Pages

11/28/2006

یہاں ہر چیز بکتی ہے

جوانی، حسن، غمزے، عہد، پیماں، قہقہے، نغمے
رسیلے ہونٹ، شرمیلی نگائیں، مرمریں باہیں
یہاں ہر چیز بکتی ہے
خریدارو! بتاؤ کیا خریدو گے
بھرے بازو، گٹھیلے جسم، چوڑے آہنی سینے
بلکتے پیٹ، روتی غیرتیں، سہمی ہوئی آہیں
یہاں ہر چیز بکتی ہے

خریدارو! بتاؤ کیا خریدو گے
زبانیں، دل، ارادے، فیصلے، جانبازیاں، نعرے
یہ آئے دن کے ہنگامے، یہ نگا رنگ تقریریں
یہاں ہر چیز بکتی ہے
خریدارو! بتاؤ کیا خریدو گے
صحافت، شاعری، تنقید، علم و فن، کتب خانے
قلم کے معجزے، فکر و نظر کی شوخ تصویریں
یہاں ہر چیز بکتی ہے
خریدارو! بتاؤ کیا خریدو گے
اذانیں، سنکھ، حجرے، پاٹھ شالے، داڑھیاں، قسقے
یہ لمبی لمبی تسبیحیں، یہ موٹی موٹی مالائیں
یہاں ہر چیز بکتی ہے
خریدارو! بتاؤ کیا خریدو گے
علی الاعلان ہوتے ہیں یہاں سودے ضمیروں کے
یہ وہ بازار ہے جس میں فرشتے آ کے بک جائیں
یہاں ہر چیز بکتی ہے
خریدارو! بتاؤ کیا خریدو گے

قتیل شفائی

11/22/2006

رپورٹیں

ہم پاکستانیوں کا جن چند نئے الفاظ سے واسطہ پڑا ہے ان میں ایک لفظ ہے تھینک ٹینک!!!! یہ بھی وہاں ہی پائے جاتے ہیں!!!! جہاں کی فوج نہ صرف اپنے ٹینک بلکہ دیگر جنگی ساز و سامان لے کر مسلم دنیا پر چڑھ دو ڑے ہیں!!!!! ان تھینک ٹینکوں کے مالی معاونت خود امریکہ کرتا ہے اس میں کوئی شک شبہ نہیں!!! کہ ہے؟؟؟ یہ مالی مدد ذیادہ تر تعاون کی شکل میں کسی تیسرے کے ذریعے یا راستے سے کی جاتی ہے!!! کبھی براہ راست نہیں ہوتی!!!! رینڈ کارپوریشن بھی ایک ایسا ہی تھیک ٹینک ہے!! پچھلے دونوں اس کی دو ریسرچ رپورٹیں پڑھی!!! ایک “عوامی جمہوری اسلام - شراکت دار، ذرایعے اور تدابیر“ اور دوسری “نظریات کی جنگ“!!!!!

پہلی رپورٹ جسے شیرل بینرڈ نے نے مرتب کیا، اسے مرتب کرنے میں نیشنل سیکورٹی ریسرچ ڈویژن نے تعاون کیا!!! “دی سمتھ رچرڈ فانڈیشن“ نے اسے اسپانسر کیا!!! اور اس کی تیاری کے سلسلے میں مرتب کنندہ نے دیگر آٹھ افراد کا شکریہ ادا کیا ہے!!! تین ابواب میں مشتمل ہے یہ!!!! ریسرچ رپورٹ ابتدائیہ ، رپورٹ کا ایک مختصر خلاصہ، استعمال ہونے والے ایسے الفاظ جو ان کے مطابق نئے ہیں کے معنٰی!!! اور پھر رپورٹ ہے!!!!

رپورٹ کے پہلے باب میں ان معاملات کو دیکھا گیا یا اکٹھا کیا گیا ہے جن کے متعلق ان کا خیال ہے کہ ان معاملات میں ہمارا ان سے اختلاف ہے!!! یہاں یہ وضاحت بھی کر دوں کہ ساتھ ہی ساتھ مسلم دنیا کو نظریات کی بنیاد پر چار گروہوں میں تقسیم کر کے ان کا مطالعہ کیا گیا ہے!! ایک بنیاد پرست (جس سے وہ خوف کھاتے ہیں!!! پیٹ بھر کر)، دوسرے “روایت پرست“، تیسرے “جدت پسند“ اور چوتھے “سیکولرز“!!! پھر ان گروہوں کو مزید دو دو حصوں میں رکھا ہے!!! اختلافی معاملات کی فہرست میں “جمہوریت اور انسانی حقوق“، “کثرت ازواج“، “جرائم کی سزا اور اسلامی نظام انصاف“، “اقلیتی آبادی“، “جہاد““۔ “خواتین سے متعلق عمومی قوانین( جیسے لباس، شوہر کا ان پر ہاتھ اٹھانا اور ان کی آزادی“ جیسے معاملات سے متعلق ان مسلمان گروہوں (ان کی تقسیم کے مطابق) کے خیالات ان خاص وجوہات یا دلائل (اسلامی نقطہ نظر سے) کی روشنی میں جو یہ گروہوں رکھتے ہیں درج کئے ہیں۔

