کراچی میں ایک بستی ہے اعظم بستی، ہمارے تایا ابو پہلے وہاں آباد تھے ۔ ہم بچپن میں جب بھی وہاں جاتےتو عموما دو چار دن اُن کے گھر پر رہتے تھے۔ اُن کے پڑوس میں میں ایک گھر تھا جس میں ایک بابا رہتا تھا جس نے بے تحاشا کبوتر رکھے تھے اور کبوتروں کے لئے ایک پنجرہ بنا رکھا تھا اور اُس پنجرے کو اُس نے مزید کئی پنجروں میں یوں تقسیم کیا ہوا تھا کہ ہر حصہ ایک الگ پنجرہ ہی معلوم ہوتا اُس بابے کا نام تو ہم نہیں جانتے مگر اُس سے ہماری دوستی ہو گئی تھی۔ بابے نے ممکن ہے کبوتر شوق سے رکھیں ہوں مگر وہ کبوتروں کی خرید و فروخت کا بھی کام کرتا تھا۔ایک دن دوران گفتگو ہم نے بابے سے کہا کہ آپ ان کبوتروں کوان چھوٹے پنجروں میں کیوں رکھا ہوا ہے یہ پرندہ کھلے آسمان میں اچھا لگتا ہے یہ ڈربے ہیں بھی گندے ، بابے نے جواب دیا میں نے انہیں یہاں ان کبوتروں کو ان کی اپنی بھلائی کو نہیں رکھابلکہ یہ قید ی ہیں میرے ،مجھے ان سے نہیں ان کی افزائش نسل میں دلچسپی ہے، یہ جتنی تعداد میں ہوں گے اتنی ہی میری روزی روٹی بڑھے گی، یہ ڈربے میں ہی اچھے ہیں کھلا آسمان ممکن ہے ان کے لئے اچھا ہو مگر ان کا یہ اچھا میرے لئے برا ہو گا۔
آج شام گلستان جوہر میں ایک چائے کے ہوٹل پر دوستوں کے ساتھ بیٹھے فلیٹ کی زندگی پر بات کرتے فلیٹ کو ڈربہ سے تشبی دینے پر مجھے یہ بات یاد آ گئی۔
نہ اپنی زمین نہ اپنا آسمان چلتی سانس کو زندگی سمجھنے والے ہم لوگ، خواہشوں کی دوڑ میں اپنے لئے کیا اچھا ہے اُسے بھول کر ہم کسی اور کے فائدے کے کام تو نہیں آ رہے؟
آج شام گلستان جوہر میں ایک چائے کے ہوٹل پر دوستوں کے ساتھ بیٹھے فلیٹ کی زندگی پر بات کرتے فلیٹ کو ڈربہ سے تشبی دینے پر مجھے یہ بات یاد آ گئی۔
نہ اپنی زمین نہ اپنا آسمان چلتی سانس کو زندگی سمجھنے والے ہم لوگ، خواہشوں کی دوڑ میں اپنے لئے کیا اچھا ہے اُسے بھول کر ہم کسی اور کے فائدے کے کام تو نہیں آ رہے؟