Pages

5/23/2010

بائیکاٹ سے بندش تک

کہتے ہیں ایک بندہ پہلی بار سفر پر روانہ ہونے لگا تو خاندان کے بڑوں نے الگ الگ کچھ اس انداز میں اُسے نصیحتیں کی۔
ایک خاتون نے کہا ؛ بیٹا آج کل زمانہ بہت خراب ہے ، اپنے علاوہ کسی پر سفر میں بھروسہ کرنا بیوقوفی ہے، جو دیکھنے میں فرشتہ لگتا ہے وہ تو شیطان کا بھی با پ ہوتا ہے، لوگ معصوم معصوم چہرہ رکھ کر دھوکہ دے جاتے ہیں، اب تم اپنی خالہ کے بیٹے کو دیکھ لو پورے خاندان کا لاڈلا بچہ تھا نہایت ذہین و نونہال، اُس نے اسکالرشپ جیتی ہمارے دل کو بھی حوصلہ ہوا کہ چلو ایک ہی بچہ ہے زبید ہ کا شاید اس کے ذریعے ہی اُس کی کچھ قسمت بدل جائے، مگر ایئرپورٹ پر اُس کے پاس موجود بیگ سے ہیروئین نکل آئی اور پانچ سال کے لئے اندر ہو گیا، کسی خاتون نے اپنا بیگ بڑھاپے کے بہانے اُسے پکڑا دیا تھا۔ اپنے پچھلی گلی والے مرزا صاحب کا قصہ تو تمہیں یاد ہی ہو گا پچھلے ہفتہ گھر واپسی پر ایک خاتون کو لفٹ دی اور اگلے ناکے پر پولیس نے در لیا خاتون پولیس کو مطلوب تھی اور اُن کو اُس کا ساتھی سمجھ کر مقدمہ بنا دیا گیا آج کل ضمانت پر ہیں اور پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ نیکی کا زمانہ نہیں ہے بیٹا، نیکی ہی گلے کو آتی ہے۔ اب دیکھو ناں تمہاری بہن کی نند کے گھر کے گیٹ پر ایک بزرگ غش کھا کرگر گیا تھا پانی پلایا دوپہر کا وقت تھا گھر کے اندر بٹھایا اُس نے بیٹوں کو فون کرنے کے بہانے ساتھیوں کو بلا لیا اور لوٹ کر چلے گئے۔ لہذا کسی سے راستے میں کوئی ہمدردی یا دوستی کرنے کی ضرورت نہیں نہ کچھ لے کر کھانا وہ امجد بچا رے کا تو معلوم ہے ناں کراچی آتے ہوئے کسی لڑکے نے کچھ نشہ آور شے پلا کر لوٹ لیا تھا بچار ے نے ٹیکسی کا کرایہ بھی ساس سے لے کر دیا تھا، اچھا اپنا خیال رکھنا دوران سفر سکھ سے جاو۔
دوسرے صاحب نے کچھ یوں کہا؛ یار جوان آدمی ہو ، لمبے سفر پر جا رہے ہو، یار دوست کوئی ساتھ نہیں ورنہ دونوں ہنستے کھیلتے جاتے ہمیں بھی پریشانی کم ہوتی تمہاری، اب خود ہی اپنا خیال رکھنا ، انسان انسان کا وسیلہ ہوتا ہے ، ایک دوسرے کی اسے سدا ضرورت ہوتی ہے، سفر میں یہ ضرورت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ تمہیں بھی پڑے گی اور دوسرے تم سے مدد بھی مانگے گے۔ بچے اور بزرگ زیادہ مدد کے طالب ہوتے ہیں، بزرگوں کی دعاؤں کا جو موقعہ ملے لے لو ضائع نہ کرو اس کا صلہ دنیا و آخرت دونوں جگہ ملتا ہے۔ پھر نیکی کی نیکی۔ اللہ تمہارا حامیوں ناصر ہو۔