دوسرے باب میں انہوں نے مسلمانوں کے ان گروہوں (اپنے طور پر جنہیں انہوں نے نظریاتی اور فکری طور پرتقسیم کیا ہے) کا مطالعہ کیا!!! اس میں “سیکولرز“ کو انہوں نے اپنا فطری ساتھی قرار دیا ہے، ان کی رائے ہے کہ ان کی ایک ہی کمزوری ہے کہ یہ لوگ مالی طور پر کمزور ہیں لہذا ان کی مدد کی جائے!!! اس کے علاوہ یہ ہی لوگ بنیاد پرستی (شائد اس سے مراد راسخ العقیدہ لوگ ہے) کے خاتمہ میں مدد ملے گی لہذا ان کے افکار کو فروغ کرنے میں ان کی مدد و تعاون کی جائے ہر سطح پر!!! جہاں تک بنیاد پرستوں کا تعلق ہے تو وہ ان کے نزدیک جدید جمہوریت کے دشمن ہیں!!! یہ لوگ مغربی اقدار اور مقاصد اور خاص کر امریکہ کے لئے خطرناک ہیں (یقین جانیں یہ ہی لکھا ہے)، لہذا یہ ہمارے اور ہم ان کے دشمن ( یہ بھی کہا ہے)!!! ساتھ ہی انہیں افسوس ہے کہ یہ لوگ تمام تر (جدید) وسائل کو استعمال کرتے ہیں!!! جیسے ٹی وی، انٹرنیٹ ، کتب ، بلکہ ان کے اپنے اشاعتی ادارے ہیں!!! (جدید ذرائعہ کا استعمال اور پھر بھی بنیاد پرست؟؟) اپنے پیغام کو آسانی سے پھیلالیتے ہیں!!!! روایت پسندوں کو وہ بنیاد پرستوں کے قریبی سمجھتے ہیں اور جدت پسندوں کو ان کے جنہیں وہ اپنا فطری ساتھی سمجھتے ہیں اس رپورٹ یا ریسرچ کے مطابق!!!! لیکن پھر بھی ان کو الگ الگ ہی سمجھتے ہیں!!! بہرحال ان کی خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ لیا ہے!!! کہ کون کس طرح ان کے قریب اور کتنا؟؟ اور کون دور!!!

تیسرے باب میں وہ حکمت عملی واضح کی جس کی مدد سے وہ اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں!!! کہ ان گروہوں میں کس کی مدد کرنی ہے کب اور کس طرح!!! اور کتنی!!! احادیث کی جنگ، حجاب پر نقطہ نظر!!! دیگر اگر قوت ہو تو یہ رپورٹ پڑھے کچھ سمجھ ناں تو سمجھ آتی ہے کیا یہ بھی بتانا!!! “نظریات کی جنگ“ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے !!! اس میں ان باتوں پر غور کیا گیا ہے کہ القاعدہ سے نظریات کی جنگ کیسے جیتی جائے!!! نوجوان کو اس سے کیسے متنفر کیا جائے!! وہ کیا باتیں ہے جن کی وجہ سے ایک کم عمر ان سے دور ہوسکتا ہے!!! مجھے کچھ یوں لگا اسے پڑھ کر کہ مسلم نوجوان میں سے جہاد (کچھ لوگ اسے دہشت گردی کہہ لیں) کا جذبہ ختم کرنے کے لئے ان کے خیال میں صوفی ازم، جنسی بھوک، بےراروی اور زندگی سے محبت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں!!!

پہلی رپورٹ قرین 90 صحفات اور دوسری بیس صحفات پر مشتعمل ہے!!! اگر وقت و قوت ہو تو ضرور پڑھے!!! اور رائے بھی دیں کہ آپ کیا کہتے ہیں

11/19/2006

غزل

قدم انسان کا راہ دہر میں تھرا ہی جاتا ہے

چکے کتنا ہی کوئی بچ کے ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے

نظر ہو خواہ کتنی ہی حقائق آشنا پھر بھی

ہجوم کش مکش میں آدمی گھبرا ہی جاتا ہے

خلاف مصلحت میں بھی سمجھتا ہوں مگر ناصح

وہ آتے ہیں تو چہرے پر تغیر آ ہی جاتا ہے

ہوائیں زور کتنا ہی لگا یا آندھیاں بن کر

مگر جو گِھر کے آتا ہے وہ بادل چھا ہی جاتا ہے

شکاہت کیوں اسے کہتے ہو یہ فطرت ہے انسان کی

مصیبت میں خیال عہدِ رفتہ آ ہی جاتا ہے

شگوفوں پر بھی آتی ہیں بلائیں یوں تو کہنے کو

مگر جو پھول بن جاتا ہے وہ کمھلا ہی جاتا ہے

سمجھتی ہیں مآلِ گل مگر کیا زور فطرت ہے

سحر ہوتے ہی کلیوں پر تبسم آ ہی جاتا ہے

جوش ,,,,,,,,,

11/17/2006

اچانک موت!!!!

