Pages

1/05/2010

کراچی والے بمقابلہ اُلو کے پھٹے!

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں تازہ تازہ وکیل بنا تھا ہمارے سینئر ہم سے وکالت کا کام کم لیتے اور متفرق کام ذیادہ!
یہ 2006 کے آخر کی بات ہے، جمشید ٹاؤن کے ناظم سے ایک طلاق نامہ کی تصدیقی سند لینی تھی ہماری ڈیوٹی لگائی گئی۔ ہم جا پہنچے اُن کے دفتر ! اُن سے تو ملاقات نہ ہوئی نائب ناظم سے ملاقات ہوگئی ہم نے اپنا مدعا بیان کیا انہوں نے بیٹھنے کو کہا، ہم اُن کے ساتھ بیٹھ گئے، اُنہوں نے اپنے پنجاب سے آئے ہوئے ایک دوست سے ملاقات کروائی کہنے لگے یہ ہمارے ساتھی بھائی ہیں فیصل آباد سے آئے ہیں وہاں قائد کے پیغام و ایم کیو ایم کی ترویج کے لئے کافی کام کر رہے ہیں ہم نے قابل ستائش نظروں سے دیکھا! یہاں یہ بتا دوں نائب ناظم صاحب نے ہم سے پوچھا آپ کا تعلق کہاں سے ہے تو ہم نے انہیں کہا تھا کہ ہم کراچی سے ہی تعلق رکھتے ہیں! پھر ہم نے دوران گفتگو اُن سے پوچھا کہ آپ کتنی تنخواہ لیتے ہے؟ جواب آیا بھائی ہم تو قائد کے حکم پر عوام کی خدمت کے لئے آئے ہیں، جواب متاثر کن تھا لہذا ہم نے سراہا! فنڈ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے اُس کے ملنے و بہتر انداز میں خرچ کرنے کا کہا۔ جواب میں ہم نے مزید کریدہ تو اُن کے الفاظ کچھ یوں تھے "ہم تو قائد کے حکم کے مطابق بلا امتیاز فنڈ خرچ کرتے ہیں صرف اپنے علاقوں میں ہی نہیں بلکہ اقلیت کا بھی بہت خیال کرتے ہیں" ہم نے اُن سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے علاقے میں ہندو یا عیسائی آبادی ہے؟ تو جواب تھا نہیں۔ اقلیت کا مطلب پوچھنے پر اُن کے الفاظ تھے " یار جو ہمارے شہر میں غیر مہاجر رہتے ہیں"۔ ہم نے اُن سے اقلیت کے ان معنوں سے آگاہ کرنے پر شکریہ ادا کیا! ورنہ ہم تو پاکستان میں صرف غیر مسلم کو ہی اقلیت سمجھ رہے تھے، یہ تقسیم و تعریف تو ذہن میں تھی ہی نہیں۔
اُس دن مجھے پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ" کراچی والا " کی تعریف پر پورا اترنے کے معیار بہت مختلف ہیں! بعد میں بھی مختلف واقعات اور ان "کراچی والوں" سے مختلف روابط میں یہ معلوم ہوا کہ بے شک آپ کی پیدائش کراچی کی ہو، آپ کی تعلیم کراچی کی ہو، آپ کے پاس کراچی کا Domicile ہو، کراچی کا پتہ آپ کے شناختی کارڈ پردرج ہو، آپ کا گھر کراچی ہو! آپ کا جینا مرنا اگرچہاس شہر میں ہو مگر آپ کراچی والے نہیں ہو سکتے!! آپ کیا ہو سکتے ہیں یہ جواب طلب سوال تھا! اب جواب مل گیا ہے،اور تازہ انکشاف سے معلوم ہوا کہ ہم "اُلو کے پٹھے" ہیں! ثبوت ذیل میں ہے۔




30 تبصرے:

میرا پاکستان نے لکھا ہے کہ

یہیں پہ آکر ایم کیو ایم مار کھا جاتی ہے وگرنہ ان کی تنظیم سازی اچھی ہے۔

محمداسد نے لکھا ہے کہ

جب اس سے زیادہ فحش القابات سے کراچی کی دیواریں رنگی جاسکتی ہیں تو پھر یہ تو فقط قول و قرار کا معاملہ ہے۔

