Pages

2/08/2006

میٹھا بحران

آج کل ملک میں مٹھاس کا بحران چل رہا ہے، ہر کوئی تلخ ہو رہا ہے، لہجہ تلخ ہو تو بات خود ہی تلخ معلوم ہوتی ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بات و حالات تلخ ہوں تو لہجہ کا میٹھا رہنا بھی ممکن نہیں۔
ایک پاکستانی اوسط سالانہ بائیس کلو کے قریب چینی کھا جاتا ہے، جو اس خطہ میں سب سے ذیادہ ہے، باقی خطے کے ممالک میں اوسط سات سے بارہ کلو سالانہ ہے، شائد پاک چین دوستی کی وجہ سے اہل وطن کو “چینی“ بھاتا ہے اور اس ہی بناء پر وہ “چینی“ کھاتا ہے!!!!!! کیونکہ “پاک چین دوستی کان کوئے“۔۔۔۔۔۔ ویسے اگر کھائی جانے والی “چینی“ کا نام بدل کر امریکی رکھ دیا جائے تو ممکن ہے کہ “چینی“ کے استعمال میں کمی ہو!!!! لیکن ہمارے دوست کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہو گا کیونکہ ہر پاکستانی یہ کہہ کر “چینی“ کا استعمال مزید بڑھا دے گا کہ “میں اس امریکی کو نہیں چھوڑو گا“!!!!!!! اصل بات یہ ہے کہ اس وقت ملک میں ایک کلو چینی کی قیمت قریب ٤٢ سے ٤٣ روپے تک جا پہنچی ہے۔ جو سرکاری قیمت سے ١٢ سے ١٣ روپے ذیادہ ہے، اس مالیاتی سال کے شروع میں ایک کلو چینی ٢٢ روپے کی تھی یوں اب تک ایک سال میں کلو پیچھے ٩٥ سے ٩٩ فیصد قیمت میں اضافہ ہوا ہے جو اب تک ایک مالیاتی سال میں سب سے ذیادہ ہے۔ ہول سیل کی مارکیٹ میں سوداگروں کا کہنا ہے کہ شوگر ملز والے انہیں ١٠٠ کلو چینی ٣٧٥٠ سے ٣٨٥٠ کے درمیان کی قیمت میں مہیا کرتے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم سرکاری قیمت پر چینی مہیا کرے؟؟؟ لہذا ہول سیل والے ٣٨٥٠ سے ٣٩٥٠ سے میں ١٠٠ کلو چینی فروخت کررہے ہیں۔اس بناء پر ریٹیل پرائز ٤١ سے ذیادہ ہے۔ شوگر ملز مالکان کا کہنا ہے کہ پچھلے سال ہم نے ٤٠ روپے فی ٤٠ کلو کے حساب سے مارکیٹ سے گنا لیا اس کے بر عکس اس سال ٧٠ سے ٧٥ روپے فی ٤٠ کلو میں گنا پڑا، دوسرا گنے کی فصل بھی اس سال ٹھیک نہ تھی اس وجہ سے چینی کی قیمت میں اضافی ہوا ہے۔ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے اپنے دعویٰ اور تحفظات ہیں۔ وہ الگ کہانی سناتے ہیں۔ ایک تاثر یہ ہے کہ چینی کی ایک بڑی مقدار افغانستان اسمگل ہوئی ہے جو اس بحران کا سبب بنی ہے یہ مقدار تقریبا١٥٠٠٠٠ سے ١٧٠٠٠٠ ٹن تک بتائی جاتی ہے حکومت اس بحران کا ذمہ دار شوگر ملز مالکان کو قرار دیتی ہے، اس کا کہنا ہے کہ ملز مالکان نے قریب٢٥٠٠٠٠ سے ٣٥٠٠٠٠ ٹن تک چینی اپنے گوداموں میں چھپا رکھی ہے، اس ہی بناء پر یہ میٹھا بحران (اب کون اسے میٹھا کہے؟؟) آیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے پرائیویٹ سیکٹر کو مکمل ٹیکس اور دوسرے واجبات کی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ چینی باہر سے درآمد کر لیں خواہ وائٹ یا خام۔۔۔۔ ٥٠٠٠٠ ٹن چینی تو بھارت سے خریدی جارہی ہے، لو!!!! جن سے تعلقات میٹھے نہیں ہو سکے ان سے کوئی چینی میٹھی کیسے ملے گی؟؟؟؟ کڑوی چینی !!!! ایک طرف یہ تمام جھگڑے!!! دوسری طرف عوام جو چینی کی خرید کے لئے یوٹیلیٹی اسٹور کے باہر لمبی قطار میں لگے نظر آتے ہیں تا کہ سستی چینی خرید سکیں۔۔۔ لمبی قطار لمبا انتظار!!!! جب تک باری آتی ہے تو چینی ختم ہو جاتی ہے!!!! تلخ انتظار کے بعد تلخ جواب!!! کل آنا مال ختم!!! جن کو یہ تبرک مل جاتا ہے وہ خوشی مناتے ہیں!!! جی! تبرک ہی کہے نا!!! ایک گھنٹے کے انتظار کے صلے میں ٥٥ روپے میں ٢ کلو!!! ایک شخص کو اس سے ذیادہ نہیں ملے گی!! ہاں یوٹیلیٹی اسٹور والے سے دعا سلام ہے تو پھر پچھلے دروازے سے جتنی مانگی اتنی ملے گی!!! مگر اس کے حصہ کا بھی خیال رکھنا ہو گا! اس کے حصہ کا خیال صرف محلے کا دوکاندار رکھتا ہے اس لئے وہ اس کا!!!! حکومت نے یوٹیلیٹی اسٹور کا کوٹہ دگنا کر دیا ہے پہلے ١١٠٠٠ ٹن تھا اب ٢٢٠٠٠ ٹن ہے۔۔۔ کوٹے کے ساتھ قیمت کا ذیادہ ہونا بھی ضروری تھا! اس لئے پہلے یوٹیلیٹی اسٹور میں چینی ٢٣ روپے کلو تھی اب ساڑھے ستائیس روپے ہے!!! جی کل وزیر اعظم صاحب نے اصل قیمت میں ٢٠ فیصد کا اضافہ کیا ہے یوں فی کلو ساڑھے چار روپے کا اضافہ ہو گیا ہے، اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ اب چینی جتنی بھی سستی ہو عام مارکیٹ میں مگر ٢٨ روپے فی کلو سے ذیادہ ہی ہو گی۔۔۔ اب دیکھے یہ میٹھا بحران کب تک تلخیاں بکھیرتا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

