Pages

2/28/2010

انٹرنیٹ کی نسل اور گمراہ قدم

ہم اب ایک جدید دور کا حصہ ہیں، یہ ایسا دور ہے جہاں اہل عقل کو بات سمجھنے میں کم ہی دشواری ہوتی ہے۔ اس جدید دور کا کمال ہے نئی ٹیکنالوجی، جس میں دن بدن تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔
ہمیں یاد ہے ہمارا پہلا تعارف جس شخص یعنی دوست نے انٹرنیٹ سے کروایا تھا ہم نے اُس کا مذاق اس بات پر اُڑایا کہ وہ ہمیں بے وقوف بنا رہا ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنے گھر میں کمپیوٹر آن کریں اور دوسرا بندہ اپنے گھر میں! تب وہ ایک ٹیلی فون کی تار کی وجہ سے جان جائے کہ میں نے کمپیوٹر آن کیا ہے اور یہ ہی نہیں وہ مجھ سے تحریری گفتگو کر سکتا ہے۔ مگر پھر اپنے علاقے میں موجود واحد و قریب تب ہفتہ قبل ہی افتتاح ہونے والے کمپیوٹر انسٹیٹیوٹ کے اُستاد سے اجازت لے کر وہاں انٹرنیٹ چلاکر تصدیق کی تو یقین آیا۔
بعد میں ہم نے اس ایجاد کی جو تباہ کاریاں دیکھیں خدا کی پناہ، سچ تو یہ ہے ہم خود بھی اس کا شکار رہے تھے۔ نیٹ کیفے پر ای میل تو کیا یار لوگ چیک کرتے اصل میں تو اُس دور میں کئی بابا، بابو نام کےدیسی ویب ایڈریس ہمارے ہم عمروں میں مشہور تھے جو فحاشی کا مکمل سامان لئے ہوئے تھیں جن پر وقت برباد کیا جاتا اور دماغ خراب۔ درمیان میں ہم بقول شخصے مذہبی "انتہا پرستوں"کے قریب نہ جاتے تو شاید اس تباہ کاری سے کافی متاثر ہو چکے ہوتے مگر کہتے ہیں ناں جو ہوتا ہے اچھے کے لئے ہوتا ہے۔
اس میں کوئی شک شبہ نہیں انٹرنیٹ و جدید ٹیکنالوجی اپنے مثبت استعمال میں اپنے منفی استعمال کے مقابلے میں کئی گنا ذیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ کیا چھڑی کے استعمال کی مثال بزرگ اس موقعے پر دیتے ہیں مگر اس سےبھی انکار ممکن نہیں ایسا اُس وقت ہی ممکن ہے کہ کوئی اُس ناسمجھ ذہن کو اس کے منفی استعمال کے خطرات سے آگاہ کر دے یا وہ ماحول مہیا کرے کہ عمومی رجحان مثبت سرگرمی کی طرف رہے! اخلاقی تربیت اس سلسلے میں بہت اہم ہے۔
انٹرنیٹ سے ہر شے اچھی و بُری اب آپ کی پہنچ میں ہے، ان میں ایک شے جو ہماری تہذیب میں داخل ہو رہی ہے وہ ایک عجیب قسم عریانی ہے جو زندگیاں اور سماج دونوں کو تباہ کر رہی ہے۔ مجھے یاد ہے راولپنڈی والے کیفے اسکینڈل کے بعد جب چند لڑکیوں اور اُن کے خاندان کی زندگیاں تباہ ہوئی تھی تو کہیں جا کر نیٹ کیفے میں مخصوص ملاقاتوں کا رجحان کم ہوا تھا اُس وقت تنہائی کی ملاقاتوں کو کیفے مالک میں خفیہ طور پر ریکارڈ کیا تھا مگر اب عجیب صورت حال ہے دونوں خود مرضی سے موبائل کیمرے میں اپنی ایسی غیر اخلاقی سرگرمیوں کو محفوظ کرتے ہیں اس میں عموما لڑکیوں کی معصومیت اور لڑکوں کی شیطانیت کا ہاتھ ہوتا ہے مگر کچھ لڑکے و لڑکیاں ایسا شوق میں بھی کرتے ہیں شیئر کرنے کی نیت سے،ہمیں یاد ہے ایسے ہی چند کیس جب خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھ آئے تھے ریمبو سینٹر کے تو کافی تھر تھلی مچی تھی مگر ایجنسیوں نے حکمت عملی سے یہ معاملہ میڈیا سے دور رکھ کر ختم کیا! جو احسن قدم تھا دیکھنایہ ہےیہ اخلاقی گڑواہٹ ہم میں آئی کیوں؟
انٹرنیٹ پر یہ اخلاقی گڑواہٹ ایک مکمل صنعت کی شکل اختیار کر چکی ہے، انڈیا اور پاکستان کے چند گروپ مل کر یہ کاروبار چلا رہے ہیں! کئی بلاگ، فورم اور ویب سائیٹ موجود ہیں دس میں سے چار موبائلوں میں ایسا کوئی ناں کوئی فحش مواد پایا جاتا ہے جو انٹرنیٹ سے ڈالا ہوتا ہے۔ ایسی ہی اخلاقی پستی کی شکار ایک لڑکی کا قصہ ذیل میں ہے۔



