ایک دور تھا عالم دین اس رائے پر اختلاف کا شکار تھے کہ آیا لاؤڈ اسپیکر کا استعمال جائز ہے یا نہیں اور ابتدا میں تو وہ صرف مسجد میں اس کا استعمال خطیب کے خطبہ تک محدود رکھتے تھے مگر بعد میں جب دوبارہ دنیاوی تعلیم رکھنے والوں نے دین کی طرف رغبت کی اور شرعی علم کے حامل افراد نے بھی ایک بار پھر خواہ محدود تعداد میں ہی دنیا کے علم کو سمجھنے کی سہی کی تو تب لاؤڈ اسپیکر کو مساجد میں دیگر دینی امور جیسے نماز وغیرہ کے لئے استعمال کیا جانا شروع کر دیا گیا!
قریب تمام علماء بغیر کسی شک و شبہ کے اس بات پر متعفق ہیں کہ اذان کے علاوہ کسی بھی دیگر استعمال کے لئے مساجد کے باہر لگے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال اسلامی شعائر کے مخالف ہے!وجہ لاؤڈ اسپیکر کا غیر اسلامی ہونا نہیں بلکہ عوام الناس کے تکلیف پہنچنے کا امکان ہے۔
علماء کی اس رائے کے برخلاف یہ ہمارے معاشرے کی عام روش ہے کہ مخصوص دینی ایام و تقریبات میں لاؤڈ اسپیکر مساجد و تقریب کی مقام سے باہر بھی استعمال کر کئیے جاتے ہیں جو کہ اہل علاقہ و محلہ کی تکلیف کا سبب بنتے ہیں۔ یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ لاؤڈ اسپیکر کا یہ غلط استعمال صرف دینی حلقوں کی جانب سے ہی نہیں ہوتا بلکہ سیاسی جماعتوں و خود کو “روشن خیال” کہلانے والے دیگر مختلف طبقے بھی روش پر گامزن نظر آتے ہیں۔
اونچی آواز میں اسپیکرز(کہ اہل محلہ و علاقہ تک آواز جائے) پر گانے سننے یا نعت و نوحہ چلانے و پڑھنے کی یہ غیر اخلاقی حرکت معاشرے میں اس حد تک سرائیت کر چکی ہے کہ اب کئی احباب اس بارے میں اس رائے کا شکارہیں کہ شاید یہ کوئی غلط بات نہیں! اور اس سلسلے میں ہر طبقہ دوسرے کو مثال بنا کر پیش کرتا نظر آتا ہے کہ “ارے وہ بھی تو 'فلاں''فلاں' موقعہ پر ایسا کرتے ہیں تب تو کوئی کچھ نہیں کہتا”۔
لاؤڈ اسپیکر کا ایسا استعمال جس سے عوام کو ایذا پہنچنے کا اہتمال ہو نہ صرف یہ کہ اخلاقی و دینی اعتبار سے قابل گرفت ہے بلکہ ملکی قانون بھی ایسے حالات میں اس عمل کو “جرم” تصور کرتا ہے۔ مغربی پاکستان لاؤڈ اسپیکرز اور ساؤنڈ ایمپلی فائرز کے ضابطے 1965 کے تحت یہ ایک جرم ہے! یہ متعلقہ قانون کل آٹھ دفعات پر مشتمل ہے! اس قانون کی دفعہ پانچ کے تحت یہ جرم قابل دست اندازی پولیس ہے!
لاؤڈ اسپیکرز اور ساؤنڈ ایمپلی فائرز کے ضابطے 1965 کی دفعہ 2 کے تحت عوامی مقامات پر لاؤڈ اسپیکر کا استعمال جرم تصور کیا جائے گا اگر اُس سے عام افراد کو ایذا پہنچنے کا اہتمال ہو! مزید یہ کہ تعلیمی اداروں، اسپتالوں، عدالتوں، مختلف دفاتر کے قریب کام کے اوقات میں نیز مساجد و دیگر دینی مقامات (چرچ و مندر) کے قریب عبادات کے اوقات میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال منع ہے۔
یہ ہی نہیں قانون کی دفعہ 2 میں مزید بیان ہے کہ مساجد، چرچ ، مندر اور دیگر دینی مقامات پر لاؤڈ اسپیکر کا ایسا استعمال جس سے ان کے قریب کے رہائشی متاثر ہو کی بھی ممانعت کی گئی ہے، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ کسی بھی عوامی و ذاتی مقام ہر لاؤڈ اسپیکر کا ایسا استعمال جس سے فرقہ واریت و نفرت انگیز پھیلنے یا نظم و ضبط متاثر ہونے کا اندیشہ ہو تو بھی یہ عمل قابل گرفت تصور ہو گا۔ تاہم اس دفعہ میں یہ وضاحت کر دی گئی ہے کہ اذان دینے، عبادات (قانون میں لفظ prayers استعمال کیا گیا ہے جس سے نمازیں مراد لیا جائے گا) اور جمعہ و عید کے خطبہ کے لئے لاؤڈاسپیکر کے استعمال کی اجازت ہے۔
اس قانون کی دفعہ 3 کے تحت جو کوئی بھی اس قانون کی قانون کی خلاف ورزی کرتا پایا گیا اُس کو ایک سال قید اور پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزا یا دونوں سزائیں دی جا سکتے ہیں!