ایک نے کہا؛ بھائی آپ کو کیا سمجھانا نہایت سمجھ دار ہیں، عمر کے اُس حصے میں ہیں جب لوگ دوسرے کو سمجھ بوجھ دینا شروع کر دیتے ہیں ہمیں تم پر اعتماد ہے لیکن پھر بھی بڑا ہونے کے ناطے ہمارا فرض ہے کچھ نا کچھ تمہیں سفر کی ٹپس دیں دوران سفر آنکھیں کھلی رکھنا، اپنے سامان کی حفاظت کی پہلی ذمہ داری خود آپ کی اپنی ذات پر آتی ہے، کسی سے کچھ لے کر کھانے میں محتاط رویہ اختیار کرنا منع کرنا ہو ایسے کہ اُسے بھی محسوس نہ ہو، راہ میں خریداری کرتے وقت چوکنا رہنا کہیں کسی فراڈیئے کے ہاتھ نہ لگ جاو۔ جلد بھروسہ کرنے اور تمام سفر اپنے اردگرد سے بیگانہ رہنے سے بھی اجتناب کرنا اور منزل پر پہنچ کر فون کر کے اپنی خیریت سے آگاہ کرنا اور راستے میں بھی گاہے بگاہے ایس ایم ایس کر کے آگاہ کرتے رہنا۔
ایک بزرگ یوں گویا ہوئے؛ محترم ماشاءاللہ سفر پر جا رہے ہو، ہم بزرگوں کی باتیں آج کل کے تم نوجوان نظر انداز کر دیتے ہو، مگر ہم بھی اپنی عادت سے مجبور ہیں، تم جیسے نالائقوں کو کچھ نہ سمجھاؤ تو کچھ نہ کچھ غلط ہی کرتے ہو، اچھائی کی امید تو نہیں ہے یہ بھی یقین ہے جو ہم کہیں گے تم نے اُس پر عمل نہیں کرنا بلکہ اُس کا اُلٹ ہی کرو گے۔کسی نوجوان حسینہ کو دیکھ کر آپے سے باہر نہ ہو جانا کہ خاندان کا نام ڈبو ڈالو سفر آنکھ مٹکے کے لئے نہیں ہوتا سمجھے، کہ وہ تمہیں لوٹ کر یہ جا وہ جا، اور یہ جو سامان اور تحفے لے کر جا رہے ہو ناں اس کی حفاظت بھی کرنا کہ موبائل کے اندر مگن ہو جاؤ۔ ویسے تمہاری حرکتیں دیکھ کر نہیں لگتا کہ تم کوئی گُل گلائے بغیر ایک سفر کو بہ خوبی انجام تک پہنچا ؤ۔ ویسے ضرورت کیا ہے جانے کی بہتر ہیں یہاں ہی رہو، وہاں جا کر کرو گے کیا؟ ہم نے سنا ہے نکما ہر جگہ ہی نکما ہوتا ہے، تم بھی رہنے ہی دو وقت و پیسہ دونوں کی بربادی ہے محترم سن رہے ہو ناں میری بات!!!۔
ان میں سے کس کا مشورہ سب سے بہتر معلوم ہوتا ہے؟ ممکن ہے شاید کسی کا بھی نہیں! ممکن کوئی ایک یا دو سے آپ متعفق ہوں!! اور یہ بھی ممکن ہے ہر کوئی اپنے اپنے طور پر درست کہہ رہا ہو، بات کہنے کا انداز اہمیت رکھتا ۔ اوپر کی مثال میں چار افراد نے ایک شخص کو چار مختلف مشورے دیئے اور تمام کے مشورے ایک دوسرے کے مخالف مگر اگر انفرادی طور پر دیکھیں تو اپنی اپنی جگہ سب ہی سچے ہیں مگر نا معلوم کیوں فیس بک کی پابندی کے خلاف بولنے والوں کے اب تک کے کسی مکالمے نے مجھے متاثر نہیں کیا مجھے انفرادی طور پر متاثر نہیں کیا یا تو بات ٹھیک نہیں تھی یا انداز؟
