جی بجٹ آ چکا ہے!!!! عمر ایوب کی تقریر سن کر تو اتنا سمجھ نہیں آیا تھاجتنا پڑھ کر آیا ہے!!! مجھے ذاتی طور پر عمر ایوب سے یوں ہمدردی ہے کہ وہ الفاظ ’جناب اسپیکر‘ کی سینچری نہ کرسکے چار پانچ پیراگراف اور ہوتے تو انہیں مزید تین مرتبہ یہ الفاظ کہنے کا بہانہ مل جاتا اور یوں وہ ’جناب اسپیکر‘ سو مرتبہ کہنے کا شرف بھی حاصل کر لیتے!!!
حکومت کا دعوٰی ہے کہ بجٹ عوام دوست ہے اور اپوزیشن کی پوزیشن کچھ اور ہے!!! عوام کی کوئی پوزیشن ہی نہیں ہے!!! وہ نہ تو حکومت کی طرف ہے نہ اپوزیشن کے ساتھ!!!
عام آدمی کا بجٹ کم سے کم چار ہزار ماہانہ(پچھلے سال 2500 سے تین ہزار کیا تھا) رکھا گیا ہے اور اس کی آسانی کے لئے دالیں سستی کر دی گئی ہیں!!! اچھا؟؟ ماش کی دال کی قیمت کی نصف سینچری مکمل کروائی گئی ہے اور باقی کے حق میں دعا کی گئی ہے!!! وہ بھی جلد کر لیں گی!
عوام یا عام آدمی دوست بجٹ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ کیا حال ہے!!!! “ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو“ تمہاری دوستی ہی کافی ہے۔۔۔۔ کہتے ہیں ملک میں غربت کا تناسب کم ہوا ہے گزرے سالوں کے مقابلہ میں!! کافی غریب مار دیئے ہیں جو بچ گئے ان کا بھی کام کردیا جائے گا!!
اب آپ بیرون ملک سفر کرے گے تو اس پر 15 فیصد ٹیکس حکومت کو دیں گے! اگر آپ اندروں ملک سفر میں عیاشی کا موڈ کرتے ہوئے اس ٹرین میں بیٹھ جائے جس میں ایئرکنڈیشن لگا ہو تو ساڑھے بارہ فیصد اس میں حکومت کا حصہ ہوگا!! پانچ فیصد ٹیکس پیسے کے ٹرانسفرکرنے پر، آپ مالک مکان کو کرایہ دینے جاؤ تو اس پر بھی پانچ فیصد کے حساب سے ٹیکس حکومت کو دیں (مالک مکان اپنی جیب سے تو نہیں دے گا ٹیکس) ! آپ نے اگر کیبل کا کنیکشن لیا ہے تو اس پر بھی 25 روپے حکومت کو دینے کے لئے تیار رہے! پانچ فیصد ٹیکس بینک کی مہیا کردہ سہولتوں پر ! سنا ہے کہ اگر آپ کا پلاٹ 500 گز کے قیب ہے تو اس پر بھی کسی قسم کا ٹیکس لگے گا!!! یہ اور اس جیسے دوسرے ٹیکس اس لئے کہ حکومت اس سال 835 بلین روپے ٹیکس جمع کرنا ہے! ملک کی ایک فیصد (چند کا خیال ہے اشاریہ آٹھ فیصد) آبادی ٹیکس دیتی ہے اس میں 45 فیصد وہ جو تنخواہ دار ہیں اور ان کی تنخواہ میں سے ٹیکس تنخواہ ملنے سے پہلے ہی کاٹ لیا جاتا ہے! باقی 55 فیصد میں سے کون کون پورا ٹیکس دیتا ہے یہ ایک الگ بحث ہے!!! ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتی مگر کوشش یہ ہو رہی ہے کہ جو دے رہا ہے اسے ہی نچوڑوں “اسے چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا“!!۔
105 بلین روپے زر تلافی کے لئے رکھے گئے ہیں!!! ان میں 10 بلین پیڑولیم کی صنعت کے لئے! 720 ملین سیمنٹ کی صنعت کے لئے کہ فی بوری قیمت 280 تک رہے!! بارہ اشاریہ تین بلین کھاد کی مد میں!! دو اشاریہ پانچ بلین دالوں کے لئے!!
