ِیوں تو شرارت کرنا اچھی بات نہیں پھر ایسی جیسی میں نے کی۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو ہر گر ااچھی نہیں ہے مگر مجھے یقین ہے کہ میرا دوست اس کا برا نہیں مانے گا۔۔۔۔۔ یہ تصویر تب کی ہے جب میں نے نیا نیا فوٹو شاپ پر گھر میں وقت گزاری کے لئے شغل کے غرض سے کام کرنا شروع کیا تھا۔۔۔۔
اس وقت کی ایک تصویر تو یہ تھی جو میری اپنی ہے۔۔۔۔۔ اور دوسری یہ ٓآمنہ حق کی تصویر پر دوست کا چہرہ1/25/2006
سر کجھانے کی فرصت
مصروفیت!! یہ بھی جب ہو تو اس کے نہ ہونے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔۔۔۔۔ آج کل اللہ تعالی نے چھپڑ پھاڑ کر اسے ہمارے سر دے مارا ہے۔۔۔۔ چلو یہ تو ثابت ہوا کہ وہ جب بھی دیتا ہے جھولی بھر کے دیتا ہے چاہے مصروفیت ہی۔۔۔ کہتے ہیں ایسے میں سر کجھانے کی فرصت نہیں ہوتی۔۔۔ ویسے میری مصروفیت ایسی بھی نہ تھی کہ سر کجھانا ممکن نہ ہو۔۔۔۔مگر!۔۔۔۔۔ ہم سر کجھائیں گے نہیں ۔۔۔۔ کیونکہ یار لوگ کہیں یہ نہ سجمھ لیں کہ ہمارے سر میں جوئیں پڑ گئیں ہیں۔۔۔۔ ایسی بدنامی تو اچھی نہیں ہے نہ بھائی!۔۔۔۔ اگر یہ تہمت ہم پر لگ گئی تو بھلا کون ہم سے سر جوڑ کر باتیں کرے گا؟؟؟۔۔۔۔۔
دوسرا واراثتی طور پر بھی سر کے بال بھی بال بال بچتے ہیں ۔۔۔۔ یعنی ماتھا اصل سے بڑھ کر کچھ اور ہی اصل بن جاتا ہے۔۔۔ نہیں سمجھے کیا؟؟؟ ارے! جس سر پر کبھی بال ہی بال ہوتے ہیں وہ سر کئی بال کھو بیٹھتا ہے اور کچھ بال سر پر باقی بچ جاتے ہیں اور بندہ مکمل گنجا ہونے سے بال بال بچتا ہے۔۔۔۔۔ ابھی بال سے محروم ہونے کا سلسلہ شروع تو نہیں ہوا مگر ماضی (خاندان کے بزرگوں) کو دیکھ کر احتیاط لازم ہے۔۔۔۔لہذا فرصت میں بھی سر کجھانے سے اجتناب کرنا بہتر ہو۔۔۔ لہذا ہم ابن انشاء کی یہ بات فرصت کے وقت کہتے ہیں کہ اتنی فرصت ہے کہ سر کجھانے کی بھی فرصت نہیں۔۔۔
مصروفیت ایک کی وجہ وکلاء کے الیکشن تھے، سینئر ہمارے جنرل سیکرٹیری (یہ کوئی فوجی عہدہ نہیں) بن گئے ہیں، کراچی بار کے۔۔۔۔ دوسری وجہ دوست کی سلیکشن ہوئی تھی دولہے کی پوسٹ کے لئے اب اس نے چارج لیا ہے ۔۔۔ بھائی ان کی شادی تھی، بارات میرپور خاص(دوست کے لئے خاص وخاص) گئی، پورے تیرہ گھنٹے کی تقریب تھی دس گھنٹے کا سفر اور تین گھنٹے شادی حال میں۔۔۔۔
1/12/2006
شائد یہ۔۔۔۔۔۔۔۔
بعض قتل ایسے ہوتے ہیں جو قتل خطا کےذمرے میں آتے ہیں۔۔۔۔۔ یعنی آپ کا ارادہ نہیں تھا غلطی سے سرزد ہو گیا ہو گئی۔۔ جب خطا ہو تو اسے محسوس کرنا بھی اکثر ممکن نہیں رہتا۔۔۔ غلطی انفرادی سطح پر ہی نہیں ہوتی اجتماعی سطح پر بھی ہو جاتی ہے۔۔۔ نا معلوم،غیر محسوس،انجانے میں کوئی بھی اس کا حصہ بن سکتا ہے۔
منٰی میں بھگڈر بھی ایک اجتماعی خطا ہے، ایک اجتماعی قتل خطا!!!!۔ برداشت ہو، انتظار کرنے کا حوصلہ ہو، دوسرے کے حق کو پہچاننے کی سمجھ ہو، تو افراتفری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس واقعے میں (اب تک کی خبر کے مطابق) ٣٤٥ کے قریب حجاج شہید ہو چکے ہیں۔۔۔