راشد کامران نے لکھا ہے کہ

شعیب بھائی آپ ایک دوسرے معاملے کو اس انٹرویو کے ساتھ ملا رہے ہیں۔۔ ناظم کے الفاظ‌کا چناؤ بلاشبہ نہایت پست ہے لیکن جو بات وہ کررہا ہے اس پر تو کراچی میں‌رہنے والے ہر باشندے کو اس کے ساتھ ہوجانا چاہیے۔ اور اس بات کا نہایت باریک بینی سے جائزہ لینا چاہیے کہ صوبائی حکومت اپنی ناکامی کی ذمہ داری کس طرح‌شہری حکومت پر ڈالنے کی کوشش میں مصروف ہے اور سیاستدان سانحے کے بعد کس طرح‌ اپنی دکانیں چمکانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

Noumaan نے لکھا ہے کہ

راشد دراصل قصہ یہ ہے کہ جناب شعیب بھائی نے سب سے پہلے مجھے لندن پوسٹ والے آرٹیکل کا ربط بھیجا تھا۔ اور میرے خیال میں وہ اس موقف کے حامی ہیں کہ ایم کیو ایم ہی اس جلاؤ میں ملوث ہے لحاظہ وہ ناظم کراچی کے الفاظ کو پرسنلی لے رہے ہیں۔
۔

دلیل اور عقلیت پسندی کا ساتھ دیجئے صرف اپنے دل کی نہ سنیں۔

Abdullah نے لکھا ہے کہ

شعیب کہیں یہ کہانی بھی 12مئی کو گھر بیٹھے تازہ ترین صورتحال بتانے جیسی تو نہیں!:)

گمنام نے لکھا ہے کہ

ایک عجیب سی منطق یہ ہے کہ اگر آپ کے والد کا شناختی کارڈ کراچی کا نہیں تو پھر ڈومیسائل کراچی کا نہیں بن سکتا اگرچہ آپ کی پیدائش کراچی ہی کی کیوں نہ ہو۔ بیوی کا ڈومیسائل بنانے گیا تو یہی معاملہ پیش آیا۔ باقی جہاں خدمت کا تعلق ہے تو اس کا مجھے اچھا تجربہ ہے۔ میرا اٹھنا بیٹھنا ایم کیو ایم مخالف لوگوں کے ساتھ رہا ہے۔ مجھے اپنے بیٹے کا برتھ سرٹیفیکٹ بنوانا تھا۔ متعلقہ یونین کونسل ایم کیو ایم کے پاس ہے۔کونسلر صاحب نے شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اچھے طریقے سے کام کیا۔ اتنا اچھا کہ میں تمام ایم کیو ایم مخالف قوتوں کو للکار کر ایم کیو ایم کے حق میں کالم لکھنے لگا تھا۔ میں’’ الو کے پٹو‘‘ کو بتانا چاہتا تھا کہ تم ایم کیو ایم جیسی اچھی جماعت کے خلاف پروپیگنڈہ کیوں کرتے ہوں؟ میں ابھی ارٹیکل کے انٹرو کے لیے اچھے الفاظ ڈھونڈ ہی رہا تھا کہ کال آئی آپ کا برتھ سرٹیفیکٹ تیار ہوچکا ہے آجائیے ۔ میں نے سوچا پہلے ذرا سرٹیفیکٹ لے آوں پھر لکھوں گا۔ یونین کونسل کا دفتر گھر کے قریب ہی ہے۔ وہاں پہنچ کر کونسلر صاحب نے ہزار روپے کا تقاضا کردیا۔ لاحولہ و لا قوة ۔ یہ کیا مذاق ہے ۔ یہ تو بچاس روپے میں بن جاتا ہے آخرہزار روپے کیسے؟ میں سیدھا ناظم کے کمرے میں گیا ۔ انہوں نے بتایا کہ نارتھ ناظم آباد کے ٹاون ناظم نے طے کیا ہے۔ میں نے کہا میں تو نہیں دوں گا۔ اس وقت میں نے اسی طرح کا اشتعال دیکھا اور اسی طرح الو کا پٹا قرار دیا گیا جس طرح ہمارے دو نمبر(پر آنے والے) میئر صاحب نے دکھایا۔ سوچا اس سے پہلے کہ اشتعال کا نشانہ بنوں ، پیسے دے کر سرٹیفکیٹ لیا اور نکل آیا۔ اس دن مجھے پتا چلا کہ میں بھی الو کا پٹا ہوں۔