ایسے موضوعات پر لکھنے سے ڈر لگتا ہے، یہ کئی اعتبار سے!

9 تبصرے:

arifkarim نے لکھا ہے کہ

مغرب میں یہ سب عام ہے۔ پر یہاں بات بات پر غیرت کی بنیاد پر قتل نہیں کیا جاتا!

Shoiab Safdar Ghumman نے لکھا ہے کہ

یار عارف کریم یہ انگریزی میں غیرت کو کیا کہتے ہیں؟

REHAN نے لکھا ہے کہ

ہم سب اپنے کیے کرنی کے زمادار ہیں ۔۔ ہم نے اپنے معاشرہ میں خود ہی صحت مند تفریح کو پروان چڑھنے نہیں دیا ۔۔ اب جو ہے وہ یہی ہے

صحت مند تفریح نا ہونے کی ہی وجوھات ہیں اکثر ۔۔ کے ہمارے نوجوان کیا کیا حرکتے کرتے ہیں ۔۔ آج کل کی تفریح کیا ہے جی ! کس کے فون میں کیسی کیسی ویڈیوز ہیں اور کس کا فون انٹیرنیٹ پر کیسی کیسی سائیٹ کھول سکتا ہے ۔

یہ سسٹم تو اب موڈرن اٍزم کی نظر ہوتا مزید تباھی جلد دیکھنے والا ہے ۔

ابوشامل نے لکھا ہے کہ

میں دوسرے ملکوں کے بارے میں تو نہیں جانتا لیکن پاکستان میں اکثر مثبت چیزوں کا منفی استعمال بہت دیکھا ہے۔ اب دیکھیے انٹرنیٹ اور موبائل جیسی نعمت کا کیسا کیسا استعمال کیا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب میں عرصے تک کیمرے والے موبائل فونز پر پابندی رہی ہے۔ اب کا مجھے علم نہیں کہ اب ہے یا نہیں۔
ویسے لڑکی کے ماموں نے انتہائی قدم اٹھا لیا میرے خیال میں اگر بات پھیل ہی گئی تھی تو معاملہ کسی پنچایت یا برادری میں پیش کر کے اسی لڑکے کے ساتھ اس کی شادی کرنی چاہیے تھی۔

دوست نے لکھا ہے کہ

صاحب اس کے ساتھ ساتھ موبائل فون کے رات کے پیکجز نے تو کباڑہ کردیا ہے۔ پات روزمرہ سے ہوتی ہوئی ذاتیات اور پھر فون سیکس تک پہنچ جاتی ہے او رپھر یہی سب اصل میں۔ نوجوان تو پہلے دنیا اور اپنے آپ سے اکتائے ہوئے ہیں۔ چناچہ ایسی "تفریحات" میں دل و جان سے حصہ لیتے ہیں۔