٢٥ لاکھ کے قریب کا اجتماع لازمّا کافی بڑا ہوتا ہے، اسے قابو کرنا ممکن نہیں، اسے انتظامی غفلت کا نام دینا آسان ہے، مگر میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہو کہ اسے کسی حد تک اخلاقی تربیت کی کمی کہوں گا۔۔۔ یہ مسلمانوں کی سب سے بڑی عبادت ہے، اس کے ذریعہ ہم ایک خاص پیغام کہ ہم خواہ الگ ہوں ملکی لحاظ سے، ہم میں زبان کا فرق ہو، ہمارارنگ جدا ہو مگر اصل میں ایک ہیں، ایسے میں کوئی ایسا ایک حادثہ ہمارے اس پیغام کا تاثر تباہ کرنے کے لئے کافی ہے، آج کے اس میڈیا کے دور میں، جب خبر منٹوں میں پھیل جاتی ہو۔
ایسے حادثات سے بچنے کے لئے اگر چند ضروری اقدامات کرنے میں کسی قسم کی مذہبی رکاوٹ کا سامنا ہو تو اس سلسلے میں اجتہاد کا راستہ موجود ہے، جیسے حجاج کی تعداد کے بڑھنے کی وجہ سے منٰی کے موقعہ پر شیطان کو ٣ دن میں کنکریاں مارنے میں دشواری کا سامنا ہے کیوں کہ اس سلسلے میں مغرب سے پہلے یہ عمل کرنا بعض علماء کے نزدیک لازمی ہے تو اگر ممکن ہو تو مغرب کے بعد یعنی رات میں بھی اس سلسلے کو جاری رکھنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔۔۔۔ اگر کوئی شرعی قید نہ ہوتو ۔۔۔ باقی اللہ بہتر جانتا ہے
تاکہ حاجی کے ہاتھوں حاجی کا قتل خطا نہ ہو۔ خود اہل مسلم کا ایک غلط تاثر باقی دنیا کے سامنے نہ جائے۔
Technorati Tags: urdu, Stampede, stoningshaitans, deathinMina, hajj, اردو, حج1/10/2006
قربانی کی کھالیں
لیں! عید قربان آن پہنچی اور ساتھ ہی کھالوں کے امیدوار بھی۔ ورنہ۔۔۔آپ کی کھال تو ہے نا!
عید پر عیدی کیا؟؟؟ گوشت اور کھال!! ۔۔۔۔ اب آپ کس کے امیدوار ہیں؟؟ سارے فلاحی ادارے تو کھال مانگ رہے ہیں۔۔۔شکر ہے قربانی کے جانور کی کھال مانگی جاتی ہے ورنہ تو عوام کی کھال اتاری جاتی ہے ۔۔۔۔ عیدی و قرنانی دینے والے کا اپنا حصہ؟؟؟ ہڈیاں!!!۔۔۔۔۔ اور بس یہ لو کیا بھی بس ہے؟؟؟ ہمارے دوست ہیں کہتے ہیں کہ“ یار ٹھیک کہ اس عید کا اصل مقصد سُنت ابراہیمی کا پورا کرنا ہے اور دعا یہ کہ اللہ اس قربانی کو قبول کرے، مگر یہ کیا! خود قرنانی کرنے والے کا حصہ چھچھڑے یا پھر ہڈیوں کا سوپ اور گوشت اہل محلہ یا رشتہ دار لے جاتے ہیں باقی کچھ فقیر برادری!!!!! اور کھال یہ مدرسہ والے مانگ لیتے ہیں یہ دیر کردیں تو خدمت خلق یا الخدمت والے بتا دیتے ہیں کہ ہم لیں کر جائیں گے مانگتے بھی نہیں!!! “ ویسے مجھے ان سے اختلاف ہے کہ اہل محلہ اور رشتہ دار تو خود دینے بھی آتے ہیں اور غرین کو گوشت ملتا ہی اس عید پر ہے باقی معاملہ رہا کھال کا تو وہ تو ہوتی ہی اتارنے کے لئے ہے۔۔۔ اور جو چیز اتاری جائے اس کا نہیں بتاتے کیوں !!!۔۔۔ ویسے ہمارے یہ دوست ہیں کافی سمجھ دار ہیں وجہ!! بھائی ہڈیاں وہ دوسروں کو ڈالتے ہیں اور گوشت فریج میں۔۔۔۔ خیر جو ان کی مرضی ۔۔سانوں کی!