ملک میں آج کل انٹرنیٹ پر کتاب چہرہ کی بندش زیر بحث، رونے والے کہتے ہیں اوئے پابندی کیوں لگائی؟ ساتھ میں چور راستے بتاتے ہیں استعمال کے! ہاں اس سارے جھگڑے میں یہ تو وضاحت اب ہو گئی کہ توہین رسالت پر ہمارا آپسی اختلاف کوئی نئی بات نہیں رہی! بس ہر بار دلائل بدل جاتے ہیں تاویل بدل جاتی ہے! ایک نہایت دلچسپ مکالمہ ہر بار کی طرح یہ سامنے آیا ہے کہ پابندی کو درست قرار دینے والوں کی اکثریت فیس بک سے ہی ناواقف ہے! اور دوسرا یہ کہ ہمارے ملک کی عدلیہ میں بیٹھے جج اس ٹیکنالوجی سے ناواقف و نالائق ہیں! ان خیالات کا اظہار کرنے والے کیا واقف ہیں کہ جج مقدمے کا فیصلہ یا اُس پر وقتی ریلیف کس طرح دیتا ہے؟ چلیں مختصر بتا دیتے ہیں۔
آپ کو جب بھی عدالت کا دروازہ کھکانہ ہو تو اول اپنا مدعا یعنی وہ معاملات عدالت کو بتانے ہوتے ہیں کہ کیا ہوا ہے؟ وجہ تنازعہ کیا ہے؟جس پر یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ آپ اس سے متاثر ہوئے ہیں! آخر میں یہ کہ آپ کی مانگ کیا ہے؟ نیز جو آپ کی مانگ ہے وہ ملکی قانون کے مطابق قابل عمل ہے۔ان میں سے ایک عنصر بھی جزوی یا مکمل طور پر غائب ہو یا دوران کیس ختم ہو جائے تو کیس ختم ہو جاتا ہے۔ ہائی کورٹ میں ایک کیس کی اگلی پیشی عموما 10 سے 17 دنوں میں آتی ہے۔
یہاں بھی یہ کوئی فائنل آڈر یا فیصلہ نہیں مزید کیس کی سماعت 31 مئی کو ہو گی! اگر کسی کو اس فیصلہ پر اعتراض ہے تو باہر رولا ڈالنے کے بجائے 31 مئی کو اپنے وکیل کے ہمراہ عدالت میں پیش ہو کر اپنا موقف پیش کرے۔ مزید یہ کہ ننانوے فیصد امکان ہے کہ 31 مئی کو بندش ہٹ جائے گی کہ غالب امکان ہے کہ وجہ تنازعہ ختم ہو چکا ہو گا! ۔
ملکی شہریوں کے مزاج کی روشنی میں میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہائی کورٹ یہ 19 مئی کا پابندی کا فیصلہ درست تھا ورنہ افراد نے بہت غصہ کھانا تھا! ہاں کوئی چاہئے تو کہہ لیں فیصلہ پنجاب کی عدالت نے دیا اس لئے پنجابی بول اُٹھا!!! ویسے میں پاکستانی مسلمان ہوں!
متعلقہ تحریریں؛
سزا، مانگ اور توقع عبث
کھلی چھٹی

