بعض خوشیاں بہت عجیب ہوتی ہیں! کسی کو بتانے کے لئے اُس کے تمام جذیات سے آگاہ کرنا پڑتا ہے بصورت دیگر سامنے والا اُس خوشی کی روح تک پہنچ پائے یہ کم ہی ممکن ہے۔
گزرے اتوار ہماری(وکلاء) پکنک تھی، طے یہ پایا کہ پہلے سٹی کورٹ (کچہری) پہنچا جائے، وہاں پہنچے تو دیکھا کہ پولیس والےملزمان کو ریمانڈ کے لئے عدالت میں پیش کرنے کے لئے لائے ہیں! دیکھ کر خوشی ہوئی!یقین آپ کو حیرانگی ہوئی ہو گی کہ یہ کیا خوشی ہے؟
ملکی قانون کے مطابق پولیس اس بات کی پابند ہے کہ کسی بھی شخص کو جب گرفتار کرے تو چوبیس گھنٹوں کے اندر اپنے علاقے کے جوڈیشل افسر (جج) کے سامنے اُسے پیش کر کے اُس کی وجہ گرفتاری سے آگاہ کرے !اور ملک کے دیگر صوبوں میں تو اتوار والے دن بھی ہر دسٹرکٹ میں ایک جوڈیشل افسر کی دیوٹی لگی ہوتی ہے کہ پولیس ریمانڈ یا دیگر معاملات کے سلسلے میں چھٹی والے دن بھی عدالت میں ہوں مگر پچھلے چند سالوں سے سندھ میں یہ پریکٹس ختم ہو گئی تھی! جو ملکی آئین و قانون کے جہاں خلاف ہے وہاں ہی سیاسی قوتوں کو اپنے مخالفین کو بذریعہ پولیس ڈرانے و اپنے ہمدردوں کو عدالت میں پیش ہونے سے قبل ہی کیس سے باہر نکالنے کے لئے کافی وقت مہیا کر دیتی تھی۔
یعنی کوئی جوڈیشل آفسر آن ڈیوٹی نہیں ہوتا تھا تو پولیس اس انتظامی غلطی کی بناء پر نہ صرف گرفتار ملزم سے سودے بازی کر کے کیس ہی بدل دیتے تھے بلکہ بعض اوقات سیاسی دباؤ کے زیراثر بے گناہ افراد کے خلاف جھوٹے مقدمہ بنا دیتی تھی، یہ ہی نہیں کسی بہانے سے کسی شخص کو زیر حراست لے کر دباو ڈال کر کچھ بھی منوا لیتی تھی اور چھٹی کا دن ہونے کی بناء پر اُس شخص یا اُس (غیر قانونی) زیر حراست شخص کے رشتہ داروں کوئی فوری چارہ جوئی حاصل نہیں ہوتی تھی۔ اور یہ صورت حال مزید اُس وقت خراب ہوجاتی تھی جب ایک سے ذیادہ سرکاری تعطیلات آ جاتی تھی!! جیسے عید ، محرم یا دیگر ملکی و اسلامی تہواروں پر ملنے والی دو یا ذیادہ چھٹیاں!!
ہم جونیئر نے ایک لیگل رائیٹس فورم کے نام سے پلیٹ فارم بنایاہوا ہے، جس کی تیسری سالگرہ یکم جون ٢٠١٠ کو تھی لہذا اُس دن ایک سیمینار ‘انصاف کی نچلی سطح تک فراہمی ‘ کے موضوع کے تحت منعقد کیا جس میں چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جناب سرمد جلال عثمانی ، صوبائی وزیر قانون ایاز سومرو، بیرسٹر شاہدہ جمیل (سابق وفاقی وزیر) اور انور منصور خان (سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان) نے باحیثیت شرکاء شرکت کی تھی ۔ اس سیمینار میں جہاں اور بہت سی تجاویر لیگل راٌئیٹس فورم کی طرف سے پیش کر کے منوائی گئی وہاں ہی چھٹی والے دن صوبہ سندھ میں ہر ڈسٹرکٹ میں ایک جوڈیشل مجسٹریٹ کی ڈیوٹی پر لازمی ہونے کا حکم بھی تھااس حکم کو تمام مقامی اخبارات نے کافی کوریج دی تھی۔
اور اس اتوار کو اپنی آنکھوں سے پیش کردہ تجویر کا صوبے کی سطح پر عملی نفاذ دیکھ کر دل کو ایک خاص خوشی ہوئی۔
پروگرام کی تصاویر یہاں ہیں نیز جاری نوٹیفکیشن ذیل میں ہے۔
گزرے اتوار ہماری(وکلاء) پکنک تھی، طے یہ پایا کہ پہلے سٹی کورٹ (کچہری) پہنچا جائے، وہاں پہنچے تو دیکھا کہ پولیس والےملزمان کو ریمانڈ کے لئے عدالت میں پیش کرنے کے لئے لائے ہیں! دیکھ کر خوشی ہوئی!یقین آپ کو حیرانگی ہوئی ہو گی کہ یہ کیا خوشی ہے؟
ملکی قانون کے مطابق پولیس اس بات کی پابند ہے کہ کسی بھی شخص کو جب گرفتار کرے تو چوبیس گھنٹوں کے اندر اپنے علاقے کے جوڈیشل افسر (جج) کے سامنے اُسے پیش کر کے اُس کی وجہ گرفتاری سے آگاہ کرے !اور ملک کے دیگر صوبوں میں تو اتوار والے دن بھی ہر دسٹرکٹ میں ایک جوڈیشل افسر کی دیوٹی لگی ہوتی ہے کہ پولیس ریمانڈ یا دیگر معاملات کے سلسلے میں چھٹی والے دن بھی عدالت میں ہوں مگر پچھلے چند سالوں سے سندھ میں یہ پریکٹس ختم ہو گئی تھی! جو ملکی آئین و قانون کے جہاں خلاف ہے وہاں ہی سیاسی قوتوں کو اپنے مخالفین کو بذریعہ پولیس ڈرانے و اپنے ہمدردوں کو عدالت میں پیش ہونے سے قبل ہی کیس سے باہر نکالنے کے لئے کافی وقت مہیا کر دیتی تھی۔