قربانی صرف جانور ہی کی نہیں ہوتی بلکہ اس کے مالک کی بھی ہوتی ہے پہلے جانور خریدنے کے لئے بجٹ بنانا پڑتا ہے پھر اس سے آگے کا سسلسہ ۔۔۔۔۔۔۔ خود قربانی کا جانور بڑا لاڈلا ہوتا ہے، جب تک ہوتا ہے، اُس کے ناز نکھرے اُٹھانے پڑتے ہیں،اُس کی صحت اور مزاج کا خیال رکھا جاتا ہے، پڑوس میں ایک مرتبہ بکرا اپنے لاڈ نہ آٹھائے جانے پر اس قدر برہم ہوا کہ عید سے ایک دن پہلے ہی قربان کرنا پڑا ۔۔۔۔ یوں اس نے عید تک بھی خیر نہ منائی اور چھری کے نیچے آگیا۔۔۔اب مجھے یہ نہیں معلوم اس نے یہ بتایا کہ نہیں کہ وہ بکرے کی ماں نہیں بلکہ بھائی ہے یا نہیں؟؟؟ مگر خیر ،خیر تو اس کے مالک کی بھی نہیں رہی اسے دوسرے بکرے کا انتظام کرنا پڑا عید والے دن!!! ان کا کہنا تھا اس بار تین قربانیاں ہوئیں ہیں ہمارے گھر دو بکروں کی اور ایک میری!!!!
عید تو اصل میں بچوں کی ہوتی ہے، کیونکہ وہ بچے رہتے ہیں پریشانی سے،ذمہ داری سے، کام سے اور اپنے سے بڑاں کی ڈانٹ سے کہ عید کا دن ہے اب کیا کہے ان کو۔۔۔ اور عیدی الگ!!! جب ہم چھوٹے تھے تو۔۔۔ جی جناب ہم بھی چھوٹے تھے قسم لے لیں!! ذیادہ پرانی بات نہیں ہے۔۔۔۔ تو عید ہوتی تھی اصل میں ہماری۔۔ عید قرناب پر سارا دن ایک جگہ سے دوسری جگہ جانوروں کو ذبح ہوتے دیکھنے جانا۔۔۔ جہاں کوئی اچھا (صحت مند) جانور ہوتا اس کی قربانی کو دیکھنے کا شوق ہوتا تھا ہمیں ۔۔۔ اس مقصد کے لئے ایک دن قبل ہی ہم دوست علاقے کا جائزہ لے کر بڑے جانور نوٹ کر لیتے تھے اب یہ باتیں یاد آتی ہیں تو حیرت ہوتی ہے یہ حرکتیں تھی ہماری؟؟؟؟۔۔۔۔ کمال ہے!!!
کھال سے بات بچپن پر چلی گئی ۔۔۔۔ واپس کھال میں آتے ہیں آپے سے باہر ہونا اچھی عادت نہیں۔۔۔
“جان کسے دو گے“
“اللہ کو“
“اچھا! ٹھیک ہے تو کھال مجھے دینا“
کیوں ٹھیک ہے نا! جان تو نہیں مانگی اس نے۔۔۔ اچھا آپ کھال کسے دیں گے؟؟؟؟
کھال جسے مرضی دیں اور گوشت چاہے کھالیں آپ بس میری طرف سے ایک بات۔۔۔۔ وہ کیا؟؟؟۔۔۔ پریشان مت ہو جان نہیں مانگ رہا!!!!!۔۔۔۔ وہ بات یہ ہے کہ
عید پر عیدی کیا؟؟؟ گوشت اور کھال!! ۔۔۔۔ اب آپ کس کے امیدوار ہیں؟؟ سارے فلاحی ادارے تو کھال مانگ رہے ہیں۔۔۔شکر ہے قربانی کے جانور کی کھال مانگی جاتی ہے ورنہ تو عوام کی کھال اتاری جاتی ہے ۔۔۔۔ عیدی و قرنانی دینے والے کا اپنا حصہ؟؟؟ ہڈیاں!!!۔۔۔۔۔ اور بس یہ لو کیا بھی بس ہے؟؟؟ ہمارے دوست ہیں کہتے ہیں کہ“ یار ٹھیک کہ اس عید کا اصل مقصد سُنت ابراہیمی کا پورا کرنا ہے اور دعا یہ کہ اللہ اس قربانی کو قبول کرے، مگر یہ کیا! خود قرنانی کرنے والے کا حصہ چھچھڑے یا پھر ہڈیوں کا سوپ اور گوشت اہل محلہ یا رشتہ دار لے جاتے ہیں باقی کچھ فقیر برادری!!!!! اور کھال یہ مدرسہ والے مانگ لیتے ہیں یہ دیر کردیں تو خدمت خلق یا الخدمت والے بتا دیتے ہیں کہ ہم لیں کر جائیں گے مانگتے بھی نہیں!!! “ ویسے مجھے ان سے اختلاف ہے کہ اہل محلہ اور رشتہ دار تو خود دینے بھی آتے ہیں اور غرین کو گوشت ملتا ہی اس عید پر ہے باقی معاملہ رہا کھال کا تو وہ تو ہوتی ہی اتارنے کے لئے ہے۔۔۔ اور جو چیز اتاری جائے اس کا نہیں بتاتے کیوں !!!۔۔۔ ویسے ہمارے یہ دوست ہیں کافی سمجھ دار ہیں وجہ!! بھائی ہڈیاں وہ دوسروں کو ڈالتے ہیں اور گوشت فریج میں۔۔۔۔ خیر جو ان کی مرضی ۔۔سانوں کی!