Abdullah نے لکھا ہے کہ

ایک عجیب سی منطق یہ ہے کہ اگر آپ کے والد کا شناختی کارڈ کراچی کا نہیں تو پھر ڈومیسائل کراچی کا نہیں بن سکتا اگرچہ آپ کی پیدائش کراچی ہی کی کیوں نہ ہو۔!
یہ منطق صرف کراچی میں نہیں پورے پاکستان میں رائج ہے!
رہی اس کونسلر کے رشوت لینے کی بات تو بجائے یہاں بیٹھ کر واویلا کرنے کے اپ نے اس کی رپورٹ ٹاؤن ناظم سے کیوں نہیں کی،اصل کام کرنے کے بجائے آپ نے ہزار روپے رشوت دینا آسان سمجھا تو جتنا وہ کونسلر اور نائب ناظم غلط تھا اس سے ذیادہ آپ غلط ہیں آپ جیسے لوگوں کی وجہ سے اس ملک میں رشوت کا چلن عام ہے!
جبکہ بقول آپ کے آپ ایک صحافی بھی ہیں جس میں مجھے تو شک ہی ہے مگر خیر تو آپ اس بارے میں اپنے اخبار میں بھی لکھ سکتے تھے!

Abdullah نے لکھا ہے کہ

ویسے برا مت مانیئے گا ایسی داستانں ہم اکثر سنا کرتے ہیں میرے ایک اردو اسپیکنگ ڈکٹ دوست کی شادی ایک سندھی اسپیکنگ ڈاکٹرسے ہئی جو کراچی میں رہتی ہیں ہمارے گھر ملنے آئیں تو فرمانے لگیں مانا ایم کیو ایم والوں نے کراچی میں بہت کا کیا ہے مگر یہ لوگ اچھے نہیں ہیں پوچھا وہ کیسے بولیں میرے ابا کے ایک دوست کے ایک رشتہ دار کورنگی میں رہتے ہیں انہوں نے اپنے رشتہ دار کو بتایا اور انہوں نے میرے ابا کو بتایا کے وہاں دو بھائی تھے ایم کیو ایم میں شامل تھے انہوں نے ایک اسکول کھولا تھا اور وہاں کی ایک اسکول ٹیچر کا ریپ کر کے لندن بھاگ گئے اتفق سے جس علاقے کا وہ زکر فرمارہی تھین وہاں میرے اپنے رشتہ دار عرصہ 40 سال سے قیام پزیر ہیں اور میرا ان کے یہاں بہت آنا جانا بھی ہے اور ایسی کوئی کہانی کبھی سننے میں نہیں آئی جب انسے کہا تو بولیں بھئی ہمیں کیا پتہ ہمیں ‌تو‌ہمارے‌ابا‌نے‌بتایا‌تھا
اور وہ اور انکے اباناظم اباد میں رہائش پزیر ہیں،تو یہ کہانیاں ایسے ہی بنانے والے بناتے رہیں گے مگر صرف سچ رہ جائے گا !

