Pages

2/24/2010

میری زبان، ہمارا مستقبل

تحریر: اوریا مقبول جان

7 تبصرے:

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے کہ

ميں تو ان حالات قومی سانحہ کہتا ہوں

عنیقہ ناز نے لکھا ہے کہ

یہ اوریا جان کا وہ کالم ہے جو انہوں نے سنجیدہ ہو کر لکھا ہے۔ ساری دنیا میں اس حقیقت کو تسلیم کیا جا چکا ہے کہ مادری زبان میں سیکھنے کی رفتار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ریسرچ تو یہ تک کہتی ہے کہ بچہ دنیا میں آنے سے پہلے اپنے ارد گرد کی زبان کا اثر لیتا ہے اور جب روتا ہے پیدائش کے بعد تو اپنی ہی زبان کے اثرات کیساتھ روتا ہے۔ تو اب ہمیں اس تمام سراب سے نکل آنا چاہئیے کہ ہماری زبان میں ایسا نہیں ہو سکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ کتابوں کے ترجمے کئیے جائیں۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ مسلمانوں نے ابتدائ میں تراجم پہ بے حد کام کیا اور پھر ان ترجموں کو اپنی زبان میں کرنے کے بعد ان سے خوب مستفید ہوئے۔
اب ہم میں سے ہی کسی کو اپنے طور پہ یہ ریسرچ بھی کر ڈالنی چاہئیے کہ مختلف ممالک میں تراجم کرنے کا کیا طچریقہ جس سے انہوں نے اتنی کتابیں ترجمہ کیں۔ حکومت سے کوئ توقع رکھنا اور انہیں اس طرف لانا کافی قوقت طلب کام ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ جیسے ہمارے پاس ایدھی والے کام کرتے ہیں اسی طرح علم کی ترویج کے لئیے بھی رضا کار سامنے آنا چاہئیں۔ جو تراجم کا بیڑا اٹھائیں اور دوسرے لوگوں کو انہیں معاشی سپورٹ مہیا کرنی چاہئیے۔ اس کام کو ہنگامی بنیادوں پہ کرنا چاہئیے ۔ کیونکہ اس وقت ہمارا اپنی زبان میں علم بہت محدود ہے امید ہے اب میری اس بات سے اتفاق کریں گے جو میں نے بلاگرز میٹنگ میں کہی تھی۔

REHAN نے لکھا ہے کہ

تعلیم کی ایمرجنسی ہونی چاہیے ۔۔ ایک زبان ایک تعلیم بس

پر ہے نا ممکن سی بات

ایم بلال نے لکھا ہے کہ

بہت زبردست کالم ہے۔۔۔ بہت ہی اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ہے۔
میں بھی کچھ ایسا ہی سوچتا ہوں کہ اردو کے لئے سپریم کورٹ یا کسی اور عدالت میں کیس کیا جائے اور آئین کے مطابق اردو کے نفاظ کے لئے کام کیا جائے اس بارے میں کافی لوگوں سے بات چیت بھی ہوئی۔ زیادہ تر تو مجھے پاگل ہی سمجھتے تھے۔
خیر میں تو اب بھی پاگل ہوں اگر اللہ نے توفیق دی تو اس بارے میں ضرور قدم اٹھاؤں گا۔

Mahmood ul Haq نے لکھا ہے کہ

بہت زبردست کالم تحریر کیا ایک ایسے مسئلہ کی جانب توجہ مبزول کروانی کی کوشش کی ہے جو ہمارے معاشرے کا ایک المیہ ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد اس نسل نے جو سیاست اور اقتدار پر قابض تھی نے ایک نعرہ بلند کیا کہ ملک میں غلامی کا دور جا چکا اب انگریزوں کے ساتھ ساتھ انگریزی بھی اس ملک سے نکال دی جانی چاہئے اور سب جاگیرداروں اور وڈیروں نے مل کر پالیمنٹ سے انگریزی کے خاتمے اور اردو کی ترویج کی نوید سنائی ۔ نتیجہ کیا نکلا ان کے اپنے بچے انہیں مہنگے اداروں میں یا ملک سے باہر پڑھتے رہے اور قوم کے بچوں کو اردو کے نام پر پسماندگی کی طرف دھکیل دیا گیا ۔سی ایس ایس کے امتحان ہوں یا قانون کی تعلیم ، آرمی ہو یا ڈاکٹری یا انجئیرنگ غرض ہر اچھا شعبی انگلش کا ہی محتاج رہا ۔اور اردو صرف بابا آیا آم لایا تک ہی محدود رہا ۔بہت افسوس ہوتا ہے چند روز ہوئے کہیں ایک انڈین چینل دیکھنے کا اتفاق ہوا ایک پروگرام میں انتہائی غریب لوگوں کی مدد کے ایک پروگرام میں ماں اور معزور بیٹے کا پروگرام میں اظہار خیال جودکھایا تعجب ہوا دونوں ہی ہندی نہیں بول سکتے تھے مگر12 سالہ بچہ انگلش سمجھتا اور بول رہا تھا ۔یہ سب اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک عوام کے اصل نمائندے قانون ساز اداروں میں صرف قوم کی نماندگی کریں نہ کہ صرف اپنے لیڈر کی غلامی کا دم بھریں ۔ قائد اعظم نے صحیح کہا تھا کہ میری جیب میں اکثر سکے کھوٹے ہیں ۔

ڈفر نے لکھا ہے کہ

او ہاں یاد آیا
بلاگرز میٹنگ کی روداد ہی نہیں پہنچی ہم تک تو

خرم نے لکھا ہے کہ

چیف جسٹس کیا مامے کا پُتر لگتا ہے کہ اب ہر کام کی گیدڑسنگھی اس کے پاس ہوگی؟ یہ معاملات کسی سرکاری ملازم کے نہیں، عوامی نمائندوں کے حل کرنے اور طے کرنے کے ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس ملازم ہے، حاکم نہیں۔ خدارا اسے حاکم نہ بنائیں۔۔۔ یہ چلن ایک اچھے بھلے ادارے کو تباہ کرچکا ہے، عدلیہ تو آگے ہی کرپشن میں لتھڑی ہوئی ہے۔ اس کا مزید کباڑا نہ کریں "مولاجٹ" بنا کر۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے

نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