11 تبصرے:

arifkarim نے لکھا ہے کہ

بیکار ملک بیکار لوگ

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے کہ

حقيقت يہ ہے کہ ہمارے ملک ميں سندوں کی بھرمار ہے اور عِلم مفقود ۔ لوگ روشن خيالی کے چکر ميں رہتے ہيں حقائق کی تلاش ميں نہيں ۔ يہ لوگ اسلام کو چودہ صدی پرانا کہہ کر اس کی تجديد کرنا چاہتے ہيں مگر بھول گئے ہيں جس نے ان کو پيدا کيا وہ سب کچھ جانتا ہے

میرا پاکستان نے لکھا ہے کہ

آپ کی بات تو درست ہے، پریس کانفرنس کرنے کی بجائے عدالت میں جائیں اور اپنا کیس لڑیں۔

DuFFeR - ڈفر نے لکھا ہے کہ

امید ہے لوگ سمجھنے کی کوشش کریں گے

فرخ نے لکھا ہے کہ

مسئلہ یہ بھی ہے کہ اسی فیس بک پر دینی صفحات کی تعداد اس ایک منحوس صفحہ کی نسبت بہت زیادہ تھی
اسی کے ساتھ ساتھ دیگر اچھی چیزیں جس میں دوستوں سے روابط، دینی اور ملکی صفحات پر ڈسکشنسز وغیرہ وغیرہ جو علم میں اضافے کا سبب بھی تھیں، اب اس ایک مسئلہ کی وجہ سے ہم سے چھن چکی ہیں۔

فیس بک کو بلاک کرنا اس مسئلہ کا حل نہیں ہے، بلک ایسے لوگوں کے خلاف کسی اچھی تکنیک کے ساتھ مقابلہ کرتے یا صرف اس غلط صفحے کو بند کرواتے

اچھی تکنیک میں ایک یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہم جواباً محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام اور صفات کو خوبصورت انداز میں ڈرا (ڈرائینگ اور کمپوز) کرتے اور اسی صفحے پر پوسٹ کرتے ڈھیروں کی تعداد میں اور انکے گھٹیا مذاق اور نفرت کے جواب میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے لوث محبت کا اظہار کرتے

Yasir نے لکھا ہے کہ

فیس بک سے پابندی ہٹانے کا کہنے والے بلاوجہ اتاولے ہوے جا رہے ہیں۔ انتظار تو کر لیں عدالت کے دوسرے فیصلے کا۔

جاویداقبال نے لکھا ہے کہ

السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
پابندی اچھی چیزہےکیونکہ ضرورت ایجادکی ماں ہے۔ ایک فیس بک کےبندہونےبیسیوں پاکستانی فیس بک کھل گئيں۔ہماری قوم توہےہی ایسی کہ پابندی کاتوڑکرنابہت اچھی طرح جانتی ہے۔

والسلام
جاویداقبال

محمداسد نے لکھا ہے کہ

آپ نے اچھا کیا کہ عدالتی کاروائی اور اس کے طریقہ کار کے حوالے سے بھی معاملہ کو واضح کردیا۔ ویسے تو کچھ لوگ تمام عدالتوں اور خصوصاَ لاہور ہائیکورٹ سے ویسے بھی بغض رکھتے ہیں۔ تو انہیں موقع مل گیا تھا کہ لگے ہاتھوں پرانے بدلے بھی چکالیں۔

ابوشامل نے لکھا ہے کہ

شعیب بھائی! مجھے بھی یہی لگ رہا ہے کیونکہ فیصلہ پنجاب کی عدالت نے کیا ہے، اس لیے وہ "متنازع" ضرور ٹھیرنا چاہیے، دوسری بعد آپ کی جانب سے پنجاب کی ایک عدالت کے فیصلے کی حمایت سے بھی تعصب کی بو آ رہی ہے :) :) :) ۔۔۔۔۔

Saad نے لکھا ہے کہ

السلام علیکم۔
فیس بک کی طرح جو ادارے یہاں پر اپنے ٹریفک کا مالی فائدہ اٹھاتے ہیں، کم از کم انہیں تو بائیکاٹ یا پابندی کے ذریعے مجبور کیا جا سکتا ہے اور کیا بھی جانا چاہیے۔ کچھ عرصہ پابندی برقرار رہے تو خود ہی ان کی عقل ٹھکانے آ جائے گی۔ ہمارا کیا ہے۔ ہم فیسبک کی آمد سے پہلے بھی گزارا کر لیا کرتے تھے اور اس کے بغیر بھی کر لیں گے۔
جہاں تک فیس بک کے ذریعے اپنے کاروبار کو بڑھانے کی بات ہے تو اس کے بھی کئی متبادل موجود ہیں۔
ایسے میں ان کو ذرا سی بھی رعایت دینا بے وقوفی ہوگا کیونکہ جب وہ دیکھیں گے کہ یہ لوگ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تو اور بھی بڑھتے جائیں گے۔

Saad نے لکھا ہے کہ

ویسے جس طریقے سے فیس بک نے اپنے معاہدے (سروس کی شرائط) کی خلاف ورزی کی ہے، اس پر بھی قانونی کارروائی ہو تو سکتی ہے۔ ہیں جی؟

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے

نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