راشد کامران نے لکھا ہے کہ

اس میں ٹیکنالوجی کا قطعا کوئی قصور نہیں۔ ہم ٹیکنالوجی تو بہت آگے بڑھ کر استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ استعمال کی جو تہذیب ہوتی ہے اس کے لیے نا قانون سازی کی جاتی ہے اور نا فرد کی سطح پر اس سلسلے میں کچھ کیا جاتا ہے۔ کیا فون اور انٹرنیٹ کو مکمل طور پر زندگی سے نکال دینے سے مسئلہ حل ہوجائے گا؟۔۔ جواب ہے نہیں؛ دستیاب چیزوں کے استعمال سے برائیانں ویسے ہی چلتی رہیں گی بلکہ ٹینکالوجی کی وجہ سے تو علم میں آجاتی ہیں ورنہ کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی۔۔ سو فیصدی آپ کسی بھی معاشرے کو درست نہیں کرسکتے لیکن ایک بہت بڑی تعداد کی طرف سے مستقل ہر نئی چیز کے غلط استعمال سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے تربیت کے سسٹم میں کہیں نا کہیں کوئی کمی ہے کہ والدین سہولت کے ساتھ مناسب معلومات اور تربیت اپنے بچوں کو پہنچانے کا بندوبست نہیں کرتے اور جو قانون موجود ہیں ان پر عمل کرنے کی نوبت نہیں آتی مثلا جہاں چاہیں سگریٹ سلگا لیں غیرت مند معاشرے میں بہت ہی کم کسی کو اعتراض ہوگا خاص کر اگر آپ کی گردن میں اراروڈ کی وافر مقدار موجود ہو۔

بدتمیز نے لکھا ہے کہ

یار مِیں اس پر حیران نہیں ہوا کہ ایسا تو ساری قوم کے نوجوان کر رہے ہیں۔ میں تو اس پر حیران ہوا تھا جب ایک دوست نے بتایا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کی ویڈیو بنا کر فون میں محفوظ رکھی ہوئی ہے۔
اور رہی بات یہ جو چیزیں نکل رہی ہیں یا تو اب ہم دوبارہ سنجیدگی سے معاشرے کو جلد شادی کر دینے کے معمول پر پائیں گے یا پھر نکاح غائب اور زنا عام ہو گا۔ اسی طرح جیسے یہاں نام معلوم نہیں ہوتا اور یہ لوگ سیر ہو کر چل پڑتے ہیں۔

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے کہ

کوئی بھی چيز بذاتِ خود اچھی يا بُری نہيں ہوتی ۔ اس کا استعمال اسے اچھا يا بُرا بناتا ہے ۔ اسی لئے علامہ اقبال صاحب نے کہا ہے
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
يہ خاکی اپنی فطرت ميں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

عورت ہو يا مرد ۔ لڑکی ہو يا لڑکا۔ جس نے انہيں پيدا کيا اور ان ميں باہمی کشش رکھی اُس نے پابندياں بھی لگائی ہيں ۔ جب قانون کا احترام نہ کيا جائے تو جُرم سرزد ہوتا ہے ۔ اسے دوسری طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ جب اللہ کے فرمان کی پرواہ نہ کی جائے تو گناہ سرزد ہوتا ہے

عصرِ حاضر کے جتنے بھی عقيدے ہيں ان ميں صرف اسلام ہے جو لڑکی لڑکے يا عورت مرد کےقُرب پر پابندی لگاتا ہے ۔ ليکن ہم ترقی کے شوق ميں ترقی کی بجائے ترقی کرنے والوں کی قباحتوں کو اپنا ليتے ہيں جس کی وجہ تعليم و تربيت کا فُقدان ہے ۔ ہمارے ملک ميں سنديں اکٹھی کرنے کا رواج ہے تعليم و تربيت حاصل کرنے کا نہيں

