Pages

12/31/2009

بلاگر ایوارڈ

اردو بلاگر نہایت معذرت کے ساتھ اپنی الگ دنیا بسا کے بیٹھے ہوئے ہیں ! جی ہاں الگ دنیا ! کم ہی دیکھنے میں آیا کہ انگریزی بلاگ (خاص کر پاکستانی) کی کسی تحریر کا حوالہ دیا گیا ہویا اس طرز کا کوئی اور کام! چند ایک ہی اردو بلاگر میرا خیال ہے انگریزی بلاگ دیکھتے یا پڑھتے ہیں! تبصرہ وہ بھی نہیں کرتے! انکل اجمل و نعمان کے علاوہ کون کون ہے جو انگریزی بلاگ اور اُس کیمونٹی پر نظر رکھتا ہے؟ ممکن کے عنیقہ ناز ہوں!!! اور کون ہے؟
اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ دونوں طرف کے لوگ الگ الگ اپنی اپنی مختلف سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں ہم اُن کو اور وہ ہمیں منہ نہیں لگاتے، یوں لگتا ہے دونوں ایک دوسرے کے وجود سے بے خبر بنے بیٹھے ہیں! یہ حقیقت ہے کہ ملک میں اردو ذیادہ بولی جاتی ہے مگر نیٹ پر پاکستانی بلاگر کمیونٹی میں انگریزی بلاگر کی تعداد بہت ذیادہ ہے۔ یوں نظر انداز کرنے کا میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہو کہ اردو بلاگرز کو ذیادہ نقصان ہوتا ہے جیسے اگر میں غلط نہیں تو پہلا بلاگ سیارہ جو کسی پاکستانی نے بنایا وہ اردو سیارہ تھا؟؟ اگر ہاں تو یہ کیا وجہ ہے کہ بلاگرز پی کے پہلا کہلاتا ہے؟ یوں اور بھی کچھ باتیں!!! ممکن ہے میں غلط ہوں۔
ہمیں ایک اجتماعی کوشش کرنی چاہئے کہ وہ ہمیں نظر انداز نہ کر سکیں! دلچسپ بات یہ کہ کراچی میں انگریزی و اردو بلاگر الگ الگ بہت ایکٹو ہیں! مگر کوئی مشترکہ پروگرام دونوں جانب سے نہیں کیا گیا! بلاگر کانفرنس میں بھی ہم (اردو) بلاگر نے بمشکل ایک میز پر قبصہ کیا تھا! بعد میں جن انگریزی بلاگر زنے اُس کانفرنس پر اپنے بلاگ پر اظہار رائے کیا تھا تو اکثر اردو بلاگنگ کی پریزنٹیشن کو بھول گئے تھے تبصرہ کر کے انہیں یاد کروانا پڑا تھا تو معذرت کے ساتھ انہوں نے بہر حال جگہ دی! یو ہی میں اپنی ذاتی دفتری مصروفیات کی وجہ آخری بلاگرز کانفرنس کے لئے رابطے نہ کر سکا البتی اپنے بلاگ پر آگاہ کر دیا تھا مگر کسی اور اردو بلاگرز میں سے اللہ کے بندے نے بھی شرکت نہ کی!
منظر نامہ نے یوں تو اپنا ایک سلسلہ شروع کیا ہے انعامات دینے کا اردو بلاگرز کو! مگر اگر آپ متوجہ ہوں تو ایک پاکستانی بلاگرز کا ایوارڈ یہاں بھی ہو رہا ہے شرکت کر لیں! وضاحت کر دوں کہ ابتدا میں وہاں بھی اردو بلاگرز کو نطر انداز کر دیا گیا تھا! پھر ایک جذباتی قسم کی میل ماری تو اب انہوں نے Topic Area Categories میںbest urdu blogger شامل کر لیا ہے! وہاں توجہ دیں تاکہ اگلی مرتبہ اردو بلاگر کو نظر انداز کیا جانا ممکن نہ رہے!
باقی آپ حضرات کی مرضی!!

12/29/2009

خود اپنے دشمن!

