح علاقے کے لوگوں کو پہلی بار قومی سیاست کے دھارے میں لایا گیا ہے۔ بلاشبہ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ دنیا کیلئے اس علاقے کو بند کر دیا گیا ہے لیکن پھر بھی وہ اس علاقے میں رونما ہونیوالے تمام واقعات تک کھلی رسائی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کا یہ ایک مکمل جائز ایجنڈا ہے کہ گوادر پورٹ سے شمال کی جانب چین کے اندر سڑک اور ریل کے رابطے تعمیر کئے جائیں جس سے شاہراہ قراقرم کی اہمیت بڑھے گی۔ درحقیقت متواتر پاکستانی حکومتیں کوشش کر رہی ہیں کہ بحیرہ عرب سے چین تک ریل اور سڑک کے ذریعے زیادہ روابط قائم کئے جائیں اور اب ایران سے چین تک انرجی پائپ لائن کا منصوبہ بھی ہے یہ بتاتے ہوئے کہ چینی کس طرح بھارت کے اندر اپنے ریل رابطوں کو فروغ دے رہے ہیں۔ ہیریسن آخر کیوں پاکستان چین مواصلاتی روابط پر شبہات کا اظہار کرتے ہوئے فکرمند ہیں جبکہ کوئی انکے حد سے زیادہ پاکستان مخالف ذہنی رجحان کو بخوبی سمجھتا ہے کہ اگرچہ ہیریسن تسلیم کرتا ہے کہ بعض فوجی وہاں روڈ اور ریل انفراسٹرکچر کی تعمیر کے مقصد کیلئے مقیم ہیں جیسے شاہراہ قراقرم کیلئے وہاں رہے ہیں لیکن پھر بھی وہ خود کو بھارتی پراپیگنڈہ کار کے اس نقطہ نظر سے نہیں بچا سکا کہ وہاں ضرور کوئی اور کام بھی ہو رہا ہے۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی سیلگ ہیریسن اپنی سوچ کے گھوڑے کو بے لگام دوڑاتے ہوئے اعلان کرتے ہیں کہ ’’خفیہ مقام‘‘ میں 22 سرنگوں کے گرد پراسراریت چھائی ہوئی ہے جہاں جانے کی پاکستانیوں کو بھی ممانعت ہے لیکن انکے بارے میں ایک بار پھر وہ اتنی آسانی سے رازدار بنا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اگرچہ وہ تسلیم کرتا ہے کہ یہ سرنگیں براستہ گلگت قراقرم سے گزرنے والی ایران چین گیس پائپ لائن کیلئے ضروری ہو سکتی ہیں۔ انکی بھارتی غلبہ رکھنے والی سوچ میں یہ تصور ابھرتا ہے کہ یہ سرنگیں میزائل ذخیرہ کرنے کیلئے استعمال کی جا رہی ہیں۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ آیا یہ مقامات چینی میزائلوں یا پاکستانی میزائلوں کیلئے ہیں‘ اگر یہ بعدالذکر ہے تو اس پر تشویش کیوں ہے جبکہ بھارت خود سٹریٹجک مقامات پر میزائل نصب کر رہا ہے جہاں تک چین کا معاملہ ہے تو اسے بھارت کو نشانہ بنانے کیلئے ان مقامات کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ اپنے علاقے سے بھارت تک خاصی رسائی رکھتا ہے اور چین کی یہ تاریخ ہے کہ امریکہ کے برعکس اس نے سمندر پار فوجی اڈے بنانے کی کوشش نہیں کی اپنی بھرپور قیاس آرائیوں کے بعد ہیریسن نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ چونکہ پاکستان چین کو خلیج تک رسائی کی سہولت دے رہا ہے اس لئے یہ امریکہ کا اتحادی نہیں ہے۔ یہ انتہائی بیہودہ بات ہے کہ پاکستان مخالفت میں حد سے بڑھے ہوئے تجزیہ کار کو یہ بات لکھنے سے پہلے دو بار ضرور سوچنا چاہئے۔ آخر پاکستان نے امریکہ کیلئے اسکی گمراہ کن دہشت گردی کیخلاف جنگ میں قربانیاں دی ہیں اگر امریکہ پھر بھی پاکستان کو اپنا اتحادی نہیں سمجھتا تو پھر یہ ٹھیک ہے۔ کسی بھی معاملے میں بیشتر پاکستانیوں نے امریکہ کو حقیقی طور پر کبھی اپنا اتحادی تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ بے وفا امریکہ سے اتحادی تسلیم کرانے کیلئے اپنے سٹریٹجک اور دائمی اتحادی چین سے قطع تعلق کر لے ایک مضحکہ خیز مطالبہ ہے اور پاکستان میں اس وقت موجود حد سے زیادہ امریکہ نواز حکومت بھی خود کشی پر مبنی ایسا قدم اٹھانے کا حوصلہ نہیں کر سکتی۔ ہیریسن جس واحد دانشمندانہ نتیجے پر پہنچتے ہیں‘ وہ یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر حل کرنے کی ضرورت ہے لیکن وہ لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب بسنے والے کشمیریوں کے خود مختاری کے مطالبات کا حوالہ دیتے ہیں جس سے پتہ چلتا کہ وہ کتنی غلط بات کر رہے ہیں۔ جو کچھ انہیں کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ انہیں اپنی آنکھوں پر بندھی بھارتی پٹیاں اتار دینی چاہئیں تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے کشمیری خودمختاری نہیں بلکہ آزادی چاہتے ہیں اور اس آزادی کیلئے ہی کشمیریوں کو ایک کے بعد دوسری نسل مدت کو گلے لگا رہی ہے۔ ان کا یہ دعویٰ بھی درست نہیں کہ امریکہ کشمیر میں اعتدال پسندانہ کردارادا کرنے کیلئے تیار ہے۔ درحقیقت امریکہ یہ اعلان کرنے کے بعد اپنی تمام تر ساکھ کھو چکا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں کشمیریوں کے بہیمانہ قتل بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ بھارت کے کشمیر کو خودمختاری دینے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا کیونکہ کشمیری نوجوانوں کی نئی تحریک غضبناک دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان کی طرح جو تحریک آزادی کا حامی ہے۔ بھارت کے پرجوش حمایتی بھی تسلیم کریں گے کہ پتھرائو کرنیوالے نوجوانوں کی حالیہ تحریک قطعی طور پر انکی اپنی ہے۔ اور یہ کسی بیرونی کنٹرول میں نہیں ہے۔ غالباً یہ وقت ہے کہ مسٹر ہیریسن اس خطے کے حقائق جانیں بجائے اسکے پاکستان اور بھارت کے بارے میں محض اپنے تخیلات کے اسیر بن کر رہیں۔ ان کا نقطہ نظر زمینی حقائق سے ہر گز میل نہیں کھاتا اور اس وقت انکی ادھوری سچائیوں اور خفیہ ایجنڈا کے تمام اطراف پول کھل چکا ہے۔ بھارت کے ماہرانہ پروپیگنڈہ کی تکمیل کیلئے ہیریسن کے مضمون کی اشاعت کے فوری بعد بھارت حرکت میں آیا اور اس نے گلگت بلتستان کے واقعات اور وہاں چین کی مداخلت پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ واقعات کا تسلسل دیکھئے! چین کی طرف سے بھارتی جنرل کو ویزا دینے سے انکار ہیریسن کے مضمون کی اشاعت، بھارت کو سفارتی طور پر معاملہ اٹھانے کا بہانہ مل جانا کیا نان ایشو ہے؟ دریں اثناء ہم جو کچھ کر رہے ہیں ہمارے اردگرد فریب کاری کے ایسے ہی جال بنے جا رہے ہیں؟
تحریر: ڈاکٹر شٰیریں مزاری
9/01/2010
دل جیت لیا جس نے!!۔
بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین محترم ملک ریاض حسین نے سی این این کے پروگرام میں یہ کہا کہ وہ اپنی جائیداد کا 75 فیصد سیلاب زدگان کو دینے کا ارادہ رکھتے ہیں جو کہ قریب دو ارب ڈالر کے قریب بنتی ہے!۔پروگرام کے کمپئر کا دعوے ہے کہ یہ رقم مختلف ادراوں کی طرف سے دی گئی امداد سے ذیادہ ہے جو کہ 75 کروڑ روپے ہے! پروگرام کی ریکارڈنگ ذیل میں ہے۔