دوسری طرف ابليس نے انسان کو بگاڑنے کا تہيہ کيا ہوا ہے ۔ مگر اللہ کا فرمان ہے کہ جو اللہ کے بندے ہيں ابليس اُن کا کچھ نہيں بگاڑ سکے گا ۔ ذرا سوچئے آپ کو مٹھائی مرغوب ہو ۔ سامنے مٹھائی پڑی ہو اور ديکھنے يا پوچھنے والا کوئی نہ ہو تو آپ اپنے آپ کو کتنی دير مٹھائی کھانے سے باز رکھ سکيں گے ؟

زبردستی کے حقيقی واقعات الگ معاملہ ہيں ۔ ميں عام حالات ميں اس استدلال کو نہيں مانتا کہ سارا قصور لڑکے يا مرد کا ہوتا ہے ۔ نفسياتی لحاظ سے درست ہے کہ لڑکی يا عورت اس معاملے ميں لڑکے يا مرد کے مقابلے ميں سردمہر ہوتی ہے ليکن بعض ايسے لمحات ہوتے ہيں کہ لڑکی يا عورت خود لڑکے يا مرد کو اُکساتی ہے

حل صرف اور صرف ايک ہے "اللہ کے فرمان کی ہر لحاظ سے پابندی"

عنیقہ ناز نے لکھا ہے کہ

میں جب بھی یہ مثال پڑھتی ہوں یعنی گوشت اور مٹھاء والی۔ ہنستی ہوں۔ انسان مٹھائ نہیں ہے۔ انسان ہے۔ اگر لوگ اس بات پہ اصرار کرتے ہیں کہ کواتین اور مرد بالکل الگ ہو جائیں اور انکو ایکدوسرے کے وجود کا بھی نہ پتہ چلے تو یہ ناممکن ہے۔ ایسا کرنے کی کوشش میں ایسے معاشرے وجود میں آتے ہیں جن میں مرد پوچھتے ہیں عورت جیسی مخلوق کی پیدائش کا مقصد کیا ہے۔
کیا خدا بھِ ایسا معاشرہ چاہتا ہے۔ آئیے ذرا سی اپنی عقل کو زحمت دیجئیے اس عقل کو جسے آپ زنگ لگا کر محفوظ رکھ رہے ہیں اور جسے کوئ استعمال کرنا چاہتا ہے تو اسے پڑھے لکھے اور سند یافتہ ہونے کے طعنے ملتے ہیں۔ اللہ نے عورتوں اور مردوں کے لئیے کوء دو الگ کتابیں نہیں اتاریں۔ ایک ہی کتاب ہے جسے الکتاب کہا گیا ہے۔ اس کتاب کو جب ہم پڑھتے ہیں تو اس میں خواتین اور مردوں کے بعض مساءل انتہائ تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں۔ اگر کوئ عرب بچہ اس کتاب کو چھ سات سال کی عمر میں پڑھتا ہے تو وہ بغیر کسی مشکل کے اسکے مطلب سمجھتا ہے۔
اب اگر خواتین اور مردوں کو ایکدوسرے سے اتنا ہی الگ کرنے کا حکم ہے تو پھر انکے لئیے ایک ہی کتاب میں اتنے نازک مسائل کو کیوں بیان کیا گیا ہے۔ اور اس پہ اصرار ہے کہ اپنے بچوں کو بھی یہ کتاب پڑھواءو آخر ایسا کیوں ہے۔
چونکہ اسلام نے عرب میں جنم لیا تو اسکے بہت سارے اصول عربی معاشرے سے متائثر ہیں اور نبی کریم کا زمانہ ء اسلام اس معاشرہ سے بہت زیادہ کھلا تھا جسکی آجکل تلقین کی جاتی ہے۔
اب اگر ہمارے بچوں کو عربی آتی ہو تو محض چح سات سال کی عمر میں انہیں ان مسائل پہ دسترس ہو گی جو ہم انہیں بتانا نہیں چاہتے۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے

نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