جنیوا میں ڈونرز ممالک نے 58 کروڑ ڈالر امداد دینے کا وعدہ کیا ہے اور عالمی بینک نے بھی 20 کروڑ کا عارضی قرضی دینے کا وعدہ کیا ہے زلزلہ زدگان کی امداد کے لئے۔۔۔ یہ بات میں نے بڑی خوشی سے اپنے دوست کو بتائی تو وہ کہنے لگا بس “لارا“ ہے اور کیا ہے اور اگر دے بھی دیں تو احسان کی جتائے گے۔۔۔۔۔ میں کہا “وہ تمہاری امداد کر رہے ہیں اس مشکل وقت میں اور تم نکھرے کر رہے ہو ہمیں ان کی امداد کی ضرورت بھی ہے ہمارا ملک تیسری دنیا کا ایک غریب ملک ہے، ایک ترقی پزیر ملک، جس کی سلانہ آمدن تقریبا 13.45 بلین ڈالر ہے جس کے سلانہ مصارف 16.51 بلین ڈالر ہو یوں جس ملک کے بجٹ کا خسارہ 3 بلین ڈالر ہو اسے اچانک 5 بلین ڈالر کا نقصان ہو جائے جس ملک میں کئی لوگ یا تو ناگہانی آفت سے ہلاک ہو جائے یا زخمی یا معذور اس کے لئے ایسی امداد کافی ہے بلکہ ہمیں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ انہوں نے ہماری مدد کی“۔۔۔۔۔مسکرا کر کہنے لگا“ شکر گزار۔۔۔ہوں!۔۔۔۔تم نے ان کے آگے انسانیت کے نام پر کشکول کیا۔۔۔ دامن پھیلایا اور ان لوگوں نے دیئے 1 بلین ڈالر اب تک ۔۔۔جن میں نصف تو دی بھی نہیں بس وعدہ ہے۔۔۔ “
مجھے اس پر بہت غصہ آیا میں نے کہا “ تم ہر بات کا غلط رخ دیکھتے ہو“ وہ صاحب کہنے لگے“ تم ہی ٹھیک راستہ دیکھ لو۔۔ایک رپورٹ کے مظابق 1998ء یہ تمہارا امریکہ جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تمہیں اپنا پاٹنر کہتا ہے اس کے شہریوں نے سالانہ 8 بلین ڈالر تو میک اپ پر خرچ کر ڈالے ،یہ اہل یورپ 11 بلین ڈالر کی تو صرف آئس کریم کھا گئے، اہل امریکہ اور یورپ نے 17 بلین ڈالر کی پرفیوم خرچ کی، جاپان نے 35 بلین ڈالر انٹر ٹینمنٹ پر لگائے، 50 بلین ڈالر کے اہل یورپ نے صرف سگریٹ پھونک ڈالے، یورپ والے 105 بلین ڈالر کی شراب پی کر مست ہوئے، اس دنیا نے 400 بلین ڈالر کی منشیات استعمال کی اور 780 بلین ڈالر اسلحہ پر لگا دیئے اب 2005ء میں اس میں کافی اضافہ ہو گیا ہو گا مثلا اگر 1994ء میں امریکیوں نے اپنے پالتو جانوروں پر 17بلین ڈالر خرچ کئے تو 96ء میں یہ رقم 21بلین ڈالر ہو گئی 99ء میں 23 بلین تک جا پہنچی،2001ء میں 28.5 بلین ڈالر اور 2003ء میں 32.4بلین ڈالر ان امریکیوں نے اپنے جم اور ٹم پر خرچ کئے“۔۔۔۔۔میں نے اس کی طرف گھور کر دیکھا اور کہا“ تو! تم اب کیا چاہتے ہوں کہ وہ اب کیا کرے جتنے انہوں نے تمہیں دے دیئے ہیں اس کے علاوہ کیا اب وہ اپنا پیٹ کاٹ کر دیں کیا۔۔۔۔