عنیقہ ناز نے لکھا ہے کہ

تلخابہ کے لئیے پچھلے تین سالوں میں میرے گھر سے کئ افراد باہر گئے اور امیگریشن کے سلسلے میں انہوں نے برتھ سرٹیفیکیٹ بنوائے کسی کو بھی یہ شکایت نہیں ہوئ۔ ابھی حال ہی میں میری چھوٹی بہن کا یہ سرٹیفیکیٹ کھ گیا۔ تو وہاں پہنچنے پہ انہوں نے پوری اطلاعات دیں کہ کسطرح اب اس پرانے سرٹیفیکیٹ کا ڈپلی کیٹ نہیں نکلوایا جا سکتا اور کس طرح اب ہمیں نئ رجسٹریشن کروانی ہوگی اور اسکے بعد جو اسکی فیس تھی وہ ادا کی اور کام ہو گیا۔ میری بیٹی جو ابھی تین سال کی ہے مجھے اسکا سرٹیفیکٹ بنوانے میں کسی دقت کا سامنا نہیں ہوا بلکہ میری درخواست پہ انہوں نے اسکا انگلش ٹراسلیشن کی کاپی بھی بنوا کر دی۔ اس کاپی کے انہوں نے پیسے لئیےسو روپئیے اور اسکے لئیے انہوں نے کہا کہ یہانکے آفس کی ذمہ داری نہیں ہے۔ میں اگر حسن اسکوائر جا کر یہ ترجمےاسٹیمپ پیپر پہ کراواتی تو اسکے بھی کم ازکم اتنے ہی پیسے لگتے۔
یہ انکا ذاتی تجربہ ہو سکتا ہے۔ اسے تمام لوگوں پہ نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ خیال رہے کہ میں یا مجھ سے منسلکہ تمام لوگ ایسی جگہوں پہ اپنی ذاتی حیثیت میں ہی گئے اور عوامی چریقے سے ہی اپنے کام کروائے ہیں۔
شعیب صفدر صاحب کی ڈومیسائل والی بات پہ انکی معلومات میں اضآفہ کرتے ہوئے کہونگی کہ یہاں کراچی میں بے شمار لوگ ایسے ہیں جن کے پاس دو دو ڈومیسائل ہوتے تھے ایک انکی یا انکے والدین کی جنم بھومی اور دوسرا کراچی۔ جبکہ کراچی میں پیدا ہونے اور کراچی سے باہر کوئ تعلق نہ ہونے کی بناء پہ مجھ سمیت بے شمار کراچی والے ان دو ڈومیسائلز کے ظلم کا شکار ہوئے۔
صرف کراچی کا ڈومیسائل رکھنا تو کبھی بھی کوئ قابل ستائش بات نہیں سمجھا گیا۔
آپ اپنے آپکو علیحدہ کرنے کی بات کرتے ہیں میں بھی اسی شہر میں رہتی ہوں اور یہاں کے معروف تعلیم اداروں سے لیکر پیشہ ورانہ اداروں تک میری بھی پہنچ ہے اور اس بات کو اس تناظر میں دیکھا جانا کیسا لگتا ہے کہ آپ یہاں اس شہر میں شامل نہیں ہوتے۔ اگر آپکی گلی میں کوڑے کا ڈھیر ہو تو آپ اسے ہٹوانے کے سلسلے میں کبھی بھاگ دوڑ نہیں کریں گے۔ اگر آپکی گلی کے درمیان سے نالہ گذر رہا ہو تو آپ کو شاذ ہی اسکا خیال آئے گا کہ گلی کے اس نالے پہ پل بنوانے کے لئیے دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر پل بنانے کی کوشش کی جائے۔ آپ نے کبھی سیاسی معاملات سے ہٹ کر اس چیز کی کوشش کی وہ کہ شہر میں اسکولوں کا بہتر نظام آئے، مضافاتی علاقوں کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئیے آپ کیا کر سکتے ہیں۔ اپنی گلی کی ٹوٹی سڑک کے بارے میں متعلقہ دفاتر کو اطلاع یا کوئ درخواست، ، گلی میں پول کا بلب خراب ہونے کی شکایت۔ محلے میں بچوں کے کحیل کے میدان کی حالت زار درست کرنے کی کوشش۔ زیادہ تر حالات میں رویہ یہ ہوتا ہے کہ ہمیں کون سا اس شہر میں رہنا ہے ہمیشہ۔ جو ہم اس چکر میں پڑیں۔ ہم تو یہاں صرف روزی روزگار کے سلسلے میں ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ پاکستانی غیر ممالک میں جا کر صرف اپنے روزی روزگار کے بارے میں سوچیں۔۔
اب اگر اخبار اٹھا کر دیکھیں تو یہ نک چڑھے بڑے میاں کاواس جی ، جو کسی کو خاطر میں نہیں لاتے اور پارسی ہیں یہ جس تندھی سے شہر کی بہتری کے لئیے سوچتے نظر آتے ہیں اسکا مقابلہ آپ اپنے آپ سے کریں۔ عبدالستار ایدھی میمن ہیں، چھیپا والے میمن ہیں۔ ابھی آپ اورنگی ٹاءون جیسے علاقوں کی طرف نکل جائیں اسکا پائیلٹ پروگرام بنانےوالے ایک اردو اسپیکنگ صاحب تھے۔ شہر میں اور بھی تنظیمیں کام کر رہی ہیں آپ اپنے بارے میں صرف یہ بتائیں کہ آپ شہری سطح پہ کیا کر رہے ہیں اور اسے کرنے کے سلسلے میں آپکو شہری حکومت کیا کام نہیں کرنے دے رہی ہے۔
شہر اسی کا ہے جو اسے بہتر بنا چاہتا ہے اور اسکے لئیے کام کرتا ہے جو یہ سوچتےہے کہ ہم یہاں پہ موجود بنیادی حقائق کے ساتھ کیا کر سکتے ہیں یہ کوئ ہمارا مسئلہ ہے۔ یہ خاصہ عجیب رویہ ہے کہ آپ جہاں رہتے ہیں اور جن لوگوں کے ساتھ آباد ہیں انہیں اپنے سے مختلف سمجھ کر ہر وقت اپنے طعنوں کی زد میں رکھیں۔ اور پھر یہ کہیں کہ ہمیں الگ سمجھا جاتا ہے۔

