کراچی میں محرم کے مرکزی جلوس میں بم دھماکا ہو گیا! شہیدوں کی گنتی چار پانچ سے شروع ہو کر اب تک چالیس کے قریب تک پہنچ چکی ہے اور زخمی بھی ستر کے قریب ہیں!
اس عاشورہ کے جلوس میں شامل دوست کا فون آیا پہلے تو اُس نے مجھے گالیاں دی کہ خبیث میرا خیال تھا کہ تو میری خیریت کا پوچھے گا مگر تو بھی لعنتی ہے! پھر سے آگاہ کیا! اُس کا فون ختم ہونے کت بعد ہم نے دیگر دوستوں کو فون کر کے اُس کی خیریت دریافت کی سب اللہ کے کرم سے ٹھیک تھے، مگر چند ایک کے قریبی اس میں زخمی ہوئے تھے۔
ملک میں دہشت گردی کی ایک خاص لہر جاری ہے چند ایک مخصوص وجوہات کی بنا ء پر میں یہ سمجھتا تھا (اور اب بھی قائم ہوں) کراچی اس دہشت گردی کی لہر کا شکار نہیں ہو گا! مگر بہر حال کل کا المناک حملہ ہوا ہے، یہ کتنا خود کش تھا اور کتنا ہم نے خود بنا دیا ہمارے سامنے ہے! قوم متحد ہو تو کوئی لاکھ چاہئے اُسے مات نہیں دے سکتا مگر جب وہ ہجوم بن جائے تو کوئی بھی رہنما اس کی رہنمائی نہیں کرسکتا!
متحد قوموں کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ اپنے اندر موجود شرپسندوں کو خود قابو کر لیتی ہیں! مگر دوسری صورت میں شر پسند ہجوموں کو منتشر کر لیتے ہیں! اور تباہی کا سبب بنتے ہیں! بم حملے کے بعد کل بھی کچھ ایسا ہی ہوا!
واقف حال بتاتے ہیں کہ کل دوکانوں کو جلانے کا انداز بہت پیشہ ورانہ تھا اس میں اشتعال کا عنصر نظر نہیں آتا تھا دوکانوں کو جلانے کے لئے Potassium کا استعمال ہوا ہے نیز جلانے سے قبل اُس دوکانوں و دو بینکوں کو لوٹ لیا گیا تھا، مظلوم کربلا کے ماتم کرنے والوں نے ابتدا میں ان شرپسندوں کو روکا مگر بعد میں وہ پسپا ہوگئے۔
قریب ڈھائی ہزار دوکانیں جل کر خاکستر ہو گئی ایک مکمل معاشی بازار ختم ہوا! پہلے حملے میں اگر چالیس شہید ہوئے تھے تو رد عمل میں کتنے زندہ لاشیں بن چکے ہو گے؟ اگر اول دھماکے میں ستر زخمی ہوئے تھے تو ہجوم نے بعد میں کتنے خاندانوں کو معاشی طور پر لہو لہان کیا؟
اگر ایک دوکان ایک خاندان کی روزی کا سبب تھی تو بھی ڈھائی ہزار خاندان تو معاشی طور پر تباہ ہو گئے! صبح دوکاندار اپنی اپنی دوکانوں کے باہر اپنی تباہی پرآنسو بہا رہے رہے تھے!
ڈھائی ہزار دوکانیں اور پچس ارب کا نقصان خود اپنے ہاتھوں سے!
کوئی ہمارا دشمن کیوں نہ ہو جب ہم خود اپنے دشمن ہیں؟
ہم سے بڑا دہشت گرد اور کون ہو گا؟
اس عاشورہ کے جلوس میں شامل دوست کا فون آیا پہلے تو اُس نے مجھے گالیاں دی کہ خبیث میرا خیال تھا کہ تو میری خیریت کا پوچھے گا مگر تو بھی لعنتی ہے! پھر سے آگاہ کیا! اُس کا فون ختم ہونے کت بعد ہم نے دیگر دوستوں کو فون کر کے اُس کی خیریت دریافت کی سب اللہ کے کرم سے ٹھیک تھے، مگر چند ایک کے قریبی اس میں زخمی ہوئے تھے۔
ملک میں دہشت گردی کی ایک خاص لہر جاری ہے چند ایک مخصوص وجوہات کی بنا ء پر میں یہ سمجھتا تھا (اور اب بھی قائم ہوں) کراچی اس دہشت گردی کی لہر کا شکار نہیں ہو گا! مگر بہر حال کل کا المناک حملہ ہوا ہے، یہ کتنا خود کش تھا اور کتنا ہم نے خود بنا دیا ہمارے سامنے ہے! قوم متحد ہو تو کوئی لاکھ چاہئے اُسے مات نہیں دے سکتا مگر جب وہ ہجوم بن جائے تو کوئی بھی رہنما اس کی رہنمائی نہیں کرسکتا!