میرے ایک کلاس فیلو(میٹرک کے) یا دوست جو کینڈا میں شفٹ ہو گئے ہیں!!! انہوں نے ایک لنک بھیجا!!! اس میں موجود ویڈیو یہاں پوسٹ کر رہا ہو!!! اگر ویڈیو نہ چلے تو لنک پر جا کر دیکھ لیں!!! کیا رائے ہے؟؟؟ ویسے دیکھ کر پہلے لمحے تو جسم ایک لمحے کے لئے سن ہو گیا!!! باقی اللہ بہتر جانتا ہے!!!

کیا ایسا ہے؟؟؟؟

آج جاوید چوہدری کا کالم پڑھا یہ کل کے ایکسپرس میں میں آیا تھا مگر مجھے آج پڑھنے کا وقت ملا (نیٹ سے) دو باتیں بہت عجیب معلوم ہوئیں !!! جاننا یہ ہے کہ کیا یہ درست ہیں؟؟؟؟ ایک یہ کہ پیجابی میں شکریہ اور معافی کے لئے یا ہم معنی الفاظ نہیں ہیں!!! دوسرا انگریزی میں بھی غیرت کے لئے کوئی لفظ نہیں کیا یہ درست ہے؟؟؟؟ ویسے انگریزی میں میرے علم کے مطابق غیرت کے لئے “honour“ ہے باقی آپ کا کیا کہنا ہے؟؟؟
,,,,,,,,,

11/13/2006

یہ کیا!!!!!

آج خاور کے بلاگ پر “شیخ لوگ“ کے عنوان سے پوسٹ لکھی تھی!!! جس میں اُس نے اردو کے وکی پیڈیا کا لنک دیا !!! شیخوں پر کوئی مضمون نہ ملا!!! یہ معاملہ میں نے اُس کے سامنے رکھا تو بھائی نے وہ لنک دے دیا!!! مگر اس دوران( یعنی مضمون کی تلاش اور لنک کی فراہمی ) میں خیال آیا کہ کیوں ناں جاٹ کے متعلق دیکھا جائے!!! تو بجلی کا ایک جٹکا لگا!!! تعارف کچھ یوں تھا!!! ۔
جاٹ کے لغوى معنى ہیں گنوار یا غیر تہذیب یافتہ !جاٹوں کی کئی گوتیں اور قبیلے ہیں وارث شاہ صاحب نے ہیر میں جاٹوں کی تقریبا 50 گوتوں کا ذکر کیا ہے!! گجر اور آرایں لوگوں کو جاٹ خود میں شامل نہیں کرتے! یہ لوگ انتھائی تعصب کرنے والے مغرور ہوتے ہیں!! تعلیم ان کا کچھ بھى نہیں بگاڑ سکتى! ہنر مند لوگوں سے حقارت کا سلوک کرتے ہیں اور ان کو کمى اور کمینہ کہہ کر پکارتے ہیں خود سے طاقتور کے سامنے انتہائی فرمانبردار اور کمزور پر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں زمانہ جاہلیت کے عربوں کى طرح سالہا سال دشمنیاں پالتے رہتے ہیں! قاتل اور اشتہ دارى رشتہ دار باعث فخر ہوتا ہے پاکستان میں ان کى اکثریت ہونے کى وجہ سےبہت سے ہنر مند لوگ دوسرے ملکوں کو ہجرت کر گیے ہیں بے ہنر جاٹوں کے زیر انتظام ملک پاکستان کے کاروبارى حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ اب جاٹوں کے لڑکے یورپ میں موچى نائی اور راج مزدور لوگوں کى کام کے لیے منتیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔“۔
کافی تعصب سے بھرپور تحریر ہے!!! کمال ہے بھائی!!! لازمً کسی ایسے اللہ کے بندے نے لکھی جو جاٹوں کو اچھا نہیں سمجھتا!!! بلکہ شائد نفرت کرتا ہے!!! چلو ٹھیک ہے کرتا رہے !!! جاٹ یا جٹ (چونکہ میری گوت گھمن ہے) ہونے اور کراچی میں “انجمن بہبود جٹاں“ کا ایک ایکٹو ممبر کی وجہ سے یہ تحریر اور بھی بُری لگی!!! باقی ذاتوں کے بارے میں ان ہی اصولوں کی روشنی میں لکھا گیا تو خوب کام ہوا!!!! تیار ہو گیا انسائکلوپیڈیا!!! غیر جانبداری ضروری ہے!!! ذاتی آراء کو الگ رکھنا مشکل ہے مگر بڑے کام کے لئے یہ کرنا پڑتا ہے!!!
یوں تو جاٹ قوم کے متعلق کتابوں کی صورت میں اور خود نیٹ پر( سرچ انجن یا کسی بھی انسائکلوپیڈیا میں jatt یا jat لکھ کر تلاش کر نے پر ) کافی سارا مواد موجود ہے!!! مگر یہاں میرا مقصد یہ نہیں کہ میں وضاحتیں پیش کرو!!! بس اتنا کہ مطالعہ بھی تعصب سے پاک ہی ہو تو اچھا ہے!!!! ۔