ویسے بھی ہم خود اپنا خرچہ کم کر رے ہیں اپنے ان بھائیوں کی مدد کے لئے“ اس نے سینے پر ہوتھ باندھے اور اپنے سیدھے ہاتھ سے اپنی ٹھوڈی کو پر کر بولا“ میں تو یہ کہہ رہا ہو کہ اگر وہ دینا چاہے تو ان اخراجات میں سے رقم نکال کر دے سکتے ہیں میں نے ان کے ان خرچوں کی بات نہیں کی جو لازمی ہیں اور دوسرا تم نے کون سے خرچے کم کر دیئے ہیں؟؟“ میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا“بھائی! میری مراد اپنے حکمرانوں اور لیڈروں سے ہے۔۔۔۔ اب دیکھوں نا انہوں نے اپنی ایک ایک ماہ کی تنخواہ پوری کی پوری (ذرا زور دے کر) ریلیف فنڈ میں جمع کروادی۔۔۔ اس کے علاوہ بھی وہ متاثرین کی خیریت معلوم کرنے ۔۔۔ان کی حوصلہ افزائی۔۔۔ان کا دکھ بانٹنے۔۔۔۔ان کے آنسو پونچنے۔۔۔کے لئے ان کے درمیاں ہوتے ہیں“ وہ مسکرایا(مجھے یوں لگا جیسے وہ میرا مذاق اڑا رہا ہو)۔۔“ کہنے لگا یہ تمہارے لیڈر جو ان متاثرین کے پاس جاتے ہیں ان کا مقصد مدد کرنا نہیں مدد لینا ہوتا ہے۔۔۔یہ میڈیا سے اس موقعہ پر مدد لیتے ہیں اپنی تشہیر کی ۔۔۔ یہ دکھ نہیں بانٹتے یہ آنسو نہیں صاف کرتے یہ تو اپنی فلم بناتے ہیں یہ اگر امداد کرے تو خبر لگاتے ہیں اتنی امداد دی کسی اور نے دی کیا۔۔۔ان کی امداد اخباری بیانات اور تصاویر پر مشتمل ہو تی ہے۔۔۔یہ تو امداد میں دیئے گئے کفن پر بھی اپنے نام کے ٹھپے لگاتے ہیں۔۔“ میں نے آہستگی سے کہا “اور وہ پوری تنخواہ“۔۔۔ کہنے لگا“ اس کی بھی خوب کہی ۔۔۔ اگر مجھ سے پوچھوں تو میں تو کہتا ہو کہ یہ تنخواہ خود لے لیتے مگر یہ جو انہیں مختلف مراعات کی مد میں جو رقم ملتی ہے وہ ریلیف فنڈ میں جمع کروا دیتے۔۔۔تنخواہ کتنی ہے ان کی یہ ہی کوئی 35 سے 50 ہزار نا بس! مگر ان کو مہینے کے آخر میں رقم ملتی ہے کو 7سے8 لاکھ یا اس سے کچھ ذیادہ ۔۔۔یہ کیا ہے جی یہ گھر کی سجاوٹ کی مد میں ہے کوئی ڈیڑھ لاکھ تک یہ کیا ہے جی یہ ٹریول الاؤنس ہے یہ کیا ہے جی یہ فلاں الاونس اور یہ فلاں۔۔۔اگر یہ دیتے تو بات تھی مگر یہ اس ملک کے 50 ارب روپے حکومت چلانے کے نام پر خود پر تو خرچ کرسکتے ہیں مگر امداد میں بس اپنی تنخواہ دہتے ہیں نہ مراعات کی مد میں ملنے والی رقم نہ کمیشن “۔۔۔۔میں نے اس سے پوچھا تو کیا اس ملک کے عوام نے بھی کیا مدد نہیں کی اپنے ان متاثرین بھائیوں کی۔۔۔۔“ اس نے ایک لمبی سانس لی اور کہا “ہاں! کی ہے ۔۔۔ اس ملک کی غریب عوام نے ہی تو مدد کی ہے۔۔۔ان ہی کی تو امداد پہنچی ہے۔۔۔۔