قربانی صرف جانور ہی کی نہیں ہوتی بلکہ اس کے مالک کی بھی ہوتی ہے پہلے جانور خریدنے کے لئے بجٹ بنانا پڑتا ہے پھر اس سے آگے کا سسلسہ ۔۔۔۔۔۔۔ خود قربانی کا جانور بڑا لاڈلا ہوتا ہے، جب تک ہوتا ہے، اُس کے ناز نکھرے اُٹھانے پڑتے ہیں،اُس کی صحت اور مزاج کا خیال رکھا جاتا ہے، پڑوس میں ایک مرتبہ بکرا اپنے لاڈ نہ آٹھائے جانے پر اس قدر برہم ہوا کہ عید سے ایک دن پہلے ہی قربان کرنا پڑا ۔۔۔۔ یوں اس نے عید تک بھی خیر نہ منائی اور چھری کے نیچے آگیا۔۔۔اب مجھے یہ نہیں معلوم اس نے یہ بتایا کہ نہیں کہ وہ بکرے کی ماں نہیں بلکہ بھائی ہے یا نہیں؟؟؟ مگر خیر ،خیر تو اس کے مالک کی بھی نہیں رہی اسے دوسرے بکرے کا انتظام کرنا پڑا عید والے دن!!! ان کا کہنا تھا اس بار تین قربانیاں ہوئیں ہیں ہمارے گھر دو بکروں کی اور ایک میری!!!!
عید تو اصل میں بچوں کی ہوتی ہے، کیونکہ وہ بچے رہتے ہیں پریشانی سے،ذمہ داری سے، کام سے اور اپنے سے بڑاں کی ڈانٹ سے کہ عید کا دن ہے اب کیا کہے ان کو۔۔۔ اور عیدی الگ!!! جب ہم چھوٹے تھے تو۔۔۔ جی جناب ہم بھی چھوٹے تھے قسم لے لیں!! ذیادہ پرانی بات نہیں ہے۔۔۔۔ تو عید ہوتی تھی اصل میں ہماری۔۔ عید قرناب پر سارا دن ایک جگہ سے دوسری جگہ جانوروں کو ذبح ہوتے دیکھنے جانا۔۔۔ جہاں کوئی اچھا (صحت مند) جانور ہوتا اس کی قربانی کو دیکھنے کا شوق ہوتا تھا ہمیں ۔۔۔ اس مقصد کے لئے ایک دن قبل ہی ہم دوست علاقے کا جائزہ لے کر بڑے جانور نوٹ کر لیتے تھے اب یہ باتیں یاد آتی ہیں تو حیرت ہوتی ہے یہ حرکتیں تھی ہماری؟؟؟؟۔۔۔۔ کمال ہے!!!