11/12/2006

اِدھر اُدھر کی

پچھلے دنوں جب حجاب سے متعلق جیک اسڑا( جن کے حلقے کی قریب تیس فیصد آبادی مسلم ووٹر پر مبنی ہے) کے ٹیلیگراف والے مضامین (ایک 5 اکتوبر اور دوسرا 12 اکتوبر) کی وجہ سے مغرب میں ایک بحث کا آغاز ہوا کسی نے اس سے اپنی محبت کی وجہ بتائی اور کسی نے جیک اسڑاس کو ایسا لکھنے سی منع کیا تو میرا بھی ارادہ بنا اس موضوع پر لکھنے کا!!!! یوں تو روتھ کِیلے کا بیان اس سے پہلے آیا جسے میڈیا میں وہ جگہ نہیں ملی شائد اس وجہ سے کہ اس سے اہل مسلم کے دل آذاری کے بجائے مثبت پہلو تھا!!! سنا ہے اس وجہ سے مغرب میں مسلم خواتین کی زندگی کسی حد تک مشکل کا شکار ہوئی!!! بعد میں معلوم ہوا کہ عالیہ انصاری بھی حجاب کی وجہ سے ماری گئی اور پھر آسٹریلیا کے مفتی کی شامت آگئی!!! جناب نے بے حجاب عورت کو کھلے گوشت سے تشبہ دی تھی!!! یارو نے اسے ایک مسلم زانی کے حق میں بیان قرار دیا!!!!
بات اپنے مضمون کی کر رہا تھا تو اس مضمون کے لئے دو لطیفے سوچ رکھے تھے (جو کہیں سنے تھے) اب نہیں لکھ رہا اس پر!!!! جو کچھ یوں تھے!!!!
ایک خاتون ایک سو منزلہ عمارت سے گر جاتی ہے جب وہ 80 ویں منزل پر پہنچی تو ایک امریکن مرد نے اسے گرتے میں تھام لیا۔۔۔۔ ابھی وہ لٹکی ہوئی ہی تھی کہ وہ شکر گزار ہوئی کہ آپ نے میری جان بچائی!!! ا،ریکن نے کہا وہ تو ٹھیک ہے کہ مگر آج رات کہاں گزانے کا ارادہ ہے؟؟؟؟ عورت فورًا بھڑک اٹھی امریکن نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا وہ گرتی ہوئی جب 60ویں منزل پر پہنچی تو ایک اور سیکولر مرد نے اسے ہاتھ دے کر پکڑ لیا !!!!۔۔۔ وہ شکر گزار ہوئی تو اِس مرد نے بھی وہ ہی آفر کر دی!!! اس نے انکار کیا تو اس نے بھی اس کا ہاتھ چھوڑ دیا !!! نیچے گرتے ہوئے اس عورت کو خیال آیا کہ اگر میں ان مردوں میں سی کسی ایک کی بھی بات مان لیتی تو میری جان بچ جاتی اور ایک رات ہی کی تو بات تھی!!! کیا فرق پڑتا!!!۔۔۔ اس ہی دوران 30 ویں منزل پر ایک مرد نے اس کا ہاتھ تھام لیا!!! اور اسے اوپر کھینچ لیا اس عورت نے فورًا اس کا شکریہ ادا کیا اور کہا کیا ارادہ ہے؟؟؟ آج رات کیا ہو رہا ہے!!! اس مرد نے فورًا اسے دوبارہ نیچےدھکا دے دیا اور کہنے لگا “لاحول ولاقوۃ“۔
دوسرا لطیفہ کچھ یوں تھا!!!
ایک ہوٹل میں تین عورتیں بیٹھی باتیں کر رہی ہوتی ہیں، ایک جاپانی، دوسری مغربی، تیسری مشرقی۔ اتنے میں خبر ہوتی ہے کہ ہوٹل میں چند بدمعاش گھس آئے ہیں اور وہ خوبصورت عورتوں کو بری نیت سے اٹھا کر لے جارہے ہیں!!!
