Pages

1/07/2011

ایک سوال!!

بڑی لڑائی ہے آج کل عشق رسول و توہین رسول کی!
چلو اس بات کو ایک طرف رکھیں کہ جس کے باپ نے ایک ایسے قاتل کے جنازے کے لئے چارپائی مہیا کی جو اُس وقت کی ریاست کے قانون کے مطابق مجرم ہو کر بھی ایک خاص طبقے میں غازی و شہید کہلایا اور آج اُس کا قاتل بھی ایک خاص طبقے میں وہ ہی مقام رکھتا ہے جبکہ دونوں قاتلوں کا مقصد ایک ہی تھا۔بحث یہ نہیں کہ حق پر کون ہے بلکہ
سوال یہ ہے کہ کیا توہین رسالت کی سزا موت سے کم ہو سکتی ہے؟ اگر ہاں تو کتنی اور کیوں؟

12 تبصرے:

خاور کھوکھر نے لکھا ہے کہ

رسول صعلم کی توہین کرنے والے کے لیے سزائے موت هی هونی چاهیے
لیکن
یه سزا عدالت هی دے تو

اور توہین پر اکسانے والوں کو بھی سزا ملنی چاہیے

شازل نے لکھا ہے کہ

اس كي سزا موت هي هوني چاهئے

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے کہ

آپ نے تاريخی نقطہ خوب نکالا ہے

عنیقہ ناز نے لکھا ہے کہ

شعیب صفدر صاحب، جحکے باپ کی بات کر رہے ہیں اس وقت یہاں انگریزوں کی حکومت تھی۔ ذپکو چاید یہ پےہ ہو کہ انگریزوں نے توہیین کا قانون متعارف کرایا۔ اور اسکا بنیادی مقصد بر صغیر میں جو مختلف مذاہب کے لوگ تھے انکو قابو میں رکھنا تھا۔ اسے بعد میں ضیاء کے زمانے میں شدید کیا گیا، سزائے موت اور عمر قید کی سزا ڈال کر۔ ایسا کیوں کیا گیا؟ کون سا واقعہ تھآ جس کی بناء پہ انہیں اس کو سخت کرنے کی ضروت محسوس ہوئ؟ کس نے اس زمانے میں ایسی توہین کی تھی کہ ضیاء صاحب کو یہ نیکی کمانے کی فکر ہوئ؟ تاریخ پاکستان میں، میں ایسی کوئ چیز نکالنے سے ناکام ہوں۔ سوائے اسکے کہ اسکے بعد سے معاشرے میں ظلم اور زیادتی کے وہ واقعات سامنے آئے جو اس سے پہلے نہیں آئے تھے۔ لوگوں نے اپنے اندر کے حیوان کی تسین کے لئے رسول کی ذات کو استعمال کیا۔
آج کے پاکستان میں مسلمان پچانوے فی صد سے زائد ہیں۔ کوئ مسلمان تو توہین رسول نہیں کرتا۔ غیر مسلموں سے جس قدر واقعتا آج تک منسوب کئیے گئے وہ متنازعہ ہی رہے۔ حتی کہ جب لوگوں کلو مار کر ختم کردیا گیا تو یہ حقائق سامنے آئے کہ وہ بالکل بے گناہ تھے۔
توہین رسالت کے قانون کی وجہ سے جتنا خون خرابہ ہوا وہ اس قانون کے نفاذ کے بعد سامنے آیا۔ انگریزوں یعنی کفار کے دور حکومت میں جبکہ مملکت میں غیر مسلم اکثریت میں تھے اور ہم اقلیت میں صرف ایک واقعہ سامنے آتا ہے اور انیس سو چھیاسی سے اب تک درجنوں۔ جبکہ ہم اقلیتوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تعداد میں ہیں۔
موجودہ واقعے یعنی سلمان تاثیر کا کوئ ایک بیان ایسا نہیں گذرا جس میں انہوں نے رسول کی توہین کی ہو۔ ہاں البتہ مولانا صاحبان اور ضیاء کی باقیات کی توہین کی۔ اس لئے یہ کہنا کہ انہہیں گستاخی کی سزا ملی یہ ایک جھوٹ ہے اور ایک قاتل کی سرپرستی کے سوا کیا ہے۔ توہین رسالت اور توہین رسالت کا قانون کیا دو الگ چیزیں نہیں ہیں۔
یا یہ دونوں چیزیں ایک ہیں؟
میرا مقصد آپکو سمجھانا نہیں ہے۔ کیونکہ آپ کی ہمدردیاں ہمیشہ ضیاء کی باقیات کے ساتھ رہی ہیں۔ میں صرف ایک نکتہ ء نظر پیش کر رہی ہوں،۔ جو آپ لوگ سامنے نہیں لاتے۔ اور جسکی وجہ سے ان واقعات کے مستقبل ،ہ٘ پہش آنے کے امکانتا بڑھ گئے ہیں۔ یقینی طور پہ ایک الگ غلط وجہ پہ اگر کسی کی جان جاتی ہے تو صرف قاتل نہیں بلکہ اسکی حمایت کرنے والے بھی خدا کے حضور جوابدہ ہونگے۔

سلمان تاثیر کا قتل- کچھ کڑوی باتیں نے لکھا ہے کہ

kill them as son as possible........