کراچی میں محرم کے مرکزی جلوس میں بم دھماکا ہو گیا! شہیدوں کی گنتی چار پانچ سے شروع ہو کر اب تک چالیس کے قریب تک پہنچ چکی ہے اور زخمی بھی ستر کے قریب ہیں!
اس عاشورہ کے جلوس میں شامل دوست کا فون آیا پہلے تو اُس نے مجھے گالیاں دی کہ خبیث میرا خیال تھا کہ تو میری خیریت کا پوچھے گا مگر تو بھی لعنتی ہے! پھر سے آگاہ کیا! اُس کا فون ختم ہونے کت بعد ہم نے دیگر دوستوں کو فون کر کے اُس کی خیریت دریافت کی سب اللہ کے کرم سے ٹھیک تھے، مگر چند ایک کے قریبی اس میں زخمی ہوئے تھے۔
ملک میں دہشت گردی کی ایک خاص لہر جاری ہے چند ایک مخصوص وجوہات کی بنا ء پر میں یہ سمجھتا تھا (اور اب بھی قائم ہوں) کراچی اس دہشت گردی کی لہر کا شکار نہیں ہو گا! مگر بہر حال کل کا المناک حملہ ہوا ہے، یہ کتنا خود کش تھا اور کتنا ہم نے خود بنا دیا ہمارے سامنے ہے! قوم متحد ہو تو کوئی لاکھ چاہئے اُسے مات نہیں دے سکتا مگر جب وہ ہجوم بن جائے تو کوئی بھی رہنما اس کی رہنمائی نہیں کرسکتا!
متحد قوموں کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ اپنے اندر موجود شرپسندوں کو خود قابو کر لیتی ہیں! مگر دوسری صورت میں شر پسند ہجوموں کو منتشر کر لیتے ہیں! اور تباہی کا سبب بنتے ہیں! بم حملے کے بعد کل بھی کچھ ایسا ہی ہوا!
واقف حال بتاتے ہیں کہ کل دوکانوں کو جلانے کا انداز بہت پیشہ ورانہ تھا اس میں اشتعال کا عنصر نظر نہیں آتا تھا دوکانوں کو جلانے کے لئے Potassium کا استعمال ہوا ہے نیز جلانے سے قبل اُس دوکانوں و دو بینکوں کو لوٹ لیا گیا تھا، مظلوم کربلا کے ماتم کرنے والوں نے ابتدا میں ان شرپسندوں کو روکا مگر بعد میں وہ پسپا ہوگئے۔
قریب ڈھائی ہزار دوکانیں جل کر خاکستر ہو گئی ایک مکمل معاشی بازار ختم ہوا! پہلے حملے میں اگر چالیس شہید ہوئے تھے تو رد عمل میں کتنے زندہ لاشیں بن چکے ہو گے؟ اگر اول دھماکے میں ستر زخمی ہوئے تھے تو ہجوم نے بعد میں کتنے خاندانوں کو معاشی طور پر لہو لہان کیا؟
اگر ایک دوکان ایک خاندان کی روزی کا سبب تھی تو بھی ڈھائی ہزار خاندان تو معاشی طور پر تباہ ہو گئے! صبح دوکاندار اپنی اپنی دوکانوں کے باہر اپنی تباہی پرآنسو بہا رہے رہے تھے!
ڈھائی ہزار دوکانیں اور پچس ارب کا نقصان خود اپنے ہاتھوں سے!
کوئی ہمارا دشمن کیوں نہ ہو جب ہم خود اپنے دشمن ہیں؟
ہم سے بڑا دہشت گرد اور کون ہو گا؟

12/27/2009

درباری خوشامدی

بڑوں سے سنا ہے دربار میں ان کی ضرورت نہیں ہوتی تھی ان کے بغیر کام چل سکتا تھا بلکہ بہتر طور کر کام چلتا، مگر یہ ہوتے ضرور تھے۔ مختلف شکلوں و روپ میں! یہ شاعر بھی ہوتے تھے، نثر نگار بھی، تاریخ دان بھی ، فنکار بھی، تخلیق کار بھی اور دیگر کرداروں میں بھی ہوتے تھے۔ دراصل یہ لوگ اس بات سے مکمل طور پر آگاہ ہوتے تھے کہ اگر سامنے والا یہ جان بھی لیں کہ ہمارا کہا سچ نہیں تو بھی فائدہ ہے کہ تعریف ایک ایسی برائی ہے کہ جس کی بھی کی جائے وہ اسے جھوٹا جان کر بھی پسند کرتا ہے۔ یہ حاکم کی تعریف کرنے کے لئے اپنا قد چھوٹا کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے، ان کا اولین مقصد بس خوشنودی حاصل کرنا ہوتا تھا!
بادشاہوں کا دور ختم ہوا اور جمہوریت نے قوموں میں اپنی جگہ بنائی مگر دربار اب بھی ہیں خوشامدیوں کی فراوانی ہے! یہ جگہ جگہ حاکم کا قد بڑھانے کے لئے اپنا قد مزید چھوٹا کرنے سے ہر گز نہیں کتراتے تازہ مثال ذیل میں ہے!




12/26/2009

انوکھی دعا!

آپ کو خوشیا ں اتنی ملیں جتنی مشرف کو گالیاں!
آپ کی زندگی سے غم ایسے ختم ہوں جیسے پاکستان سے آٹا!
خدا اپ کو ایسا صبر عطا کرے جیسا اُس نے ڈاکٹر قدیر صاحب کو دیا ہے۔
خدا آپ کی قسمت قابلیت کی غیر موجودگی میں بھی ایسے بدلے جیسے زرداری کی!
خدا آپ کی کمزوریوں کو یوں آپ کے دشمن سے اوجھل رکھے جیسے نواز شریف کی کرپشن عوام سے اوجھل ہے۔
خدا کرے آپ کے ساتھی آپ کے گناہوں کو ایسے ہی دوسروں کے کھاتے میں ڈالیں جیسے الطاف بھائی کے کرتوتوں پر اُن کے کارکن ڈالتے ہیں۔
اور آپ کی قدروقیمت سپریم کورٹ کے ججوں جیسی نہیں! بلکہ پیٹرول و ڈیزل جیسی ہو!!
امین


12/23/2009

اسلام فوبیا اور افغانستان جنگ

ذیل میں نیویارک یونیورسٹی میں دیپا کمار کا لیکچر جو انہوں نے "اسلام فوبیا اور افغانستان جنگ" کے موضوع پر دیا ہے اگر قت اجازت دے تو دیکھ لیں!