متحد قوموں کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ اپنے اندر موجود شرپسندوں کو خود قابو کر لیتی ہیں! مگر دوسری صورت میں شر پسند ہجوموں کو منتشر کر لیتے ہیں! اور تباہی کا سبب بنتے ہیں! بم حملے کے بعد کل بھی کچھ ایسا ہی ہوا!
واقف حال بتاتے ہیں کہ کل دوکانوں کو جلانے کا انداز بہت پیشہ ورانہ تھا اس میں اشتعال کا عنصر نظر نہیں آتا تھا دوکانوں کو جلانے کے لئے Potassium کا استعمال ہوا ہے نیز جلانے سے قبل اُس دوکانوں و دو بینکوں کو لوٹ لیا گیا تھا، مظلوم کربلا کے ماتم کرنے والوں نے ابتدا میں ان شرپسندوں کو روکا مگر بعد میں وہ پسپا ہوگئے۔
قریب ڈھائی ہزار دوکانیں جل کر خاکستر ہو گئی ایک مکمل معاشی بازار ختم ہوا! پہلے حملے میں اگر چالیس شہید ہوئے تھے تو رد عمل میں کتنے زندہ لاشیں بن چکے ہو گے؟ اگر اول دھماکے میں ستر زخمی ہوئے تھے تو ہجوم نے بعد میں کتنے خاندانوں کو معاشی طور پر لہو لہان کیا؟
اگر ایک دوکان ایک خاندان کی روزی کا سبب تھی تو بھی ڈھائی ہزار خاندان تو معاشی طور پر تباہ ہو گئے! صبح دوکاندار اپنی اپنی دوکانوں کے باہر اپنی تباہی پرآنسو بہا رہے رہے تھے!
ڈھائی ہزار دوکانیں اور پچس ارب کا نقصان خود اپنے ہاتھوں سے!
کوئی ہمارا دشمن کیوں نہ ہو جب ہم خود اپنے دشمن ہیں؟
ہم سے بڑا دہشت گرد اور کون ہو گا؟
10 تبصرے:
خود ہو جو دُشمن اپنا اُس کا دُشمن آسماں کیوں ہو ؟
مرنے والا کون تھا!!!
کوئی اور نہیں وہ میں ہی تھا
وہ تم ہی تھے
وہ ہم ہی تھے
شاید ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اسی لئے تو اب احساس نہیں
کوئی امید نہیں کوئی آس نہیں
ہم سب مر چکے ہیں
شاید نہیں
یقیناَ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہم سے کوئی آس نہ رکھو
ہم سے کوئی آس نہ رکھو
مت پوچھو کہ کون مرا ۔ ۔ ۔
کہ مرنے والا کوئی اور نہیں
وہ میں ہی تھا
وہ تم ہی تھے
وہ ہم ہی تھے ۔ ۔ ۔ ۔
ھمارا بال بال قرض میں جکڑا ھوا ھے چند ڈالر کے لیے اپنی آنے والی نسلوں کو گروی رکھا ھوا ھے اور اربوں روپوں کی عمارات جل گئ ڈھائ ھزار خاندان معاشی طور پہ تباہ ھوگئے دو دن کے پہلے کے واقعات سے اندازہ ھو جانا چاھیے تھا سیکڑوں کے ھجوم کو کیسے قابو کرنا ھے کتنی سیکورٹی ھونی چاھیے - نہ سیکورٹی کا
مناسب انتظام تھا - آگ بجھانے کا بھی کوئ انتظام نہیں تھا لوگ اپنی زندگی بھر کی کمائ کو جلتا دیکھتے رھے
متفق
یہاں یہ بات ماننی پڑے گی کے حکومتی مشنینری حادثہ سے نمٹنے میں ناکام رہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گرد حملہ آوروں کے پاس جتنا منظم نظام تھا، اتنا ہماری حکومت کے پاس ہے ہی نہیں۔ گویا دہشتگرد حکومت سے زیادہ منظم ہیں۔
یہ وقت صبر اور تحمل کے مظاہرے کا ہے، اگر ہم نے رد عمل میں املاک کو نقصان پہنچایا تو ہم بھی امن تباہ کرنے والوں کی سازش کا حصہ بن جائیں گے۔ دہشت گرد بہت عرصے سے کوشش میں تھے کہ کراچی کے امن کو کسی طرح تباہ کیا جائے آج وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہو ئے ہیں جسے ہم پر امن رہ کر ناکام بنا سکتے ہیں۔
تبصرہ نگار نے نام نہیں ظاہر کیا اس لئے تبصرہ مٹا دیا گیا ہے اصلی نام کے ساتھ دوبارہ تبصرہ کر لیں! ورنہ کوئی مسئلہ نہیں ہے!
"اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے
اسلامی تماشہ جاری ہے!
آپ کو اور آپکے اہل خانہ کو نيا سال مبارک
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