وہ لاؤڈاسپیکر جو اس غیر قانونی عمل میں استعمال کیا گیا ہو گا علاقہ تھانہ کا سب انسپکٹر یہ اس سے اونچے عہدے کا افسر اپنے قبضہ میں لینے کا مجاز ہو گا اور پابند ہو گا کہ جس قدر جلد ممکن ہو اُسے عدالت علاقہ کے روبرو پیش کرے۔
لہٰذا کوئی سیاسی تقریر، مذہبی وعظ، نعت خوانی ، جلسہ اور کسی بھی قسم کا کوئی موسیقی کا کوئی پروگرام اگر لاؤڈ اسپیکر پر اس طرح نشر کیا جائے کہ محلے والوں کی نیندیں خراب ہوں، سوتے بچے ڈر نے لگ جائیں، مریضوں کو اختلاج قلب شروع ہوجائے، یا دن کے وقت اُس کی روزمرہ زندگی متاثر ہو تو یہ عمل قانونی طور پر قابل گرفت ہے اور مغربی پاکستان لاؤڈ اسپیکرز اور ساؤنڈ ایمپلی فائرز کے ضابطے 1965 کی دفعہ تین کے تحت متعلقہ بندے کے خلاف رپٹ درج کروائی جا سکتی ہے۔
(یہ تحریر مفاد عام کے تحت لکھی گئی ہے)
4 تبصرے:
لاؤڈ اسپیکر کا استعمال اگر جائز طریقہ سے کیا جائے تو بلکل درست ہے لیکن جو اب استمال ہونے لگا ہے ، اس پر پابندی لگانی چاہیئے ۔ شادی وغیرہ میں گانوں کا استعمال وہ بھی بلکل تیز آواز میں ، دیگر تقریبات جلسے جلوس میں جو لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کررہے ہیں لوگ یہ بلکل غلظ ہے ۔ نہ کسی کی بیماری کا خیال ، نہ کسی بزرگ کا خیال اور نہ دین کا خیال اور نہ دنیا کا ۔ پھر فائدہ ایسے لاؤڈ اسپیکر کا ۔
قارئین کی آگاہی کیلئے آپ نے اچھا قدم اٹھایا ہے ۔ اللہ کرے کہ پڑھنے والے اس پر کم از کم خود تو عمل کریں ۔
پرانے وقتوں کی بات ہے کہ راولپنڈی کے اے ڈی ایم شہر کا چکر لگایا کرتے تھے اور لاؤڈ سپیکر تو بڑی بات ہے اگر کسی ہوٹل یا نانبائی کی دکان پر اونچی آواز میں ریڈیو بھی بج رہا ہو تو نہ صرف ریڈیو ضبط کر لیا جاتا تھا بلکہ ہوٹل یا دکان کے مالک کو جرمانہ بھی کیا جاتا تھا ۔ اسی طرح اگر پٹڑی (فٹ پاتھ) پر کوئی چیز یعنی کرسی ۔ میز ۔ بورڈ ۔ خوانچہ وغیرہ پڑا ہو تو ضبط کر لئے جاتے تھے اور جرمانہ بھی کیا جاتا تھا ۔ پھر 1972ء میں ایک مادر پدر آزاد عوامی دور آیا جس کے دوران یہ ساری خرافات عوامی اور جمہوری حق بن گئیں
بہت خوب۔۔۔ اس طرح کی مضامیں لکھے جانے چاہیئے ۔ ۔ ۔
میں بھی محمدبلال صاحب کی بات سے متفق ہوں ۔۔
اور بھوپال صاحب۔۔۔ معلومات میں اضافے کے لئے بہت بہت شکریہ
ہمارے محلے (شمالی کراچی، سیکٹر 3) کی جامع مسجد (مسجد خضراء) میں سوائے آزان اور اعلان کے لاوڈ اسپیکر کا استعمال ممنوع ہے۔
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