جاپانی عورت کہتی ہے “اگر مجھے ان میں سے کسی مرد نے پکڑنے کی کوشش کی تو میں لڑوں گی یا وہ زندہ نہیں رہے گا یا میں“
مشرقی عورت یوں گویا ہوئی “اگر مجھے کسی مرد نے ہاتھ بھی لگایا تو میں اپنی جان لے لو گی“
مغربی عورت کا جواب تھا “مجھے سمجھ نہیں آتی اس میں حرج ہی کیا ہے ذرا تفریح ہی رہے گی“
ان کو اس وجہ سے کوڈ کرنا تھا کہ جب ایسی بحثوں کے نتیجے میں اوپر والے لطیفے لطیفے نہ رہے یعنی مسلم مرد اور عورت بھی مکمل طور پر مغربی سوچ اپنا لیں تو یہ افسوس اور دکھ کی بات ہو گی!!! مثبت باتوں کو اپنانے میں کوئی حرج نہیں!!!
کل کورٹ میں ایک نہایت دلچسپ بات سنے کو ملی ہوا یوں کہ جج صاحب اپنے چیمبر میں گئے ہوئے تھے لہذا تمام وکیل بیٹھے گفتگو کرنے لگ پڑے ایک سینیر خواجہ نوید کو کہنے لگے یار تم نے ہم وکیلوں کی روزی خراب کرنی ہے کہ ایک عورت جس کا میں نے ایک فیملی کیس لڑا تھا اس سی دس ہزار فیس کی مد میں اور دس ہزار کورٹ فیس کی مد میں مانگے تھے!! یوں تو اب اس کا کیس ختم ہو چکا ہے اور میں اپنی فیس بھی لے چکا ہو!!! مگر اس کا فون آیا کہ جناب آپ نے مجھ سے کورٹ فیس کی مد میں دس ہزار لیئے تھے جبکہ کورٹ فیس تو پندرہ روپے ہے!!!!! میں نے پوچھا یہ تم سے کس نے کہا ہے ؟ بتانے لگی کہ ابھی ٹی وی میں “خواجہ کی عدالت“ میں بتایا ہے!!!خواجہ صاحب نے ہنستے ہوئے پوچھا تم نے کیا کہا؟پہلے وکیل کہنے لگے میں نے کہہ دیا “ بی بی کیا مشرف کو پتہ ہے کہ بازار میں آٹے دال کا کیا باؤ ہے؟ کہنے لگی نہیں!! تو میں نے کہہ دیا بی بی یہ بھی سپریم کورٹ کے وکیل ہیں ان کو کیا پتا کہ چھوٹی عدالتوں میں کیا فیس ہے!!!! خواجہ صاحب مسکراتے ہوئے بولے خوب! ٹھیک ہے اب اس عورت کا فون آئے تو مجھ سے بات کروا دینا میں کہہ دوں گا کہ “اگر فیس واپس لو گی تو طلاق بھی واپس ہو جائے گی!!! اور کورٹ میں اپنے خادند کو پیش کرنا پڑے کا اگر پہلا نہیں ملا تو کوئی اور تلاش کر کے لانا پڑے گا“مجھے ان کے اس جواب پر بہت ہنسی آئی قیب قریب قہقہ لگانے کے قریب!!!کہ دوسرا مرد شوہر کے طور پر تلاش کر کے لانا پڑے گا!!!
جاتے جاتے ایک لطیفہ اور سن لیں جو خواجہ نوید (یہ لطیفے بہت سناتے ہیں محفل میں) نے فارمیلٹی پوری کرنے کے حوالے سے سنایا!!!! اوپر کے دو لطیفوں کی طرح یہ بھی کچھ آزاد خیال ہے لہذااچھا نہ لگے تو معذرت!!!
ایک لڑکا ایک لڑکی دھوکے سے کو ایک ویرانے میں لے جاتا ہے!! لڑکی اسے کہتی ہے کہ اگر تم نے مجھے چھونے کی بھی کوشش کی تو میں شور مچا دوں گی!!! لڑکا کہتا ہے مگر یہاں تو دور دور تک کوئی بھی نہیں!! جواب میں وہ کہتی ہے “تو کیا ہوا فارمیلٹی تو پوری کرنی ہے