اس ملک کے ان ڈھائی فیصد نے نہیں کی جو ملک کے 98 فیصد پر قابض ہیں۔۔۔جو ملک کے 160 ارب روپے کھا گئے جو 10ارب روپے کی غیر ملکی شراب پینے ہیں سالانہ، جو27ارب روپے جوئے میں ہار جاتے ہیں،ہر سال 5ارب سے کچھ ذیادہ مجروں،ریچھ کی لڑائیوں،کتا ریسوں، اور بٹیربازیوں جیسی خرافات میں خرچ کرتے ہیں، جو ہر سال 40 کروڑ کی نئی گاڑیاں لیتے ہیں،2 کروڑ کا تمباکو پیتے ہیں،انہیں نے نہیں دی امداد۔۔۔۔اگر دی بھی تو صرف اتنی جو ان کے ایک یا دو دن کے خرچے جتنی ہو ۔۔۔وہ بھی خبر لگوا کر“۔۔۔۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور کہا“ تمہیں تنقید کی بیماری ہو گئی ہے بھائی! اپنا علاج کرواں“۔۔۔۔یہ سنتے ہی وہ بھڑک اٹھا“ تم اسے تنقید کہتے ہو،تم اسے بیماری کہتے ہو،تمہیں اس میں میرا دکھ نظر نہیں آتا“ میں ے کہا “ہاں یہ تنقید ہے ۔۔۔۔ تنقید۔۔۔۔اور بس۔۔۔خومخواہ کی نقطہ چینی“ اور یہ کہتے ہوئے اٹھا اس سے ہاتھ ملایا اور گھر کی طرف چل پڑا۔۔۔وہ پیچھے سے کہنے لگا یہ تنقید نہیں یہ دکھ ہے۔۔۔۔یہ واویلا ہے۔۔۔۔یہ حق کی آواز ہے۔۔۔۔۔
مجھے منہاجین کا جملہ یاد آ گیا جو اس نے محفل میں کئی جگہ پر لکھا ہے “لکھ دیا ہے تا کہ سند رہے“
(کچھ حوالوں کی تصدیق یہاں(1,2,3) سے ہو جائے گی باقی اخباری رپوٹوں اور مختلف کالموں سے مستعار لیئے ہیں ان کے لنک فراہم کرنا ممکن نہیں کیونکہ وہ نیٹ پر نہیں ملے)
10/28/2005
10/21/2005
بونوں کا دیس
رفیع الدین احمد 1970ء میں اقوام متحدہ میں ملازم ہوئے اور 29 سال کی خدمات کے بعد 1999ء میں ریٹائر ہو گئے۔زندگی کے ان قیمتی برسوں میں وہ متعدد کلیدی عہدوں پر فائر رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے حکومت سے درخواست کی کہ اگر انہیں نیویارک کے پاکستانی مشن میں ایک میز اور ایک کرسی دے دی جائے تو وہ پاکستان کے لئے بلا معاوضہ کام کرنے کو تیار ہیں۔ یہ درخواست اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر احمد کمال کے ذریعے اس دور کے کے سیکرٹری خارجہ شمشاداحمد کے حضور پہنچی ، سیکرٹری خارجہ نے شکریہ کے ساتھ یہ درخواست مسترد کردی۔ چند ہی روز بعد اقوام متحدہ کے انتہائی اہم ادارے “یواین آئی ایف ای ایم“ کے اہڈوائزر اور ولڈٹورازم آرگنائزیشن کے نمائندے بھی منتخب ہو گئے، 2003ء کا اپریل آیا تو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے انہیں رفیع الدین احمد کو عراق کے لئے خصوصی مشیر چن لیا، یہ عہدہ لمحہ موجود میں اقوام متحدہ کی سب سے اہم پوزیشن ہے۔