کھال سے بات بچپن پر چلی گئی ۔۔۔۔ واپس کھال میں آتے ہیں آپے سے باہر ہونا اچھی عادت نہیں۔۔۔
“جان کسے دو گے“
“اللہ کو“
“اچھا! ٹھیک ہے تو کھال مجھے دینا“
کیوں ٹھیک ہے نا! جان تو نہیں مانگی اس نے۔۔۔ اچھا آپ کھال کسے دیں گے؟؟؟؟
کھال جسے مرضی دیں اور گوشت چاہے کھالیں آپ بس میری طرف سے ایک بات۔۔۔۔ وہ کیا؟؟؟۔۔۔ پریشان مت ہو جان نہیں مانگ رہا!!!!!۔۔۔۔ وہ بات یہ ہے کہ
“عید مبارک ہو آپ کو“
1/09/2006
رات کے گپ اندھیرے میں
میں نے رونا چھوڑ دیا ہے
رات کے گپ اندھیروں میں
چاند کو تکنا چھوڑ دیا ہے
رات کے گپ اندھیروں میں
وہ جو ایک عادت تھی میری
تارو سے باتیں کرنے کی
چپکے چپکے بھیگی بھیگی
پلکوں سے موتی چونے کی
گھنٹوں گھنٹوں لیٹے لیٹے
گھڑی کی ٹک ٹک سننے کی
یہ کرنے کی وہ کرنے کی
جانے کتنے سال پرانی
وہ جو ایک عادت تھی میری
خود سے لڑتے رہنے کی
اپنے لئے نظمیں کہہ کہہ کر
دیواروں پر لکھنے کی
یہ بھی کرنا چھوڑ دیا تھا
رات کے گپ اندھیرے میں
کچھ دن گزرے
وہ پرانی عادت مجھ میں
پھر سے لوٹ آئی ہے
میں پھر سے باتیں کرنے لگی ہو
بھیگے موتی چننے لگی ہو
پھر سے خود سے لڑنے لگی ہو
پھر سے نظمیں لکھنے لگی ہو
پھر اس بار ایک عجب سا سناٹا چھایا ہے
اب میں خود سے ڈرنے لگی ہو
رات کے گپ اندھیرے میں
رات کے گپ اندھیروں میں
چاند کو تکنا چھوڑ دیا ہے
رات کے گپ اندھیروں میں
وہ جو ایک عادت تھی میری
تارو سے باتیں کرنے کی
چپکے چپکے بھیگی بھیگی
پلکوں سے موتی چونے کی
گھنٹوں گھنٹوں لیٹے لیٹے
گھڑی کی ٹک ٹک سننے کی
یہ کرنے کی وہ کرنے کی
جانے کتنے سال پرانی
وہ جو ایک عادت تھی میری
خود سے لڑتے رہنے کی
اپنے لئے نظمیں کہہ کہہ کر
دیواروں پر لکھنے کی
یہ بھی کرنا چھوڑ دیا تھا
رات کے گپ اندھیرے میں
کچھ دن گزرے
وہ پرانی عادت مجھ میں
پھر سے لوٹ آئی ہے
میں پھر سے باتیں کرنے لگی ہو
بھیگے موتی چننے لگی ہو
پھر سے خود سے لڑنے لگی ہو
پھر سے نظمیں لکھنے لگی ہو
پھر اس بار ایک عجب سا سناٹا چھایا ہے
اب میں خود سے ڈرنے لگی ہو
رات کے گپ اندھیرے میں
1/05/2006
تازہ ُتک بندی
چراغ کے بجھ جانے سے
اجالے سمٹ جانے سے
اندھیرا پھیل جانے سے
زندگی روٹھا نہیں کرتی
موت آیا نہیں کرتی
غم کے دلدل میں
آنسوں کے بھنور میں
سسکیوں کے جھرمٹ میں
زندگی روٹھا نہیں کرتی
موت آیا نہیں کرتی
بھیڑ کے چھٹ جانے پر
اپنوں کے بچھڑ جانے پر
تنہا رہ جانے پر
زندگی روٹھا نہیں کرتی
موت آیا نہیں کرتی
مگر درد سے نا آشنائی ہو
اندر بے حسی کی پرچھائی ہو
سانس تو چلتی رہتی ہے
موت تب بھی نہیں آتی
پر زندگی زندگی نہیں رہتی
اجالے سمٹ جانے سے
اندھیرا پھیل جانے سے
زندگی روٹھا نہیں کرتی
موت آیا نہیں کرتی
غم کے دلدل میں
آنسوں کے بھنور میں
سسکیوں کے جھرمٹ میں
زندگی روٹھا نہیں کرتی
موت آیا نہیں کرتی
بھیڑ کے چھٹ جانے پر
اپنوں کے بچھڑ جانے پر
تنہا رہ جانے پر
زندگی روٹھا نہیں کرتی
موت آیا نہیں کرتی
مگر درد سے نا آشنائی ہو
اندر بے حسی کی پرچھائی ہو
سانس تو چلتی رہتی ہے
موت تب بھی نہیں آتی
پر زندگی زندگی نہیں رہتی