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے کہ

یہ بیان سو فصد غلط ہے کہ اگر درخواست دہندہ کے باپ کا شناختی کارڈ اُس شہر کا نہ ہو جس میں درخواست دہندہ پیدا ہوا تھا پورے پاکستان میں ڈومیسائل نہیں ملتا ۔ اصل شرائط صرف یہ ہیں ۔ اول کہ درخواست دہندہ کے نام یا اُس کے باپ کے نام اس شہر میں مکان ہو جس میں وہ رہتا ہو ۔ یا اس کی پیدائش اس شہر کی ہو اور پیدائش کے بعد سے وہ اُس شہر میں رہ رہا ہوں ۔ اگر پیۓدائش اس جگہ کی نہ ہو اور اپنا مکان بھی نہ ہو تو اس شہر میں مستقل رہائش کا سرٹیفیکیٹ مہیا کرے

جو لوگ ہیں ہی ایم کیو ایم کے پروانے اُن کو فٹا فٹ ڈومیسائل کراچی کا نہیں ملے گا تو اور کسے ملے گا

باقی لوگوں کو چھوڑیئے ۔ بلاگر حضرات کو ہی دیکھ لیجئے کہ اُن کی بات سے اختلاف کیا جائے تو منافق ۔ جاہل ۔ جھوٹا کے القاب داغ دیتے ہیں اور اس سے بھی بڑھنے میں کوئی پس و پیش نہیں ہوتا

asma paris نے لکھا ہے کہ

ايک دفعہ کا ذکر ہے کہ بندی نے راولپنڈی سے برتھ سرٹيفکيٹ بنوايا آفس والوں نے ابو کو چکر پر چکر لگوائے لين دين کے بعد بھی پھر کہا گيا بندی خود حاضر ہو اور ساتھ اسکو پيدا کرنے والی اماں بھي،ساتھ جمع کرانے کے ليے کاغذات کی ايک لسٹ مانگی گی جن ميں سے پيشتر غير ضروری تھے جب بندی بمعہ والدين حاضر ہوئُی تو جناب فرمانے لگے کس ليے برتھ سرٹيفکيٹ چائيے ميرا اتنا کہنا تھا کہ فرانس جانے کے ليے تو جناب نے کہا پہلے فرانس والے سارے کاغذات بھی مہيا کريں دن کم تھے امی نے اسکی منتيں شروع کيں تو کہنے لگا ميں صرف يہ سب اسليے مانگتا ہوں تاکہ والدين کو پتہ چلے اولاد کے ليے کتنا ذليل ہونا پڑتا ہے يعنی کے جناب زلالت کا امتحان پاس کروا رہے تھے برتھ سرٹيفکيٹ اشو کرنے سے پہلے؛ جس ملک کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہو وہاں کراچی والوں کی ميخ منج نکالتے رہنا تو نرا تعصب ہی ہے

محمداسد نے لکھا ہے کہ

@راشد کامران
باریک بینی سے غور کریں گے تو یہ بھی واضح ہوجائے گا کہ صوبائی حکومت کی طرح شہری حکومت بھی اپنی کوتاہیوں سے نظریں چرانے میں مصروف ہے۔

حالیہ واقعہ کی تحقیق اور اس کے ذمہ داروں کو سزا دینا کراچی کے ہر شہری کا مطالبہ ہے۔ لیکن اس طرح کے گندے لفظوں میں اپنے نظریاتی مخالفوں کو کبھی کسے نے مخاطب نہیں کیا۔

Abdullah نے لکھا ہے کہ

اسماء اللہ اپکو خوش رکھے لوگوں کو آئینہ دکھانے کے لیئے!:)
افتخار اجمل بہت دیکھے ہوں گے مگر آپ جیسا۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہیں نہ دیکھا!

Abdullah نے لکھا ہے کہ

اسد یہاں مسئلہ نظریاتی مخالفین کا نہیں بلکہ کراچی کے اور پاکستان کے دشمنوں کا ہے !

Noumaan نے لکھا ہے کہ

اسما آپ نے جو واقعہ بیان کیا ہے وہ اس لئے قابل غور نہیں کیونکہ وہ روالپنڈی میں پیش آیا ہے۔ پاکستان کے اس صوبے میں سب لوگ فرشتہ رہتے ہیں اور ان کے سب کام اور طریقے درست اور تنقید سے بالاتر ہوتے ہیں۔ ہاں اگر یہی واقعہ کراچی میں پیش آیا ہوتا اور متعلقہ اہلکار ایم کیو ایم سے وابستہ ہوتا تو کیا کہنے ابھی ان کی ملامت کی جاتی اور ان کے طرز عمل کو تمام اہل کراچی کے طرز عمل کی عمدہ مثال بنا کر پیش کیا جاتا۔

