Pages

3/11/2012

مانگے کا عذاب

ہمارے معاشرے میں ذاتی دشمنیاں پالنا ایک روایت سے بن گئی ہے! زندگی کا کوئی شعبہ و رشتہ دیکھ لیں یہ عام سے بات ہے لوگ انا و ضد کے تحت دشمنی پیدا کرتے ہیں اور اُسے زندہ رکھتے ہیں!


دنیا پوری سے ہٹ پر یہ صرف جنوبی ایشیاء کے باسیوں کی روش ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف جھوٹی مقدمے بازی کی جائے! اور مخالف کو عدالتوں کے چکر لگوائے جائے! یوں اس ضد و انا کی جنگ میں دوسرے کو معاشی نقصان پہنچانے کی خواہش میں خود اپنا معاشی قتل کرنا بھی لازم ٹہرا!


عدالتی طریقہ کار کے تحت عدالت ہر کیس میں پیش ہونے والے گواہ سے گواہی کے پیش کرنے سے قبل “حلف” لیتی ہے کہ میں جو کچھ کہو گا سچ کہو گا! قانون حلف کے تحت گواہ کٹہرے میں کھڑا ہونے کے بعد اپنے مذہبی عقیدے کے تحت کلمہ پڑتا ہے یعنی مسلمان کلمہ طیبہ پڑھے گا، عیسائی اپنے یسوع مسیح کی قسم لے گا اور اسی طرح دیگر مذاہب کے افراد اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق مذہبی کلمات ادا کرت ہیں اُس کے بعد یہ الفاظ “میں خدا کو حاضر ناضر جان کر کہتا ہوں جو کچھ کہو گا سچ کہو گا اگر میں جھوٹ بولو تو مجھ پر خدا کا عذاب و قہر نازل ہو” اور پھر پیش ہونے والے گواہان میں عموما قریب اسی فیصد افراد اپنے بیان میں جھوٹ کی ملاوٹ کرتے ہیں! اور دیئے گئے بیان میں بولے گئے جھوٹ پر قائم رہنے کو جرح کے دوران جھوٹ پر جھوٹ بولتے جاتے ہیں اور مانگے گئے عذاب کو بڑھاتے جاتے ہیں!


ان سب کے باوجود کئی ایسے بندے موجود ہیں جو کٹہرے میں منت سماجت کے باوجود بھی جھوٹ نہیں بولتے! خواہ انہیں اپنے بیان سے خود کس قدر ہی دنیاوی نقصان کیوں نہ ہو!


عدالت میں جھوٹ بولنے والے اکثریت افراد “تعلیم یافتہ” افراد کی فہرست میں آتے ہیں جبکہ کہ عموما قسم کھا کر جھوٹ نہ بولنے والے دنیاوی تعریف کے اعتبار سے “ان پڑھ و جاہل” کی تعریف میں اترنے والے افراد ہوتے ہیں تب ذہن میں یہ خیال ضرور آتا ہے کہ یہ بگاڑ تعلیم کی وجہ سے ہے یا گھر کی تربیت کی وجہ سے یا وہ ماحول جو ہمارے تعلیمی درس گاہوں میں دنیاوی کامیابی تک کامیابی کے تصور کو مقید کرنے کی بناء پر ہوا ہے؟

4 تبصرے:

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے کہ

شعیب صفدر صاحب ۔ آپ کا نقطہ نظر تو مبصر نے ثابت کر دیا ہے ۔ جب جامعات میں پڑھانے والے اُستاذ ایسے ہوں گے تو طلباء کیسے ہوں گے

راشد کامران نے لکھا ہے کہ

میں قطعا آپ کے مشاہدے کو غلط قرار دینے کی کوشش نہیں کروں گا لیکن آخری پیرا سے ایک ابہام یہ پیدا ہوگیا ہے کہ کیا واقعی تعلیم کو اس بگاڑ کا سزاوار ٹہرانا چاہیے یا نہیں؟ عمومی مشاہدہ تو یہ کہ بددیانتی تعلیم یافتگی سے راست متناسب نہیں۔
میں، آپ اور اس بلاگ کے اکثر قارئین اسی تعلیمی نظام کی پیداوار ہیں۔ کیا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بغیر اس تعلیم کے ہم اس وقت زیادہ ایماندار یا بہتر میعار زندگی رکھ سکتے تھے؟ کیا ہم یہ پسند کریں گے کہ ہمارے بچے اسی تعلیمی سلسلے سے نا گزریں تاکہ وہ زیادہ ایماندار ہوسکیں؟

Shoiab Safdar Ghumman نے لکھا ہے کہ

محترم راشد کامران یہ دیکھنے میں آیا ہے ان پڑھ و نا خواندہ افراد کی جہالت انہیں ایک خاص طرح کے خوف میں مبتلا رکھتی ہے!! اس نظام تنظیم کے سب سے بڑی خرابی اس کا تدریسی مواد نہیں بلکہ اس میں ذاتی طور پر موجودہ معلم کا اخلاقہ میعار ہے!۔
میں ذاتی سطح پر یہ خیال کرتا ہوں کہ استاد معاشی لالچ و اخلاقی کمزوری کی بنائ پر ایک اچھا معاشرہ بنانے میں ناکام ہو رہا ہے۔ اور چونکہ وہ نظام تعلیم کا بنیادی حصہ ہے اس بناء پر نشانے کی زد میں تدریسی نظام بھی آ جاتا ہے!۔
مگر اس سب باتوں کے ساتھ ساتھ میں ناخواندگی کو ہر گز پسند نہیں کرتا!۔

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے کہ

راشد کامران صاحب نے نقطہ درست اُٹھایا ہے جس کا شاید سبب یہ ہے کہ راشد کامران صاحب آج 15 سال قبل پاکستان میں تعلیم سے فارغ ہوئے ہوں گے ۔ آئے دن ایسے واقعات پیش آتے ہیں جن کے بعد ردِ عمل یہی ہوتا ہے کہ تعلیم نے ان لوگوں کا کچھ نہیں بگاڑا ۔ ایک واقع جو آج ہی پونے پانچ بجے بعد دوپہر پیش آیا ہے رقم کرتا ہوں ۔ میں ایف 8 مرکز میں کچھ اشیاء جریدنے گیا تھا ۔ وہاں سے باہر کوہستان روڈ کی طرف لکنے لگا تو کوہستان روڈ پر جس سڑک پر میں تھا اُس کے سامنے ایک کار کھڑی تھی جس میں لاؤنج سوٹ میں ملبوس ایک پڑھے لکھ جوان مع ایک پڑھی لکھی جوان عورت کے جس کا دوپٹہ بھی نہ تھا موجود تھے اور سڑک پر کھڑے اپنے جیسے جوان سے باتیں کر رہے تھے ۔ میں نے کچھ منٹ انتظار کیا پھر ہلکا سا ہارن دیا مگر بے سود ۔ جب کوہستان روڈ پر ٹریفک بند ہو گئی تو میں کار کو اپنے داہنی طرف لے جا کر ا(س کار کے داہنی طرف رُکا اور پوچھا "آپ کی گاڑی خراب ہو گئی ہے کیا ؟" جواب ملا "نہیں ۔ میں ابھی جاتا ہوں"۔ میں یہ کہہ کر چل دیا "دیکھنے میں تو آپ پڑھے لکھے لگتے ہیں"۔ مگر موصوف وہیں کھڑے رہے ۔
میں نے تعلیم کے حوالے سے ماضی میں کئی تحاریر لکھی تھیں ۔ ایک یہاں پر دیکھ لیجئے
http://www.theajmals.com/blog/2009/08/17

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے

نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