11/08/2006

نفسیات غلامی

شاعر بھی ہیں پیدا، علما بھی، حکما بھی

خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ

مقصد ہے ان اللہ کے بندوں کا مگر ایک

ہر ایک ہے گو شرِح معافی میں یگانہ

بہتر ہے کہ شیروں کو سکھا دیں رم آہو

باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ ،

کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضا مند

تاویل مسائل کو بناتے ہیں بہانہ

علامہ اقبال

11/06/2006

آنکھوں کا تارا

اس کی دہائی میں ایک شخض پورے مغرب اور امریکہ کی آنکھوں کا تارا تھا۔ وہ ایک ایسے ملک کا سربراہ تھا جس کے ساتھ وہ گزشتتہ تین دہائیوں سے سرد جنگ لڑ رہے تھے۔ اس ملک کے نظام کو وہ لوگ مغرب کے لائف سٹائل کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ تصور کرتے تھے۔
ہالی ووڈ ان کے بارے میں جیمز بانڈ فلمیں بنا کر ڈائجسٹوں میں لطیفے چھپوا کر اور آزادی رائے اور اظہار پر پابندی کی کہانیاں بیان کرکے اس ملک کو پوری دنیا میں بدنام کیا گیا۔ یہ ملک دوسری بڑی عالمی طاقت تھا اور دنیا بھر میں کیمونسٹ تحریکوں کا سرپرست جسے لوگ عرف عام میں سوویت یونین کہا کرتے تھے۔ اس ملک پر مارچ 1985 میں مغرب کا یاک منظور نظر برسر اقتدار آ گیا۔ گورباچوف جو 1931 میں ایک کسان کے گھر میں پیدا ہوا۔ اس کے آباؤاجداد امیر زمیندار تھے لیکن کیمونسٹ انقلاب کے بعد عام انسانوں کی صف میں آ کھڑے ہوئے۔ گورباچوف زندگی بھر مزدور رہنما اور کیمونسٹ خیالات کی ترویج اور سیاسی سرگرمیوں میں مگن رہا۔ اکیس سال کی عمر سے لیکر ملک کا سربراہ بننے تک اس کی زندگی سیاسی زمینے چڑھتی نظر آتی ہے، اس دوران اس نے مغرب کے بے شمار دورے کئے اور ان حکمرانوں سے اس کے تعلقات دوستانہ سطح پر آ گئے۔
لیکن اس آنکھوں کے تارے کے کے اقتدار میں آنے کی کہانی کا پندرہ سال پہلے آغاز ہوتا ہے۔ 1970 سے لیکر 1985 تک امریکی سی آئی اے ہر چھ ماہ بعد ایک معاشی سروے جاری کرتی جس میں سوویت معیشت کو تباہ حال، اس کے حکمرانوں کی کریشن اور اس کے معاشرے کی بد حالی کا تذکرہ ہوتا اور پھر یہ رپوٹیں کھی کسی تجزیہ کار اور کبھی کسی دوسرے کے نام سے دنیا بھر کے اخباروں، رسالوں اور ٹی وی چینلوں پر جاری ہو جاتیں۔ یہ تمام رپوٹیں جو ایک خاص مقصد سے مرتب ہوتی تھیں اور آج ان “کلاسیفائیڈ“ مواد کے طور پر میسر ہیں۔ یہ سب اس زمانے میں کیا جارہا تھا جب روس ایک عالمی طاقت کی حیثیت رکھتا تھا۔
لیکن 1985 میں گورباچوف کے برسراقتدار آتے ہی ان سب لکھنے والوں کے انداز تحریر ایسے بدلے کہ اس روس کو ابھرتی ہوئی مضبوط معیشتوں میں شمار کیا جانے لگا۔ اس معیشت کو روشن اور مستحکم اور عوامی فلاح سے مزین کیا جاتا تھا۔ جب اس طرح دادو تحسین کے ڈونگرے برسائے جارہے تھے اس وقت امریکہ اور مغرب کا یہ منظور نظر اپنے مضبوط اور مستحکم ملک کے ساتھ ایک اور کھیل کھیل رہا تھا۔ برسراقتدار آتے ہی اس نے کہا کہ میں اس جامد اور غیر متحرک معیشت کو مضبوط بناؤں گا اور اس نے ملک کی 75 سالہ تاریخ میں نیا نعرہ دہا “پیراسڑائیکا“ میڈیا کو آزادی دی تاکہ لوگوں کا غبار نکلے۔ ایک ایسے طنقے کو جنم دیا جس کے کاروبار، گاڑیوں اور تعیش کو دیکھ کر لوگوں کو غصہ آنے لگا۔ مغرب ان تمام تبدیلیوں کو خوش آمدید کہہ رہا تھا۔