Farhan Danish نے لکھا ہے کہ

مصطفی کمال جیسا شخص پہلی بار پاکستان کو ملا ہے اس نے واقعی شاندار کام کئے ہیں ایم کیوایم کے دشمن بھی مصطفی کمال کو دعائیں دیتےنہیں تھکتے۔ مصطفی کمال پر بلاوجہ الزام تراشی کی جاتی ہے۔ جو کبھی ناقابل برداشت بھی ہوجاتی ہے۔اور اس پرمصطفی کمال کاغصہ ہونا ایک فطری عمل ہے۔ اللہ پورے پاکستان کو مصطفی کمال جیسا محنتی اور مخلص کردے تو اس ملک کا مستقبل شاندار ہوگا انشاءاللہ

راشد کامران نے لکھا ہے کہ

اسد صاحب۔۔ مصطفی کمال اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتا یہ اس کی بہت بڑی کمزوری ہے اور اس بارے کئی بار بات ہوئی ہے بلکہ ایک اچھے منتظم کی حیثیت سے اس کے آگے بڑھنے میں یہ بات ایک رکاوٹ رہے گی۔۔۔

اب سوال آتا ہے گندے الفاظ کا۔۔ "کراچی کے عوام الو کے پٹھے ہیں" ۔۔ یہ اچانک ہمارے بلند اخلاق کے لیے بہت گرا ہوا جملہ ہے۔ یا "میں لعنت بھیجتا ہوں تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں پر"۔۔ یہ ہماری قوم کے اخلاقی میعار سے کہیں بہت ادنی درجے کی بات ہے؟ کم از کم اس ویڈیو میں تو اس نے سیاسی مخالفین پارٹی لیڈروں پر لعنت بھیجنے کے علاوہ کچھ نہیں‌کیا؟‌ پست جملے ہیں لیکن رد عمل ان دو الفاظ سے کہیں زیادہ کسی اور جذبے کی نشاندہی کرتا

کچھ لوگوں کو آج ڈومیسائل کے معاملات یاد آئے ہیں۔۔ ان کے لیے عرض ہے کہ اس سادگی پہ کون نا مرجائے اے خدا۔۔ بلکہ ڈومیسائل اور پی آر سی بھی کہیے تو کراچی کے شہریوں اور بلیک واٹر کی ملی بھگت ہی ہوئی تاکہ دوسرے شہروں کے رہائشی کراچی کے تعلیمی ادراوں جیسے جامعہ این ای ڈی میں داخلہ نا حاصل کرلیں۔

Osaid نے لکھا ہے کہ

آخر کے تین چار تبصرے پڑھنے کے بعد بندہ کیا کمنٹ کرے۔۔ ؟
ویسے میرا تو یہ خیال ہے کہ محض قومیت کی بنا پر کسی پڑھے لکھے شخص کو کسی خاص گروہ یا جماعت کی حمایت نہیں کرنی چاہئے۔۔ ۔
کیونکہ جہاں صحیح معنوں میں تعلیم ہوتی ہے وہاں قومیت اور لسانیت کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔۔ ۔
کاش اللہ پاکستان کے پڑھے لکھوں کو سندھی، پنجابی، مہاجر کے کھیل سے نجات عطا فرمائے۔۔ ۔

Abdullah نے لکھا ہے کہ

اسیدقومیت کی بناء پر؟ تو اسماء کو بھی آپ اردو اسپیکنگ یا کراچی والا ہی سمجھ رہے ہیں چہ خوب! بھائی جی وہ پنجاب کے بھٹی خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک تعصب سے پاک خاتوں ہیں جو چیزوں کو اسی تناظر میں دیکھتی ہیں جس میں وہ در حقیقت ہوتی ہیں، آپ جیسوں کی طرح ان کی آنکھوں پر تعصب کا چشمہ نہیں چڑھا ہوا ہے اللہ کے فضل و کرم سے!
اور نعمان کا تعلق بھی دہلی کے پنجابی سوداگران سے ہے!