عنیقہ ناز نے لکھا ہے کہ

شعیب صفدر صاحب میرے دونوں تبصرے ہٹا دیجئیے۔ اسے ملا کر۔ مجھے ابھی احساس ہوا کہ آپ لوگ در حقیقت صرف اپنی بات کی تائید پڑھنے کے لئے بلاگ لکھتے ہیں اور میرا بیان، یقیناً تائیدی بیان نہیں۔ معذرت قبول کریں۔ اور ایسا کر ضرور دیجئیے گا۔

Shoiab Safdar Ghumman نے لکھا ہے کہ

آپ سوال کا جواب دے ایا سزا کیا ہو؟
اور کیوں!! مین کس کا حامی یا مخالف ہوں اس کو کسی اور وقت تک کے لئے رہنے دیں!۔
قانون کا درست و غلط استعمال پر بحث بھی کر لیں گے۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے لکھا ہے کہ

انیس سو اسی میں رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں عاصمہ جہانگیر نے نازیبا اور گستاخانہ الفاظ استعمال کئیے تھے ۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا تھا کہ " اس ترقی یافتہ دور میں بھی مسلمان ایک "اُمی" کی امت ہونے پر فخر کرتے ہیں"۔ عاصمہ جہانگیر نے
(Unlettred)
یعنی "انپڑھ" لیا تھا۔ نقل کفر کفر نباشد۔

عاصمہ جہانگیر کی اس گستاخی کے خلاف مولانا معین الدین لکھوی، مولانا وصی ظفر ندوی ،شاہ بلیغ الدین، بیگم نثار فاطمہ اور لیاقت بلوچ صاحب نے پالیمینٹ میں تحریک استحقاق پیش کی تھی ۔ یہی تحریک بعد میں پارلیمنٹ سے متفقہ طور پہ دوسو پچانوے۔ دفعہ سی۔کے طور پہ منظور ہونے پہ متنج ہوئی ۔اس دفعہ میں توہین رسالت کے مجرم کے لئیے عمر قید یا سزائے موت کا ذکر تھا۔ بعد ازاں فیڈرل شریعت کورٹ نے "عمر قید" کے الفاظ حذف کر دئیے اور توہین رسالت کے مجرم کی سزا صرف موت بحال رکھی۔

یہ وہ وجہ ہے کہ عاصمہ جہانگیر اور پاکستان کے نام نہاد اسیکولرسٹس اور نام نہاد روشن خیالوں کو دفع دوسو پچانوے سی اور وفاقی شرعی عدالت سے عداوت و دشمنی ہے۔محض اس عداوت کی وجہ سے اس قانون اور وفاقی شرع عدالت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

حیرانگی کی انتہاء ہے کہ اپنے آپ کو دھڑلے روشن خیال کہلوانے والے ایک سیدھے سادھے قانون کو آج ضیاء کی باقیات اور پتہ نہیں کیا کچھ قرار دیتے ہیں جب کہ اپنے روشن خیال اماموں کے بارے میں لاعلم ہونے کا تاثر دیتے ہیں، جن کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور استہزاء وجہ سے یہ قانون وجود میں آیا ۔

کتنے آرام سے کہہ دیا ہے "ایسا کیوں کیا گیا؟ کون سا واقعہ تھآ جس کی بناء پہ انہیں اس کو سخت کرنے کی ضروت محسوس ہوئ؟ کس نے اس زمانے میں ایسی توہین کی تھی کہ ضیاء صاحب کو یہ نیکی کمانے کی فکر ہوئ؟ تاریخ پاکستان میں، میں ایسی کوئ چیز نکالنے سے ناکام ہوں۔ "

حیران ہوں ایک عام سی بات جسے شاید سبھی لوگ جانتے ہیں اسے عنیقہ بی بی! کتنی معصومیت سے ٹال گئیں ہیں۔ اور توہیں رسالت نامی قانون کو ضیاء کے کھاتے منڈھ کر اس کے وجود میں آنے کے اسباب کا سرے سے تاریخ پاکستان میں سے انکار کر دیا ہے۔ کیا انہوں نے واقعی نادانستگی میں کہہ دیا ہے؟ یا اسکے اصل تاریخی وجوہات پہ پردہ ڈال کر موضوع کو کوئی دوسرا رخ دینا ہے؟۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین نے لکھا ہے کہ

توہین رسالت کی سزا موت ہے ۔

محمد طارق راحیل نے لکھا ہے کہ

Saza to Qatal wo b sar e Aaam
agar nai kr sakty k on k Malik (America) ko pasand nai to onhain kam se kam mulk badar kia jay.

میرا پاکستان نے لکھا ہے کہ

توہین رسالت کی سزا موت ہی ہونی چاہیے مگر ملزم کو مجرم ثابت کرنے کیلیے فول پروف عدالتی نظام ہونا چاہیے۔

zain khan نے لکھا ہے کہ

لفط عشق خالص عربی ہے یہ لفط نہ تو قران مین ہے نہ بخاری شریف اور مسلم شریف می نہی ہے ﴿ڈاکٹر تقی عابدی﴾ رسول اللہ کی اتباع کر۔۔ اتباع تو نہی ھوتا -- رسول اللہ کے زمانے مین منافق تھے لیکن رسول اللہ نے قتل کی سزا دی بلکہ جنازے کے نمار نہی پڑھائی-- کسی کو قتل کرنا ھو تو جج اور فیصلے کا ھونا ضروری ہے-- ایک ادمی اپنے ھاتھ مین قانون لے-- حتی وہ اپنی بیوی کو نہی قتل کرسکتا- جس کی جان کی حفاظ ت کے لئے رکھا تھا سانپ اوسی کو ڈش دیا-- ھم کسی کے اعتتماد مین نہی--

تمہارے گوددھ پر کس طرح کا اعضاب نازل ھے معلوم ہے؟
zain khan

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے

نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