امریکی صدر رونالڈریکن نے کہا وہ میرا بھائی ہے۔ برطانیہ کی مارگریٹ تھیچر نے کہا میں اس سی متاثر ہوں، جرمنی کے بلمٹ کوبل نے اسے اپنا محسن قراردیا اور یوں اس معیشت سے نکل کر سیاسی تبدیلیوں کا نعرہ بلند کیا اور اسے گلاس نوسٹ کا نام دیا۔ اس نے اپنے تمام محاذوں کو ختم کرنے کا اعلان کیا جو مغرب کے ساتھ سالوں سے موجود تھے۔ اسے موجودہ تاریخ کا اسب سے بڑا یو ٹرن کہا جاتا ہے۔
1988 میں اسے ٹائم میگزین کے کور پر مین آف دی ایئر کا اعزاز ملا لیکن اس وقت جب اس کی معاشی اور سیاسی پالیسیوں کی دھوم دنیا بھر میں مچی ہوئی تھی۔ روس کا خسارہ صفر سے 109 بلین روبل، سونے کے ذخائر2000 ٹن سے دوسو ٹن اور بیرونی قرضے صفر سے 120 بلین ڈالر تک پہنچ گئے۔ صرف پانچ سالوں میں خودکفیل روس چینی کے سب سے بڑے بحران کا شکار ہوا اور پھر گوشت اور روٹی یعنی گندم بھی لوگوں کی دسترس سے دور ہو گئی۔  یوٹیلیٹی سٹوروں کی طرح ذرا سستے سٹور بنائے گئے لیکن آخر بات جنگ کے زمانے کی طرح راشن کاڈو پر آ پہنچی اور لوگ لمبی لمبی لائنوں میں لگ کر خوراک حاصل کرنے لگے۔
ادھر اسی مغرب کے ممالک جن کی آنکھوں کا وہ تارا تھا اس کے ملک میں علیحدگی کی تحریکوں کی حمایت کرنے لگے۔ بھوک، افلاس اور غربت نے حکومت کا اعتماد ختم کردیا اور سیاسی بد امنی علیحدگی کو ہوا دی۔ اس کا پیراسٹرائیکا اور گلاس نوسٹ کسی کو تو متحد نہ کرسکا یہاں تک کہ ایک ایک کر کے سب علیحدہ ہوتے گئے اور جب آخر میں بالٹک ریاستوں کو اس نے زبردستی اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کی تو پورا مغرب جو اس کا حلیف تھا اس کے مدمقابل آ کھڑا ہوا۔
صرف سات سال کے عرصے میں ایک عالمی طاقت ستر سال سے مغرب کا سب سے بڑا دشمن سوویت روس بدنام ترین شکستوں ذہنوں اور رسوائیوں کے ساتھ بکھر گیا۔
حیرت ہے کہ جب وہ اپنی کتاب پیراسٹرائیکا شائع کر رہا تھا تو پوری مغربی دنیا اسی ترجمہ کر رہی تھی خرید رہی تھی۔ اسے عالمی خبروں کا موضوع بنایا ہواتھا۔ اسے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا اور آج نہ اس کا ذکر کئی ملتا ہے اورع نہ اس کی کتابیں کسی بک اسٹال پر میسر ہیں البتہ کسی ریسرچ میگزین میں کوئی تحقیقی رپورٹ آجاتی ہے کہ سی آئی اے نے کتنی محنت کے ساتھ ایک شخض کو تیار کیا اسے اپنے ہی اندر ایک سپر مین کا غرور دیا، اسے غلط تبصروں سے گمراہ کیا اور اس کو ایسے خیالات دیئے جو ملک توڑ سکتے تھے لیکن وہ اسے نیک نیتی کے ساتھ ملکی مفاد میں نافذ کرتا گیا۔ سی آئی اے کا یہ اتنا بڑا اور کامیاب تجربہ ہے جس کی گونج بھی اگر کسی ملک میں سنائی دے یا تاثر بھی ملے تو اس ملک سے محبت کرنے والے گھبرا جاتے، ڈر جاتے ہیں، انہیں خوف سے راتوں کو نیند نہیں آتی۔