بجٹ پر طاہرانہ نظر
مکمل بجٹ
حکومت کا دعوٰی ہے کہ بجٹ عوام دوست ہے اور اپوزیشن کی پوزیشن کچھ اور ہے!!! عوام کی کوئی پوزیشن ہی نہیں ہے!!! وہ نہ تو حکومت کی طرف ہے نہ اپوزیشن کے ساتھ!!!
عام آدمی کا بجٹ کم سے کم چار ہزار ماہانہ(پچھلے سال 2500 سے تین ہزار کیا تھا) رکھا گیا ہے اور اس کی آسانی کے لئے دالیں سستی کر دی گئی ہیں!!! اچھا؟؟ ماش کی دال کی قیمت کی نصف سینچری مکمل کروائی گئی ہے اور باقی کے حق میں دعا کی گئی ہے!!! وہ بھی جلد کر لیں گی!
عوام یا عام آدمی دوست بجٹ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ کیا حال ہے!!!! “ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو“ تمہاری دوستی ہی کافی ہے۔۔۔۔ کہتے ہیں ملک میں غربت کا تناسب کم ہوا ہے گزرے سالوں کے مقابلہ میں!! کافی غریب مار دیئے ہیں جو بچ گئے ان کا بھی کام کردیا جائے گا!!
اب آپ بیرون ملک سفر کرے گے تو اس پر 15 فیصد ٹیکس حکومت کو دیں گے! اگر آپ اندروں ملک سفر میں عیاشی کا موڈ کرتے ہوئے اس ٹرین میں بیٹھ جائے جس میں ایئرکنڈیشن لگا ہو تو ساڑھے بارہ فیصد اس میں حکومت کا حصہ ہوگا!! پانچ فیصد ٹیکس پیسے کے ٹرانسفرکرنے پر، آپ مالک مکان کو کرایہ دینے جاؤ تو اس پر بھی پانچ فیصد کے حساب سے ٹیکس حکومت کو دیں (مالک مکان اپنی جیب سے تو نہیں دے گا ٹیکس) ! آپ نے اگر کیبل کا کنیکشن لیا ہے تو اس پر بھی 25 روپے حکومت کو دینے کے لئے تیار رہے! پانچ فیصد ٹیکس بینک کی مہیا کردہ سہولتوں پر ! سنا ہے کہ اگر آپ کا پلاٹ 500 گز کے قیب ہے تو اس پر بھی کسی قسم کا ٹیکس لگے گا!!! یہ اور اس جیسے دوسرے ٹیکس اس لئے کہ حکومت اس سال 835 بلین روپے ٹیکس جمع کرنا ہے! ملک کی ایک فیصد (چند کا خیال ہے اشاریہ آٹھ فیصد) آبادی ٹیکس دیتی ہے اس میں 45 فیصد وہ جو تنخواہ دار ہیں اور ان کی تنخواہ میں سے ٹیکس تنخواہ ملنے سے پہلے ہی کاٹ لیا جاتا ہے! باقی 55 فیصد میں سے کون کون پورا ٹیکس دیتا ہے یہ ایک الگ بحث ہے!!! ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتی مگر کوشش یہ ہو رہی ہے کہ جو دے رہا ہے اسے ہی نچوڑوں “اسے چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا“!!۔
105 بلین روپے زر تلافی کے لئے رکھے گئے ہیں!!! ان میں 10 بلین پیڑولیم کی صنعت کے لئے! 720 ملین سیمنٹ کی صنعت کے لئے کہ فی بوری قیمت 280 تک رہے!! بارہ اشاریہ تین بلین کھاد کی مد میں!! دو اشاریہ پانچ بلین دالوں کے لئے!!
بجٹ پر طاہرانہ نظر
مکمل بجٹ
0 تبصرے:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