Pages

1/12/2006

شائد یہ۔۔۔۔۔۔۔۔

بعض قتل ایسے ہوتے ہیں جو قتل خطا کےذمرے میں آتے ہیں۔۔۔۔۔ یعنی آپ کا ارادہ نہیں تھا غلطی سے سرزد ہو گیا ہو گئی۔۔ جب خطا ہو تو اسے محسوس کرنا بھی اکثر ممکن نہیں رہتا۔۔۔ غلطی انفرادی سطح پر ہی نہیں ہوتی اجتماعی سطح پر بھی ہو جاتی ہے۔۔۔ نا معلوم،غیر محسوس،انجانے میں کوئی بھی اس کا حصہ بن سکتا ہے۔ منٰی میں بھگڈر بھی ایک اجتماعی خطا ہے، ایک اجتماعی قتل خطا!!!!۔ برداشت ہو، انتظار کرنے کا حوصلہ ہو، دوسرے کے حق کو پہچاننے کی سمجھ ہو، تو افراتفری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس واقعے میں (اب تک کی خبر کے مطابق) ٣٤٥ کے قریب حجاج شہید ہو چکے ہیں۔۔۔ ٢٥ لاکھ کے قریب کا اجتماع لازمّا کافی بڑا ہوتا ہے، اسے قابو کرنا ممکن نہیں، اسے انتظامی غفلت کا نام دینا آسان ہے، مگر میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہو کہ اسے کسی حد تک اخلاقی تربیت کی کمی کہوں گا۔۔۔ یہ مسلمانوں کی سب سے بڑی عبادت ہے، اس کے ذریعہ ہم ایک خاص پیغام کہ ہم خواہ الگ ہوں ملکی لحاظ سے، ہم میں زبان کا فرق ہو، ہمارارنگ جدا ہو مگر اصل میں ایک ہیں، ایسے میں کوئی ایسا ایک حادثہ ہمارے اس پیغام کا تاثر تباہ کرنے کے لئے کافی ہے، آج کے اس میڈیا کے دور میں، جب خبر منٹوں میں پھیل جاتی ہو۔ ایسے حادثات سے بچنے کے لئے اگر چند ضروری اقدامات کرنے میں کسی قسم کی مذہبی رکاوٹ کا سامنا ہو تو اس سلسلے میں اجتہاد کا راستہ موجود ہے، جیسے حجاج کی تعداد کے بڑھنے کی وجہ سے منٰی کے موقعہ پر شیطان کو ٣ دن میں کنکریاں مارنے میں دشواری کا سامنا ہے کیوں کہ اس سلسلے میں مغرب سے پہلے یہ عمل کرنا بعض علماء کے نزدیک لازمی ہے تو اگر ممکن ہو تو مغرب کے بعد یعنی رات میں بھی اس سلسلے کو جاری رکھنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔۔۔۔ اگر کوئی شرعی قید نہ ہوتو ۔۔۔ باقی اللہ بہتر جانتا ہے تاکہ حاجی کے ہاتھوں حاجی کا قتل خطا نہ ہو۔ خود اہل مسلم کا ایک غلط تاثر باقی دنیا کے سامنے نہ جائے۔
Technorati Tags: , , , , , ,

3 تبصرے:

گمنام نے لکھا ہے کہ

ھم تو سعودی حکومت کو موردالزام ٹھرائیں گے جنہوں نے حج کو محض ایک کاروبار سمجھ رکھا ہے۔ سعودی حکومت کو اتنے ہی حجاج کو حج کی اجازت دینی چاہیے جتنے کا وہ بندوبست کرسکتی ہے۔

گمنام نے لکھا ہے کہ

http://www.mypakistan.com/?p=164
پر اس بارے چند اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے۔

گمنام نے لکھا ہے کہ

مجھے لگتا ھیکہ سعودی حکومت سے ذیادہ وہ حجّاج ذمّہ دار ھیں، جو اس بھگدڑ میں بچ گئے۔
میرا یہ مفروضہ لوگوں کے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی وہی کرنے کے رویّے پر مبنی ھے۔
لوگ حد سے ذیادہ سامان لے جانے، قطار توڑ کر اپنا کام نکالنے وغیرہ کے عادی ھوتے ھیں۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے

نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