3 تبصرے:

گمنام نے لکھا ہے کہ

جناب آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میں سال میں دس کلو سے زیادہ چینی نہیں استعمال کرتا حالانکہ میں میٹھی چیزیں پسند کرتا ہوں ۔
چینی کا بحران حکومت کی بد مستی ۔ کارخانہ داروں کی اجاراداری ۔ تاجروں کی منافع خوری ۔ عوام کی بے صبری اور سب سے بڑھ کر اخبارات کے اس کو ضرورت سے زیادہ اُچھالنے کی وجہ سے پیدہ ہوا ہے ۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ سارے چینی بنانے والے کارخانے حکومت میں شامل اور حکومت کے سپورٹر وڈیروں کے ہیں ۔ کیا ایسا نہیں کہ اُن کو فائدہ پہنچانے کے لئے یہ بحران پیدا کیا گیا ہے اور اہباروں کو مبالغہ آمیز سُرخیاں لگانے کے لئے رشوت دی گئی ۔

Shoiab Safdar Ghumman نے لکھا ہے کہ

http://www.illovo.co.za/worldofsugar/internationalSugarStats.htm

چینی کا کم استعمال ایک اچھی عادت ہے!!!

Shoiab Safdar Ghumman نے لکھا ہے کہ

http://www.pakistaneconomist.com/issue2002/issue38/i&e3.htm

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے

نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