جناب رفیع الدین احمد کی مثال نے ایک بار پھر ثابت کردیا،ارض پاک کو حقیقا اچھے، قابل اور مخلض لوگوں کی ضرورت نہیں۔ ہماری 55 سالہ تاریخ ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی کی گوہ ہے۔1961ء میں ایوب خان نے ملکی قوانین کو شریعت کے قالب میں ڈھالنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت پوری دنیا میں دع بڑے مسلم دانشور تھے، ایک جناب پرفیسر حمیداللہ اور دوسرے ڈاکٹر فضل الرحمن۔ پروفیسر صاحب پیرس میں مقیم تھےاور ڈاکٹر صاحب کینڈا کی میکگل یونیورسٹی سے وابستہ تھے۔ ایوب خان نے دونوں سکالروں کو پاکستان بلانے کا فیصلہ کیا۔ یہ فریضہ فرزند اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال کو سونپا گیا۔ جاوید اقبال دسمبر 1961ء میں کینیڈا اور پیرس گئے، پروفیسر حمیداللہ نے فورا انکار کردیا، پروفیسر صاحب کا کہبا تھا “میں حیدرآباد سے نکلا تو سیدھا پاکستان گیا لیکن پاکستان کی یونیورسٹیوں کے باسیوں نے مجھے وہاں آباد نہیں ہونے دیا جبکہ ڈکٹر فضل الرحمن نے یہ درخواست قبول کرلی۔ ایوب خان نے انہیں اسلامی نظریاتی کونسل کا سربراہ دیا لیکن مقامی علماء نے ان کے خلاف فتوٰی جاری کرنا شروع کردیئے، وہ دلبرداشتہ ہو کر واپس چلے گئے جہاں انہیں شکاگو یونیورسٹی نے قبول کر لیا اور وہیں انتقال فرما گئے آپ ڈاکٹر عبدالسلام کو لیجئے، ڈاکٹر صاحب نے 1951ء میں گورنمنٹ کالج جوائن کیا، وہ کوئی سنجیدہ کام کرنا چاہتے تھے، انہوں نے انتظامیہ سے درخواست کی“میں سنجیدہ کام کرنا چاہتا ہوں“۔ کالج انتظامیہ نے انہیں فٹبال ٹیم کا کوچ بنادیا۔ انہوں نے کچھ عرصہ بعد دوبارہ درخواست دی تو انہیں ہاسٹل کے وارڈن کی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں ، وہ 1954ء میں ملک چھوڑ کر چکے گئے۔ انہیں امپریل کالج لندن نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور تھیورٹیکل فزکس کا سربراہ بنا دیا۔ وہاں سے وہ اٹلی گئے اٹلی کی حکومت نے ٹریسٹ میں ان کے نام سے ایک لیبارٹری بنائی، انہیں 1979ء میں بوبل پرائز ملا، معروف مصور گل جی ان سے ملنے گئے، پاکستان کا ذکر آیا تو ڈاکٹر صاحب کھڑے ہو گئے اور گل جی کو سینے سے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے۔ انہیں عمر بھر یہ شکوہ رہا پوری دنیا انہیں ہیرو مانتی ہے لیکن اہل وطن کی نظر میں وہ کافر ہیں۔