یعنی کوئی جوڈیشل آفسر آن ڈیوٹی نہیں ہوتا تھا تو پولیس اس انتظامی غلطی کی بناء پر نہ صرف گرفتار ملزم سے سودے بازی کر کے کیس ہی بدل دیتے تھے بلکہ بعض اوقات سیاسی دباؤ کے زیراثر بے گناہ افراد کے خلاف جھوٹے مقدمہ بنا دیتی تھی، یہ ہی نہیں کسی بہانے سے کسی شخص کو زیر حراست لے کر دباو ڈال کر کچھ بھی منوا لیتی تھی اور چھٹی کا دن ہونے کی بناء پر اُس شخص یا اُس (غیر قانونی) زیر حراست شخص کے رشتہ داروں کوئی فوری چارہ جوئی حاصل نہیں ہوتی تھی۔ اور یہ صورت حال مزید اُس وقت خراب ہوجاتی تھی جب ایک سے ذیادہ سرکاری تعطیلات آ جاتی تھی!! جیسے عید ، محرم یا دیگر ملکی و اسلامی تہواروں پر ملنے والی دو یا ذیادہ چھٹیاں!!
ہم جونیئر نے ایک لیگل رائیٹس فورم کے نام سے پلیٹ فارم بنایاہوا ہے، جس کی تیسری سالگرہ یکم جون ٢٠١٠ کو تھی لہذا اُس دن ایک سیمینار ‘انصاف کی نچلی سطح تک فراہمی ‘ کے موضوع کے تحت منعقد کیا جس میں چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جناب سرمد جلال عثمانی ، صوبائی وزیر قانون ایاز سومرو، بیرسٹر شاہدہ جمیل (سابق وفاقی وزیر) اور انور منصور خان (سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان) نے باحیثیت شرکاء شرکت کی تھی ۔ اس سیمینار میں جہاں اور بہت سی تجاویر لیگل راٌئیٹس فورم کی طرف سے پیش کر کے منوائی گئی وہاں ہی چھٹی والے دن صوبہ سندھ میں ہر ڈسٹرکٹ میں ایک جوڈیشل مجسٹریٹ کی ڈیوٹی پر لازمی ہونے کا حکم بھی تھااس حکم کو تمام مقامی اخبارات نے کافی کوریج دی تھی۔
اور اس اتوار کو اپنی آنکھوں سے پیش کردہ تجویر کا صوبے کی سطح پر عملی نفاذ دیکھ کر دل کو ایک خاص خوشی ہوئی۔
پروگرام کی تصاویر یہاں ہیں نیز جاری نوٹیفکیشن ذیل میں ہے۔
9 تبصرے:
mashallah - zubardast
واقعی یہ خوشی والی بات ہے۔ آپ کی تو پکنک کی خوشی دوبالا ہو گئی ہو گی۔
اللہ کرے اس عجیب قسم کی خوشیاں اور زیادہ ہوں۔۔۔
خدا کرے زورے قلم اور زیادہ
Congratulation Wakeel Sahab!
Keep up the Good WORK!
:)
مبارک ہو۔ ہمارے ہاں تو اندھا قانون ہی چل رہا ہے ابھی تک۔ پچھلے سال میرے گاؤں کے دو جوانوں کو پولیس اور ایجنسیوں نے دہشت گردی کے الزام میں ان کے گھر سئ اٹھا لیا اور پھر تین ماہ تک ان کا کوئی پتا نہ چلا کہ وہ کہاں گئے ہیں۔ ان کی مائیں اور بہنیں رو رو کے پاگل ہو گئیں۔
تین ماہ بعد ان دونوں کو میڈیا کے سامنے بمعہ اسلحہ و بارود میانوالی سے پیش کر دیا گیا جبکہ گیا۔ وہ غریب ابھی تک بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ لعنت ایسے قانون پر جو غریب کیلیے عذاب بن جائے
** جبکہ ان کو گرفتار ان کے گھروں (سرگودھا) سے کیا گیا تھا
کچھ اندھير نگری ختم ہونے کے بعد عوام کے علم ميں آتی ہيں جس کی ايک مثال يہ آپ نے لکھی ہے اور ايک درياؤں اور نہروں کا پانی ہے ۔ کئی سال سے پروپيگنڈہ سُن رہے تھے کہ سندھ کا پانی پنجاب نے روک رکھا ہے ۔ اب حقيقت سامنے آئی تو معلوم ہوا کہ پنجاب 135000 کيوسک پانی مانگ رہا تھا مگر سندھ کی اجارہ داری کے تحت اسے 120000 کيوسک ديا جا رہا تھا جبکہ سندھ کو 195000 کيوسک ديا جا رہا تھا ۔ اور سندھ جو پنجاب کے خلاف پانی روکنے کا جھوٹا پروپيگنڈہ کر رہا تھا وہ بلوچستان کے حصے کا پانی روک کر خود استعمال کر رہا تھا
اچھی خبر ہے امید ہے اسی طرح معاملات پر توجہ دلانے سے بہتری آ سکے
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