Shoiab Safdar Ghumman نے لکھا ہے کہ

ہمارے ایک دوست ہیں وہ اپنی بات کے آخر میں اکثر کہتے ہیں "آپ میں سے وہ لوگ میری بات کااعتبار کریں گے جو سچ بولنے کے عادی ہیں" اُن کے اس جملے کے پیچھے کیا سائنس ہے آپ سمجھتے ہوں گے۔
درج بالا قصہ سچ ہے یا جھوٹ اس پر کوئی دلیل نہیں نہیں دوں گا!
جلاؤ گھراؤ کس نے کیا میں اس پر اپنی رائے محفوظ رکھتا ہوں! جو دل کی بات کی بنیاد پر نہیں تحقیق کی بیاد پر ہے۔لنک کا حوالہ دیا تھا کیونکہ نعمان آپ نے سوال ہی ایسا کیا تھا!
ڈومیسل یا پی آر سی کا جھگڑا نہیں ہے اصل جھگڑا اُس تعصب کا ہے جو ہم میں ہے! ہم اس ہی کی بیاد پر دوسرے کے اچھے کام کو برا کہتے ہیں اور برے کا کو درست بتانے کے لئے بہانے تاشتے ہیں! اور کوئی نشاندھی کریں تو اُسے بُرا بھلا کہتے ہیں!
یہ تصب جو ہمیں تباہ کریں گا! کسی علاقے تم مخصوص نہیں ہے! کسی خاس طبقے یا زبان والے تک مخصوص نہیں ہے مختلف شکلوں میں ہم میں ہی ہے! آپ اسے ایس ایم ایس و لطیفوں کی شکل میں، مخصوص لسانی جملوں و فقروں میں اپنے اردگرد پائے گے!
آپ انکاری ہو یا مانے مگر اوپر کے چند تبصروں میں یہ تعصب نفرت کی شکل اپناتا نظر آتا ہے!
اختلاف کو نفرت اور زبان کو وجہ تقسیم بنانے کی لاشعوری حرکت کو آپ جیسے پڑھے لکھےرد نہیں کریں گے تو پھر کسی اور کو قصوار کیوں کہا جائے؟

Shoiab Safdar Ghumman نے لکھا ہے کہ

عبداللہ مجھے آپ کا ای میل ایڈریس چاہئے!
یا آپ مجھے ایم ایس این پر ایڈ کر لیں!۔
ملاقات ممکن ہو تو ذیادہ اچھا ہے!

Osaid نے لکھا ہے کہ

میرے واقف کاروں میں جتنے ایم کیو ایم کے کارکنان ہیں ان سے اگر اس میں شمولیت کی وجہ پوچھی جائے تو وہ اپنا مہاجر ہونا بتاتے ہیں۔۔ ۔
یہی حال ایک پیپلز پارٹی کے ایک سندھی یا بلوچ کارکن کا ہے، پنجاب میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں اور اے این پی تو خیر سے ہے ہی لسانیت کا نام۔۔ ۔

Abdullah نے لکھا ہے کہ

اسید جہاں تک قومیت کی بناء پرمختلف سیاسی پارٹیوں میں شمولیت کی بات ہے تو جہاں صوبے لسانی بنیادوں پر بنائے جاتے ہوں وہاں ایسا ہی ہوا کرتا ہے!
ویسےآپ اگر ایم کیو ایم میں شامل بے شمار غیر مہاجروں سے بھی ان کے ایم کیو ایم میں شامل ہونے کی وجہ پوچھ لیتے تو بات سمجھنے میں آپکو زیادہ آسانی رہتی!
شعیب ملاقات تو اس وقت ناممکن ہے کیونکہ میں پاکستان مین نہیں ہوں اور شائد ایک لمبے عرصے تک موجود نہ ہوں البتہ ای میل ایڈریس آپکو بلکل دیا جاسکتا ہے !حالانکہ میرے ایک دوست کہہ رہے تھے کہ ہرگز نہ دینا آجکل ایم کیو ایم کے کارکنان کے ساتھ ساتھ ان کے ہمدردوں کی بھی ٹارگٹ کلنگ جاری ہے اور ایجینسیوں کے کارندے ایسے لوگوں کی بو سونگھتے پھر رہے ہیں!مگر مینے اسے کہا کہ میرا ایمان ہے کہ جب تک میرا وقت نہیں آیا کوئی میرا بال بھی بانکا نہیں کرسکتا اور ویسے بھی شعیب صاحب خود قانون اور انصاف کے ادارے سے تعلق رکھتے ہیں!:)
میں آپکو اپنا ای میل "تازہ تحریر بزریعہ ای میل حاصل کریں" کے ذریعے بھیج رہا ہوں!