بھارت کے موجودہ صدر ڈاکٹر عبدلکلام 1972,73ء میں ہالینڈ سے پاکستان آئے، وہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں نوکری کے خوہاں تھے، کمیشن نے انہیں “نالائق“ قرار دے کر مسترد کر دیا۔ چھ ماہ پاکستان رہنے کے بعد وہ واپس لوٹ گئے۔ وہ ہالینڈ سے بھارت گئے، بھارت نے انہیں میزائل پروگرام میں نوکری دے دی، انہوں نے بھارت کو نہ صرف ایٹمی طاقت بنادیا بلکہ اسے میزائل ٹیکنالوجی میں بھی عالمی طاقتوں کے برابر کھڑا کیا۔ خود ڈاکٹر عبدالقدیر جب پہلی بار پاکستان آئے تو سوٹ، ٹائی اور بوٹ والے بابوؤں نے انہیں مسترد کردیا تھا۔ یہ تو اچھا ہوا ذوالفقار علی بھٹو انہیں واپس کھینچ لائے، ورنہ آج ہم بھارت کا اک پسماندہ صوبہ بن کر زندگی گزار رہے ہوتے۔
یہ کیا ہے؟ ایسا کیوں ہے پوری دینا اپنے ٹیلنٹ کی قدر کرتی ہے، وہاں تو یورپ کے تین سرمایہ دار ملک کارل مارکس کو اپنا شہری قرار دے کر فرضی قبریں بنا لیتے ہیں چارچار سو سال بعد ناسڑاڈیمس کی ہڈیاں نکال واپس فرانس لائی جاتی ہیں، روسوکوڈیگال فرانس قرار دے دیتا ہے لیکن ہمیں دیکھئے ڈاکٹرعبدالسلام، ڈاکٹرفضل الرحٰمن، پروفیسر حمیداللہ، ڈاکٹر عبدلکلام یا پھر رفیع الدین احمد ہمارے پاس ایسے لوگوں کی گنجائش نہیں، ہم لوگ کیا بنتے جا رہے ہیں۔ مجھے طفیل نیازی مرحوم کی بات رہ رہ کر یاد آتی ہے، مرحوم کہا کرتے تھے ہم واہگہ عبور کرتے ہیں تو بھگوان ہوتے ہیں واپس آتے ہیں تو لوگ مہیں کنجر کہتے ہیں۔ آخر ہم ہیں کیا! طفیل نیازی مرحوم کو یہ بات پوری زندگی سمجھ نہ آئی۔ فنکار تھا سمجھ نھی کیسے سکتا تھا ایسی باتیں سمجھنے کے لئے انسان کو بیوپاری ہونا چاہئے اور بیوپار یہ کہتا ہے بونوں کے دیس میں بونے خود کو بلند قامت ثابت کرنے کے لئے ہر لمبے شخض کے پاؤں کاٹ دیتے ہیں۔ ہم اس ملک کو بونوں کا دیس بناتے چلے جا رہے ہیں، اگر ہم نے پاؤں کاٹنے کا یہ سلسلہ بند نہ کیا تو یقین کیجئے عالم چناؤں کا یہ ملک کوڈوؤں کی چھوٹی سی بستی بن کر رہ جائے گا ایسی جس کا آسمان بھی دس فٹ اونچا ہو گا۔
تحریر؛ جاوید چوہدری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اقتباس؛ زیرو پوئنٹ2
10/17/2005
آسمانی آفت آئی تھی یا جاری ہے؟؟؟؟
سائینس دان یہ تو بتا سکتے ہیں کہ زلزلہ آیااس کی وجہ کیا تھی؟ اس کی طاقت کتنی ہے؟ قیاس لگا سکتے ہیں کہ پہلے آنے والے زلزلہ کے بعد مزید آئیں گے یا نہیں مگر سائینس نہ تو پیشگی ان کے بارے میں آگاہ کرسکتی ہے نہ نہ آنے سے روک سکتی ہے۔۔۔بس اتنی ہی طاقت ہے سائینس میں؟ جہاں قدرت چاہتی ہے اسے شکست دے دیتی ہے۔
