نا سمجھ؟ یا نہایت ذہین؟؟؟؟؟ کیا کہوں؟ ایک جماعت کے سربراہ ہیں۔۔۔۔۔ کیمرے کے سامنے! میڈیا کے روبرو! کب کس وقت کیا کہنا ہے؟ کیا اس سے نا واقف ہیں؟یہ واقعی سیاہ ست (جیسے ڈاکٹر افتخار صاحب سیاست کو کہتے ہیں) ہے! کہتے ہیں میں اسامہ سے مل چکا ہوں! وہ میری جماعت سے تعاون کرنا چاہتے تھے! میں نے نہ کر دی! نواز شریف کے حامی تھے اور بے نظیر کے مخالف؟ وہ پاکستانی سیاست میں کردار ادا کرنا چاہتے تھے؟ حد ہو گئی!!!!!!
یہ بیان کیا اثر لائے گا؟؟؟؟ مجھے یاد ہے توہین رسالت کے سلسے میں جس دن لاہور میں ہونے والا احتجاج ہنگامہ آرائی کی شکل اختیار کر گیا تھا اس سے اگلے دن پشاور میں بھی توڑ پھوڑ ہوئی تھی! تو سی این این میں ایشیا نیوز میں ایک تبصرہ نگار/تجزیہ نگار نے کہا تھا کہ یہ جو ہنگامہ کر رہے ہیں ناں یہ اپنے رسول (صلیٰ اللہ علیہ والہ وسلم) کی توہین کا غصہ نہیں اتار رہے بلکہ یہ تو وہ لوگ ہیں جو طالبان اور القاعدہ کے حامی اور ایجنٹ ہیں!!! اس بہانے سے اپنا رد عمل ظاہر کر رہے ہیں!!! کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ خود اپنی کمزوریاں دوسروں کو کیوں بتاتے ہیں!! مغرب کو کیوں بہانہ دیتے! اب یہ بیان “کوڈ“ کیا جائے گا کہ دیکھیں یہ جو بات کہی گئی تو اس کے علاوہ بھی نہ معلوم کیا کیا باتیں ہیں جو اب تک سامنے نہیں آئیں!
اہل مغرب ہر بات کو اس وقت افشاں کرتے ہیں جب اس سے انہیں کسی نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا اور ہم ہر کام ایسا کرتے ہیں کہ آ بیل مجھے مار۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قاضی صاحب آپ کے ماضی کا تو مجھے نہیں معلوم مگر حال میں آپ کا یہ حال کچھ اچھا نہیں ہے!!
2 تبصرے:
قاضی حسین احمد صاحب کی فلاسفی مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی مگر اُن کے اس انٹرویو کا پڑھ تو میں بوکھلا گیا تھا ۔
قاضی صاحب کو بندہ کیا کہے۔ ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں لیکن اس کے باوجود اس طرح کی بے تکی باتیں سمجھ سے بالا ہیں۔
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