Shoiab Safdar Ghumman نے لکھا ہے کہ

عبداللہ شکریہ ای میل ایڈریس کا!
جناب بے فکر ہو جائے ہم ٹارگٹ کلنگ والے نہیں! اور اس میں ایم کیو ایم کا کارکنان و ہمدرد شامل ہیں یا نہیں مگر ہم نے اپنے تین دوست اس ایک ہفتہ میں ضرور گنوائے ہیں! اس ٹارگٹ کلنگ میں جو ایم کیو ایم کے نہ کارکنان تھے نہ ہمدرد!۔
اور ایک زخمی ہے وہ اپنے حملہ آروں سے واقف ہے!۔

Noumaan نے لکھا ہے کہ

یہ تصب جو ہمیں تباہ کریں گا! کسی علاقے تم مخصوص نہیں ہے! کسی خاس طبقے یا زبان والے تک مخصوص نہیں ہے مختلف شکلوں میں ہم میں ہی ہے! آپ اسے ایس ایم ایس و لطیفوں کی شکل میں، مخصوص لسانی جملوں و فقروں میں اپنے اردگرد پائے گے!

میرے بھائی۔ اس تعصب کی ہزار مثالیں میں آپ کو پنجاب سے پیش کرسکتا ہوں۔ مگر میں نے انہیں جتنی دفعہ بھی پنجاب گیا قابل توجہ نہ سمجھا۔ اگر یہ لسانی عصبیت ملکی برائی ہے تو نشانہ صرف ایم کیو ایم کیوں ہے؟ آپ نے ملک کے معاشرے میں پھیلی لسانی تفریق تک اشارہ نہیں کیا۔ بلکہ آپ کی پوسٹ صرف ایم کیو ایم کی لسانی تفریق کا ذکر کرتی ہے۔ آپ سب کی بات کریں گے تو سب کی بات ہوگی نا۔ آپ ایک تنظیم کی
بات کریں گے تو یہ لسانی تعصب ضرور زیر بحث آئے گا۔

اچھا ہوتا اگر آپ اپنی پوسٹ کے آخر میں یہ جملہ بھی لکھ دیتے جو آپ نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے۔

یہ تصب جو ہمیں تباہ کریں گا! کسی علاقے تم مخصوص نہیں ہے! کسی خاس طبقے یا زبان والے تک مخصوص نہیں ہے

Abdullah نے لکھا ہے کہ

شعیب مجھے بے حد افسوس ہوا آپکے ساتھیوں کے ٹارگٹ کلنگ میں مارے جانے کا!اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور جو ساتھی ذخمی ہیں انہیں شفائے کاملہ اور عاجلہ عطا فرمائے!ار جو اس ملک اس شہر اور اسکے رہنے الون کے دشمن ہین انہین غارت کرے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم ایک قوم بن کر رہسکیں اور خود اپنے دشمن بننے کا رویہ ترک کردیں!آمین، اپنے نادیدہ دشمن سے نمٹنے کا بس یہی ایک طریقہ ہے!
جنگ کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں 69 ایم کیو ایم کے کارکن اور 60 حقیقی کے اور اسی طرح اے این پی اور پی پی پی کے بھی 30 سے اوپرکارکنان رواں ماہ میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن چکے ہیں!
آج کا حامد میر کا کالم چیخ چیخ کر اس بات کو واضح کررہا ہے کہ کون ہے وہ خفیہ ہاتھ جو پاکستان میں عموما اور کراچی میں خصوصا حکومتوں کو کمزور کرنے کے لیئے اس طرح کی گھناؤنی قتل وغارت گری کرتا رہا ہے اور جس کے سامنے حکومت ہمیشہ بے بس رہی ہے ان خفیہ اداروں میں موجود لوگوں میں سے 90 فیصدکا تعلق پنجاب سے ہے بلکل اسی طرح جس طرح ایل پی جی گیس میں عوام کی بوٹیاں نوچنے والوں کی اکثریت کا تعلق پنجاب سے ہے کیا پنجاب کے غیرت مند اور محب وطن عوام اب بھی صوبہ پرستی میں پڑ کر ان وطن دشمنوں کی طرف سے آنکھیں بند کیئے رہیں گے؟

Abdullah نے لکھا ہے کہ

http://ejang.jang.com.pk/1-7-2010/pic.asp?picname=07_07.gif
we have to fight back!

usman Qurashi نے لکھا ہے کہ

wha bhi yahni kay asal qasoor punjabio ka hai!!!
kia Abdullah kar de na MQM wali harkat.

Abdullah نے لکھا ہے کہ

عثمان قریشی یہ میں نہیں کہہ رہا خود پنجابی کہہ رہے ہیں!

Abdullah نے لکھا ہے کہ

http://ejang.jang.com.pk/1-7-2010/pic.asp?picname=08_01.gif
حامد میر کا کالم تو پڑھ لیا ہوگا اب نذیرناجی کا کالم بھی پڑھ لیں!

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے

نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