مگر! قدرت ایسا کرتی کیوں ہے؟؟ کوئی کہتا ہے آزمائش ہے،کسی نے کہا آزمائش نیکوں کی ہوتی ہے ہم کون سے نیک ہیں بھٹکے ہوئے ہیں لہذا تنبہہ ہے کہ سدھر جاؤ ، بعض کی رائے ہے کہ تنبہہ اس قدر تباہ کن نہیں ہوتی یہ تو عذاب ہے عذاب کا سلسلہ شروع۔۔۔یہ تو اللہ ہی جانتا ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ جو اس کی رضا۔۔۔یہ امتحان ہے یا کسی کردہ یا نا کردہ گناہ کی سزا۔۔۔۔۔ یا محض حادثہ؟؟؟
سائینس کہتی ہے کہ یہ میگا تھرسٹ زلزلہ تھا زمین کی ایک پرت نے دوسری پرت کے نیچے آ کر شدید رگڑ پیدا کی۔۔۔۔
بیس ہزار مربع کلومیٹر پر آنے والی اس قیامت نے سرکاری اعداد شمار کے مطابق چالیس ہزار افراد نگل لیئے غیر سرکاری گنتی و اندازے کے مطابق یہ تعداد لاکھ سے دو لاکھ کے درمیان ہے، عبدلستارایدھی کا کہنا ہے کہ جان بحق ہونے والے افراد کی تعداد تین لاکھ کے لگ بھگ ہے بیز پچاس ہزار افراد کو وہ سپرد خاک کر چکے ہیں۔۔۔زخمی ہونے والے افراد کی بھی ایک بڑی تعداد ہے۔۔۔ذیادہ تر افراد کے سر پر چوٹ آئی یا جسم میں کئی نا کئی فرکچر آیا ہے،اب ساری عمر یہ آنے والے زخم ان کے جسم پر اس زلزلہ کی نشانی کے طور پر ساتھ رہیں گے۔۔۔سینتیس لاکھ سے چالیس لاکھ تک افراد اس زلزلہ سے متاثر ہوئے۔۔
کئی علاقوں میں نوے سے سو فیصد تک عمارتیں ملبے میں تبدیل ہو گئیں، شہر کھنڈر بن گئے۔۔کھنڈر سے کیا نکلتا ہے؟؟لاشیں! سو وہ ہی نکلی۔۔۔معجزہ بھی ہوئے زندہ جسم بھی باہر آئے مگر اندر سے مر چکے تھے۔۔۔کسی کی ماں نہ رہی کوئی یتیم ہو گیا کبھی کوئی “ست بھرائی“ تھی مگر اب اس کا کوئی بھائی نہیں رہا صاحب اولاد بے اولاد ہیں اب!۔۔۔۔۔۔ گیارہ منٹوں میں آنے والے چار جھٹکوں نے سب کچھ بدل دیا اور اگلے دو دن آنے والے ایک سو ساٹھ جھٹکوں نے نمک پاشی کا کام کیا۔۔۔۔۔۔مگر! سچی بات ہے ان لوگوں کا حوصلہ بھی قابل دید تھا۔۔۔دوسرے کا دکھ ایک کو اپنے سے بڑا معلوم ہوتا یہ ہی اس کے کئے صبر کا باعث تھا کہ مجھ پر تو کم پہاڑ گرے ہیں دکھ کے۔۔۔۔
بچے قوموں کا مستقبل کہلاتے ہیں۔۔۔ اس آفت آسمانی میں سب سے ذیادہ یہ ہی متاثر ہوئے۔۔۔جان بحق ہونے والے افراد میں نصف تعداد ان کی ہے۔ اسکول کی عمارتوں میں ان کی بڑی تعداد زندہ دفن ہوئی۔۔۔ اب مردہ باہر آرہی ہے۔۔۔گڑھی حبیب اللہ سے چھ سو بچیاں، بالاکوٹ کے شاہین میموریل سکول سے چار سو بچے۔۔ ایک نسل جو نہیں رہی۔۔۔جو زندہ ہیں وہ خوف کا شکار ، نفسیاتی مریض!
