Pages

8/10/2013

کمرشلائز رمضان اور ڈسکو عید

کہتے ہیں اپنے شہر کے کسی گھر والے ایک دودھ والے سے لڑ رہے تھے کہ تو نے کل کیسا دودھ دیا جسے پی کر گھر کے سارے بچے و بڑے بیمار پڑ گئے تھے یوں خراب و ملاوٹ والا دودھ دے کر کیوں حرام کھاتے ہوں؟ گوالے نے معذرت کی کہ کل غلطی سے یاد نہ رہا اور میں آپ لوگوں کے گھر خالص دودھ دے گیا تھا! مستقبل میں یہ غلطی نہیں کروں گا! بات سادہ سی ہے یہ حال اب معاشرے کا ہے کہ خالص شے ہضم ہی نہیں ہوتی ہمیں ہر شے میں ملاوٹ درکار ہے خواہ خواہش خالص کی ہو۔
مذہب یقین شے نہیں مگر معاشرے کا رجحان بتاتا ہے کہ ہمیں دین اسلام کا خالص پن بھی تنگ کرتا ہے! ہمارے ایک دوست مقامی مسجد میں امام و خطیب تھے انہوں نے اپنی مسجد انتظامیہ سے کئی بار کہا کہ مجھے تنظیم کی دوسری مسجد میں بھیج دیا جائے مگر اُن کی خطابت (جمعہ کا خطبہ) کا علاقہ دیوانہ تھا لہذا انتظامیہ اُن کی درخواست کو ایک طرف کر دیتی لہذا اُنہوں نے اپنے ایک دوست سے اس سلسلےمشورہ کیاکیا کرو دوست نے مشورہ دیا کہ اپنی خوبی کو ہی خامی بنا لو علاقے میں ذیادہ تر بینک کے ملازمین رہتے ہیں لہذا اس جمعے کو "سود" کی "افادیت" پر روشنی ڈال دو پھر دیکھوکیا ہوتا ہے لہذا جب اُس نے اہل علاقہ پر اپنے زور خطابت کا ایسا اثر چھوڑا کہ ہفتے کی نماز فجر کی امامت وہ دوسری مسجد میں کر رہے تھے۔
یار لوگوں رمضان پر ہونے والے ٹی وی افطار پر نقطہ چینی اس انداز میں کرتے جیسے ملک کی اکثریت امریکی ویزہ کے لئے اپلائی کر کے امریکہ کو گالیاں دیتی ہےغصہ امریکہ کی پالیسی پر نہیں ویزہ نہ دینے پر ہوتا ہے۔ ہر کسی کو آمر کی لیاقت پر شبہ ہے مگر اُس کی کی گئی ملاوٹ سے سب ہی محظوظ ہوتے ہیں۔ یہ نئی نسل کے مولوی ہیں! اللہ کو مانتے ہیں مگر اللہ کی پوری طرح نہیں مانتے۔ جتنی مان سکتے ہیں اُس ہی کومکمل اسلام قرار دیتے ہیں۔
دونمبری کرتے ہیں! دونمبر ہیں! ایک نمبر اسلام کیسے اپنا سکتے ہیں؟ اور کیسے ایک نمبر اسلام والوں کو اپنائیں گے؟ ہماری نانی کا جب انتقال ہوا تو قیاس لگانے والوں نے کہا کہ بڑی نیک بندی تھی جس کا جنازہ "حافظ صابر علی" نے پڑھا! پوچھا یہ کون صاحب ہیں؟ کہنے لگے اللہ والے ہیں ۔ کہا کیا ثبوت؟ بتانے والے نے بتایا یہ کم ثبوت ہے کہ لوگ دل سے عزت کرتے ہیں! ہم نے کہا یہ کافی نہیں کوئی اور ثبوت! سامنے والا بولا گھر کی معاشی حالت اچھی نہیں ، اگر یہ بندہ چاہتا تو دین فروشی سے مال بنا سکتا تھا مگر ایسا نہیں کیا!خود کو پیر نہیں بناتا ورنہ لوگ مریدوں کی طرح چاہتے ہیں۔بات سن کردل نہیں مانا کہ جس کی بیٹیوں کا رشتہ لینے سے لوگ اس بناء پر راضی نہ ہوں کہ کچھ ذیادہ ہی نیک ہیں ایسی دیندار لڑکیوں کے ساتھ گزارہ کون کرے!! ایسے ایک نمبر بندے سے بندہ دور ہی اچھا ہے۔
رہبر کہہ گیا ہے میری امت کا فتنہ مال ہے! اُس کا کہا کیسے غلط ہو؟ ٹی وی پر مال بانٹا ہی مال بنانے واسطے بنایا جاتا ہے۔ یہ مال بانٹ پر مال بنانا ہی تو کمرشلزم ہے! رمضان تو کمرشلزم کی نظر ہوا ہی ہے مگر اس سے قبل ہی جو حال ہم نے عید کر دیا تھا کیا وہ دینی پیغامات کی مطابق تھا؟ نہیں ناں!! خرابی ایک دم نہیں آتی! مگر ابھی وقت ہی کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ خرابی ہے یوں اس کے دور ہونے کا امکان زندہ ہے کیا ہو جو یہ احساس بھی نہ رہے؟

4 تبصرے:

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے کہ

وکیل صاحب ۔ دین کا نام لینا والا اَن پڑھ سمجھا جانے لگا ہے اور اس پر عمل کرنے والے کو اگر دہشتگرد نہیں تو اِنتہاء پسند کہہ دیا جاتا ہے ۔ اگر کسی کو سمجھانے کی کوشش کی جائے تو جواب ملتا ہے ”کون سے زمانے کی بات کرتے ہو“۔ حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں ۔ سب کچھ سِنٹھَیٹِک ہو جائے گا ۔ کیا معلوم لوگ شادیاں بھی رَوبَوٹوں سے کرنے لگیں

Waseem Rana نے لکھا ہے کہ

واہ وکیل بھائی کیااعلی تصویر کشی کی ہے اپنے مسلمان معاشرے کی۔۔۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

بالکل ٹھیک عکاسی کرتی ہوئی تحریر۔

شہرخیال نے لکھا ہے کہ

جزاک اللہ گھمن صاحب- ہمیں حکم ہے "اسلام میں پورے کہ پورے داخل ہوجاو " لیکن ہم اپنی سہولت کا اسلام اپنالیتے ہیں
میڈیا بھی وہی دیکھا رہا جو لوگ دیکھنا چاہتے ہیں کمرشل اورفن کی آمیزش والے اسلامی پروگرام - ان پرتنقید سے بہتر ہے اپنی
اصلاح -

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے

نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