Pages

12/27/2006

مکالمہ

“ارے کچھ سنا! قائد کے مزار پر خواتین کیڈٹس گارڈ رکھی گئی ہیں“
“ہاں بھائی! چلو اچھا ہے“
“مگر میں اسے دوسری طرح دیکھتا ہوں“
“کس طرح؟“
“تم نے دیکھا ہو گا جب کبھی بل وغیرہ جمع کروانے کی قطار لگی ہو تو کچھ مرد حضرات یہ دیکھ کر کہ مردوں کی قطار لمبی اور خواتین کی قطار چھوٹی ہے تو گھر سہ اپنی ماں یا بہن یا بیوی یا بیٹی کو اس بنا پر کہ جلدی فارغ ہو جائیں گے لے آتے ہیں! جب وہ عورتوں کی قطار میں لگ کر بل جمع کروا رہی ہوتی ہیں تو یہ صاحب کسی دیوار کی چھاؤں میں کھڑے ہو کر یا تو سیگریٹ کے کش لگا رہے ہوتے ہیںیا کسی سے گپ“
“بات کچھ پلے نہیں پڑی!! کیا کہنا چاہ رہے ہو“
“بھائی وہ اپنے آرام کے لئے عورتوں کو گھر سے نکالتے ہیں یہاں بھی خود کو لبرل و روشن خیال ظاہر کرنے کے لئے عورت کو استعمال کیا جا رہا ہے“
“کیا بکواس ہے!! تم لوگ کیسی کیسی باتیں سوچتے رہتے ہو“

2 تبصرے:

گمنام نے لکھا ہے کہ

جن قوموں کے مرد سارے کام پر لگ گئے پھر بھی مزيد نفری کی ضرورت تھی تو عورتوں کو کام پر لگا ديا مگر جس ملک ميں اکثر بے شمار مرد جو کنبوں کے کفيل ہيں مارے مارے پھر رہے ہوں اور عورتيں صرف اپنے فيشن پورے کرنے کيلئے مستحق عورتوں کا حق مارتی ہيں اس کا کوئی کيا کہے ؟

گمنام نے لکھا ہے کہ

فرانس کے قانون میں عورت کا جسم فورشی جرم نہیں هے ـ بلکه قانون تحفظ دیتا هے که خود کو رجسٹرڈ کروا کر کام کرنے والی ٹیکس بهی ادا کرتي هیں اور رٹائیر منٹ کے بعد پنشن بهی لیتی هیں ـ
لیکن دلّا هونا جرم هے اور اس کی بڑی سخت سزا هے ـ
یعنی
آزاد خیال فرانس کا قانون عورتوں کو کام پر لگا کر خوش گپیں اور سگرٹ کے سوٹے لگانے والوں کو سزا کے لائق سمجهتا هے ـ

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے

نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