تباہ شدہ علاقوں میں ،ان بے حال لوگوں کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئی۔۔۔ سرد موسم کا آغاز۔۔۔بارش کی بے رحمی ۔۔ برف باری ۔۔۔ اور اوپر آسمان اور نیچے زمین ۔۔۔ خیمہ اور کمبل کے منتظر ۔۔۔۔ناگہانی آفت ابھی جاری ہے ختم نہیں ہوئی!۔
10/15/2005
The blogging generation
THE news from our ICM poll that a third of young people online have launched their own blog or personal website may come as a surprise to many older people only dimly aware of what blogging is all about.
It is the latest example of the transforming effects of the information revolution that are leaving very few activities unaffected. Blogging simply involves setting up a site on the internet where you can “blog” your views together with photographs and invite comments from friends or interested people anywhere in the world, as long as they are online.
It takes only a few minutes to set up a site with one of numerous free programmes available on the web. Michael Howard was quite right in his valedictory speech to yesterday’s Tory conference to say of the new generation: “Their youth has been shaped by the internet and the iPod, by cheap flights and mobile phones.”
And not only youth. Blogging is now a mainstream activity for politicians, economists and, increasingly, corporations, plus the army of bloggers around the world who call governments and companies to account with instant rebuttals and who are setting up heir own form of “citizens’ journalism” to provide a grassroots alternative to what is perceived as the corporate-driven agenda of many media organisations.
Blogging in turn is only a small part of the digital revolution that has provided practically everyone in the industrialised world who wants one with a mobile phone that is itself cannibalising other gizmos such as cameras, music players, radios and 50 other functions.
From cars that know where they are located to robot vacuum cleaners, and from internet shopping to playing online games with millions of others around the world, the digital revolution is sweeping all before it. Above all - thanks to search engines such as Google and Yahoo - there is free access (after paying a monthly fee to a service provider) to practically anything you want to know about anything.
The limiting factor on acquiring knowledge these days is not being rich but whether you have the inclination to search for it or not. There are, of course, dangers — from inadequate monitoring of what children are doing to the avalanche of junk mail and pornography that assails users.
—The Guardian, London
امداد اور۔۔۔۔۔