تحریر؛ اوریا مقبول جان

11/05/2006

سو افراد اور دو حملے

باجوڑ پر اب تک امریکہ دو بار حملہ کر چکا ہے!!! سو افراد اس میں شہید (جس کا دل کرے وہ ہلاک پڑھ لے) ہوئے!!! سارے پاکستانی تھے!! سارے کلمہ گو!!! دونوں مرتبہ پریڈیٹر جہاز میزائل مار گیا!!! ہم دیکھتے رہ گئے!!! یوں بھی نہیں بلکہ لوگ ہمیں دیکھتے رہ گئے!! یہ کیا کر رہے ہیں کہ کچھ بھی نہیں کر رہے!!! پہلا حملہ اسی سال جنوری میں!!! جس نے 17 افراد کی جان لی!!! اس حملہ پر شوکت سلطان پہلے تو یہ ہی معلوم کرتے رہے کہ یہ کیا ہوا!!!!  کہتے تھے کچھ تو ہوا ہے کیا یہ معلوم نہیں؟؟؟ پھر جو ہوا تھا اس پر احتجاج کرنا پڑ گیا!!! کہ جن پر دباؤ ہے ان کا دباؤ تھا بھائی عوام!!! ادھر سے جواب آیا (سینیٹر جان مکین  اور کنڈولیزا رائس کی زبانی) کہ بھائی!!! بلکہ بھائی نہیں کہا تھا اتحادی کہا ہو گا!!! معافی کے طالب ہیں مگر ایسا پھر ہوسکتا ہے!!!! اور پھر ہو گیا!!!
30 اکتوبر کو دوسرا حملہ ہوا!! علاقے کے لوگ بتاتے ہیں کہ پہلے دھماکے ہوئے پھر ہیلی کاپٹر پہنچے !!!بتانے والے بتاتے ہیں امریکی جہاز کافی دنوں سے علاقے کی پرواز کر رہے تھے!!! کیوں؟؟ کس کی اجازت سے؟؟؟ کیا حکومت نے اجازت دی تھی؟؟ اگر دی تھی تو کیوں؟؟؟ بین الاقوامی فضائی حدود کے قوانین کے مطابق تو سول جہاز بھی کسی ریاست کی اجازت کے بغیر اس کی فضائی حدود میں داخل نہیں ہو سکتا!!! پھر یہ جاسوس طیارے کیسے آتے جاتے رہے؟؟؟؟
سلطان صاحب کہتے ہیں کہ حملہ ہوا نہیں ہے ہم نے بندے (دہشت گرد) مارے ہیں!!! چلو مان لو وہ جو  کم عمر تھے!!! وہ جو جن کی اکثریت پاکستانی قانون کے لحاظ سے ابھی نا بالغ تھی!! کہ 17 سال سے کم عمر تھے!!! جن کے سینوں میں قرآنی آیات اور زبان پر قال قال رسول اللہ تھا!!! وہ جن کی راتیں اللہ کی یاد میں گزرتی تھی!! وہ جو تہجد گزار تھے!! وہ جن کی موت کے بعد بھی ان کے اسکول (مدرسے) سے اس کے جسم کے ٹکڑوں اور درسی کتابوں (وہ بھی جو قرآن پاک ، حدیث و فقہ پر مشتمل تھی) کے علاوہ کچھ نہیں ملا!!! وہ جن پر پچھلے  چار ماہ (جولائی) سے نظر رکھے جانے کا دعویٰ کیا پھر بھی ایک دھندلی سی بچوں کی پی ٹی کی ویڈیو کے علاوہ کوئی ثبوت نہیں پیش کیا جا سکا!!! وہ دہشت گرد ہی ہوں گے!!! کہ اگر آپ انکاری ہوئے تو بقول اپنے صدر اعلٰی مقام کے آپ جاہل و جھوٹے ہو!!! اور ایسا تو آپ نہیں چاہو گے کہ انہیں معصوم اور بچہ کہہ کر خواہ مخواہ جھوٹے بن جاؤ!!!! چوں کہ وہ دہشت گرد تھے لہذا ان کے تین ساتھی جو بچ گئے تھے ان کا سرکاری علاج بھی نہیں کیا گیا کہ کون دہشت گردوں کا ساتھی بنے!!!
ہمارے ایک دوست کہنے لگے یار جنوری کے حملے پر احتجاج کا جب کوئی فائدہ نہیں ہوا تو بہتر یہ معلوم ہوا کہ اس سے پہلے کہ ریاستی اقتداراعلٰی کا سوال اٹھے یار لوگ اسے ملکی خودمختاری اور آزادی کے بارے میں استفسار کریں!!! حکومت نے اسے اپنا کارنامہ بتادے!!!! جو مر گئے اب وہ تو نہیں بتانے والے کہ وہ گناہ گار تھے کہ نہیں!!!
چند نقاد کا یہ بھی دعوٰی ہے کہ یہ کام امریکہ کا یوں بھی ہے کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستانی فوج و حکومت  کا قبائلی علاقوں میں دینی گروہوں سے کوئی وزیرستان کی طرز کا معاہدہ ہو!!! جب سرحد کے گورنر جنرل اورک زئی کی کوشش سے ایسا معاہدہ ہونے جا رہا تھا!!! جب سرکاری اور قبائلی سطح پر اس کی قریب تمام تیاریاں مکمل ہو چکی تھی 29 اکتوبر کے اخبار اس بات کے گواہ ہیں کہ اگلے دن اس پر دونوں کی جانب سے  دستخط ہونے تھے!!! تو اتحادی دشمن نے وہاں پر میزائل داغ دیا!!! سوال کرنے والے سوال کرتے ہیں کہ اگر حکومت کو کیا ضرورت تھی کہ وہ ایسے ہونے والے معاہدہ کو خراب کرتی جس طرز کے ایک معاہدہ کی وکالت وہ نیویارک تک کر آئی!!! یہ ان ہی کا کام ہے جن کی نظروں میں پہلا والا معاہدہ قابل اعتراض ہے!!!`````---```
قصوری صاحب کا اب یہ بیان کہ اگر ہم خود اگر ملک میں کاروائی نہیں کریں گے تو امریکہ خود کرلے گا حکمران ٹولے کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے!!! افسوس صد افسوس!!!!
tag

پھتو!!! جاويد چوہدري کي نظر سے


,,,,,,,,,

11/03/2006

ہالوکاسٹ پر مبنی کارٹونوں

ایران کارٹون کی طرف سے ہالوکاسٹ پر مبنی کارٹونوں کے مقابلے کااعلان یہ کارٹون پہلے نمبر پر آیا!!!,,,,,,,,,