Pages

7/27/2006

شہد کی سرزمین میں بارود کی کڑواہٹ

پندرہ دن کے بعد بھی کچھ نہیں ہوا!!! حالات مزید سنگین ہو گئے ہیں!!! اب تو یہ بھی نہیں معلوم کتنے گھر بچ گئے ہیں!!! جہاں روزانہ بائیس ٹن بارود مزائل کی شکل میں داغے گئے ہوں!!!  جہاں روزانہ کم سے کم بھی سو کے قریب ہوائی حملہ ہوتے ہوں وہاں بھلا  کچھ بچ سکتا ہے کیا!!!! ہاں ہو گا تو صرف کھنڈر!!!!
لبنان کو زمانہ قدیم میں کنعان کہا جاتا تھا!!! کنعان یعنی شہد کی سرزمین!!! اب اس زمین کے شہد میں بارود کا ذائقہ آ گیا ہو گا!! ملک کی آبادی چالیس سے پنتالیس لاکھ ہے!!! سنا ہے کہ پچس سے تیس لاکھ کے قریب آبادی اب مہاجر بن چکی ہے ان پندرہ دنوں میں!!! ملک کی ساٹھ فیصد آبادی مسلمان اور چالیس فیصد آبادی عیسائی ہے!! یہ عیسائی یہاں صلیبی جنگوں کے زمانے سے آباد ہیں!!!
حملہ آور اسرائیل جو انکل سام کا ناجائز بچہ ہے!!!۔ حملہ کرنے کے لئے بہانہ یہ تھا کہ حزب اللہ نے دو اسرائیلی فوجی اغواء کر لئے ہیں!!! لو اس بات کو وجہ وہ ملک بنا رہا ہے  جو ہر دوسرے دن ایک ملک میں گھس کر نہ صرف بندوں کو گرفتار یا اغواء کرلیتا ہے بلکہ شہید بھی کرتا رہتا ہے!!! اگر لبنان کے معاملہ میں اس عمل کر دیکھا جائے تو بھی یہ اسرائیلی بہانہ یوں درست نہیں کہ پچھلے برس مئی میں اسرائیلی فوج نے لبنان میں داخل ہو کر دو فلسطینی افراد کو گرفتار یا اغواء کیا تھا مگر لبنان نے تو اسرائیل پر حملہ نہیں کیا تھا !!! چلو مان لیا کہ لبنان کی نہ تو کوئی بحریہ ہے نہ فضائیہ، رہ دے کر زمینی فوج ہے وہ بھی مری ہوئی جب ہی تو اب تک کے اسرائیلی حملوں میں نظر نہیں آئی!!! تو یہ کہاں کا انصاف ہے کہ “اغواء“ تو “حزب اللہ“ کرے فوجیوں کو مگر نشانہ بنایا جائے عام شہریوں کو!!!! شائد مارنے کا مقصد “حزب اللہ“ ہی ہے اور اللہ کی جماعت میں تو سب کلمہ گو ہی شامل ہیں نا بھائی!!!
حزب اللہ جو ایرانی انقلاب سے متاثر جماعت ہے اس کا سربراہ “حسن نصر اللہ“ اب عرب میڈیا کا ہیرو بنتا جا رہا ہے!!! اس ہی جماعت کی وجہ سے اسرائیل کو چھ سال پہلے جنوبی لبنان سے اپنا بائیس سالہ غاصبانہ قبصہ چھوڑنا پڑا!!! اس ہی جماعت کے ایک خود کش حملہ نے قریب 243 امیریکی میرین 1983 میں مارے جس کے بعد پھر امریکہ لبنان میں نہیں گیا!!! یہ جماعت نہ صرف فلاحی کاموں میں شریک ہے بلکہ سیاسی طور پر بھی کافی مضبوط ہے کہ لبنان کی پارلیمنٹ میں اٹھارہ فیصد نمائیدگی بھی رکھتی ہے!! اپنا ٹی وی چینل چلا رہی ہے!!!
اس ہی کی سخت مزاحمت کی وجہ سے اسرائیل کو لبنان پر قبصہ کرنا مشکل ہو گیاہے جتنا بھی اس نے کرنا ہے!!! اسرائیل کو انتظار ہے کہ کب اس جماعت کے پاس راکٹ ختم ہوتے ہیں!!!
یہ نہایت عجیب بات ہے کہ 9/11 کے بعد ہونے والی تمام جنگیں کسی مخصوص گروہ کے خلاف لڑنے یا اس کا قلع قمع کرنے کا کہا جاتا ہے اور تباہ ملک کئے جاتے ہیں القاعدہ  اور طالبان کے خلاف امریکہ کی کاروائی اور تباہی افغانستان کی!!! صدام کے خلاف کاروائی اور تباہی مکمل عراق کا مقدر ، اسرائیل کی فوجی لڑائی “حزب اللہ“ کے ساتھ اور نشانہ پورا لبنان!!!  مرنے والا ہر جگہ مسلمان اور مارنے والا غیر مسلم ہی ہوتا ہے!!!
عالمی سطح پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اب تک!!! نہ ہوتی نظر آتی ہے!!! بش صاحب نے تو صاف صاف الفاط میں اسرائیل کو وقت دے دیا کہ بھائی یہ دس بارہ دنوں میں یہ “حزب اللہ“ کا کام ختم کرو ساتھ ہی لبنانیوں کا بھی!!!!
مسلم دنیا کی تقسیم بھی وہ ہی پرانی والی حکمران لکیر کے اِس طرف اور عوام اُس طرف!!! ایک بے حس اور دوسرے بے بس!!! ایک مفاد پرست اور دوسرے خدا پرست!!!

4 تبصرے:

گمنام نے لکھا ہے کہ

لبنان کی آبادی انتالیس لاکھ ہے اور کل کی خبروں کے مطابق آٹھ لاکھ بے گھر ہو چکے تھے۔

لبنان کے عیسائی وہاں صلیبی جنگوں سے نہیں بلکہ بہت پہلے سے آباد ہیں۔

گمنام نے لکھا ہے کہ

ہماری حکومت نے لبنان پر اسرائيلی حملہ کی مذمت تو نہيں کی البتہ لبنان ميں اقوامِ متحدہ کی چوکی پر اسرائيلی حملہ کی فوراً مذمت کر دی ۔

گمنام نے لکھا ہے کہ

جی زکریا لبنان کے عیسائی صلیبی جنگوں سے پہلے سے وہاں آباد ہیں!!! اس جملے کا مقصد یہ تھا کہ اس کے بعد بھی انہیں یہاں سے بھگانے ، نکالنے یا مارنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ پھر مسلمانوں پر ایسا طلم کیوں!!!!
جیو کے حامد میر تیس لاکھ کی تعداد بتا رہے تھے!!!! میں نے آفس میں سنا تھا!! وہ لبنان میں ہی ہیں اس وقت!
ہاں لبنان کی آبادی 38سے 39 لاکھ کے لگ بگ ہی نیٹ پر بیان کی گئی ہے

گمنام نے لکھا ہے کہ

حامد میر صاحب کو شاید غلط فہمی ہوئی ہے کہ اگر ٣٩ میں سے ٣٠ لاکھ بے گھر ہوں تو ملک کا کچھ بھی نہ بچے اور حامد میر صاحب کو لبنان سے رپورٹ کرنا بھی انتہائی مشکل ہو جائے۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے

نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