زمین کیا لرزی قیامت آ گئی، گھر قبر بن گئے۔گھر کی چھت اور فرش کے درمیان بس گھر کے مکین ہی فاصلے کا سبب تھے۔۔۔ زمین کی تھرتھراہٹ سے جہاں اس میں دڑاڑیں پڑی وہاں ہی پاکستانی قوم کی بظاہر نظر آنے والی دڑاڑیں (فاصلے)ختم ہو گئی۔۔۔زمین کا ہر بار کانپنا دوریوں کو کم کرنے کا سبب بنا۔۔ لوگوں نے اپنے ان مصیبت ذدہ بھائیوں کی مدد میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔۔۔ اہل کراچی نے کمال کردیا۔۔۔ یہاں پی اے ایف میوزیم میں امدادی سامان کا ڈیر لگا ہوا ہے ۔۔۔پی ایف بیس فیصل سے روزانہ تین (C130) سامان لے کر چکلالہ ائیر بیس جاتے ہیں سامان کی ترسیل کے لئے جہازوں کی ہی تعداد کم ہے۔۔۔ کراچی کے مختلف علاقوں سے نوجوان سامان پیک کرنے کے لئے(فری میں) یہاں آ جاتے ہیں ۔۔ یوں ایک ساتھ کام کرنے سے چند نئے اچھے دوست مل جاتے ہیں۔۔۔۔خود ایدھی والوں کا کہنا ہے کہ کراچی سے انہیں قریب پانچ سو ٹرک کے قریب امدادی سامان ملا ہے اس کے علاوہ مختلف سماجی اور سیاسی تنظیموں کی طرف سے دی گئی امداد الگ ہے۔۔شہر میں چند مفاد پرست بھی ہیں۔۔چند لوگ تشہیر کے لئے امدامی اقم دے رہئ ہیں اور کئی نیک دل نام بتائے بغیر(ایک صاحب نے پانچ کروڑ کی رقم نام ظاہر نہ کرنے کی شرط کے ساتھ دی)۔۔پرسوں اصل سے ذیادہ کرایہ مانگنے والے کئی ٹرک ڈرائیور حضرات کی پٹائی کی گئی۔۔معلوم ہوتا ہے ادویات اور دوسرے امدادی سامان کی قیمتیں بڑھانے والے افراد کا بھی یہ ہی حال کرنا پڑے گا۔۔۔۔۔ساتھ ہی ایک شک دل میں آتا ہے کہ ہم جو یہ سامان جمع کر کے دے رہے ہیں نہ معلوم ان ضرورت مندوں تک پہنچ پائے گا کہ نہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
10/13/2005
10/12/2005
10/10/2005
دردآشنا
زلزلہ مختلف کالم نگاروں کی نظر میں۔
عذاب سے پہلے عذاب
جب زمین مختلف شدت کے ساتھ ہلا دے جائے گی
رات ہے قیامت کی۔۔۔۔
کیا اکتوبر کا مہینہ پاکستان پر بھاری ہے
آزمائش امتحان یا مہلت
کوئی مانے یا نہ مانے
غم اور عزم
اس کے علاوہ اردو بلاگر کی یہ تحریریں بھی
یہاں جو بات قابل غور ہے ہر فرد زلزلے کے متاثرین کے لئے پریشان ہے نیز ان کی مدد کر رہا ہے جہاں تک اس سے ممکن ہو رہا ہے اور دوسروں کو اس کی نہ صرف تلقین کر رہا ہے بلکہ راستہ بھی بتا رہا ہے ۔۔۔۔۔ہم سب درد آشنا ہیں۔۔ہم سب اس مشکل کی گھڑی میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے ہیں۔۔۔اللہ ہماری مدد کرے اور رحم فرمائے۔۔۔آمین!۔
10/08/2005
10/06/2005
یہ کیا پوسٹ ہے؟؟؟؟
انٹر نیشنل مارکیٹ میں خام تیل کی قیمیت ٦٥-٦٦ ڈالر فی بیرل (میری اطلاع کے مطابق ممکن ہے درست نہ ہو) ہے اس کے ٹرانسپوٹیشن کے اخراجات ٣٠ سینٹ فی بیرل ہے۔۔چلے آپ دو ملا کر یوں کہہ لے کہ پاکستان کی سرحد پر آتے آتے خام مال ٦٧ ڈالے کا ایک بیرل پڑتا ہے۔۔۔ایک بیرل میں ٤٢ گیلنز ہو نے ہیں اور ٤٢ گیلن ١٥٩ لیٹر کے برابر ہے یو ایک لیٹر خام تیل پڑا کتنے کا پڑا ذرا حساب لگائے۔۔۔اس کی صفائی پر کتنا خرچہ ہو گا۔۔اس میں سے مٹی کا تیل ،ڈیزل ،گریس بھی پیڑول کے ساتھ نکلے گی۔۔۔ وہ بھی فروخت ہو گی ۔۔۔ پھر۔۔۔۔؟؟؟؟؟
×××××××××××××
اب ذرا ان لنک کا وزٹ کرے (اگر وقت ہو تو)۔
10/03/2005
تجربہ
Shoiab Safdar LOVES Urdu Blogger |
12012 3213 534 87 |
Love Level: 87% |
How to make a Shoiab Safdar |
Ingredients: 1 part intelligence 1 part courage 3 parts ego |
Method: Layer ingredientes in a shot glass. Top it off with a sprinkle of caring and enjoy! |
بس یہ معلوم کرنے کے لئے کہ کوئی گانا کیسے بلاگ پر ڈالتے ہیں