یہ ایک عام تاثر ہے کہ انعامی اسکیم میں جن کی بڑی رقم نکلتی ہے اُن کا وجود نہیں ہوتا! اس سے ذیادہ اہم بات یہ کہ اپنے مال یا سروس کی تشہیر کے لئے انعام کا لالچ دینا کیا اخلاقی طور پر درست ہے؟
آپ کا خیال و جواب کچھ بھی ہو مگر یہ سلسلہ میرے ملک میں زور و شور سے جاری ہے، اور ادارے خواہ وہ سرکاری ہوں یا غیر سرکاری خود ایسی اسکیموں کی تشہیر کے لئے زور بھی لگاتے ہیں اور شور بھی مچاتے ہیں۔
اس وقت میڈیا میں ٹیلی کام کمپنیاں سب سے ذیادہ انعامی لالچ کی ترغیب کے ذریعے صارفین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں! بغیر کسی شک شبہ کے ایسی کوئی بھی اسکیم شرعی نقطہ سے ناجائز ہے خواہ انعام پانے والے اپنی انٹرویو میں یہ ہی کہے میں نے انعام کا سن کر دو رکعات شکرانے کے ادا کئے :)
کیاملکی قانون کے تحت یہ جائز ہیں؟
یہ سوال عموما سامنے آتا ہے اور وہ بھی اس رائے کے ساتھ اگر اجازت نہ ہو تو کیوں ایسی اسکیمیں متعارف ہوں؟ جواب سادہ ہے تعزیرات پاکستان کی دفعہ294 بی کے تحت کاروباری معاملات کے سلسلے میں انعامات کا لالچ دینا قابل گرفت جرم ہے۔
اس دفعہ کے لفاظ یوں ہیں!
ہاں کہنے کو سزا صرف چھ ماہ ہے مگر بات یہ ہے کہ ملکی قانون میں انعامی ترغیب کے ذریعے کاروبار کا فروغ ایک غیر قانونی عمل ہے اور یہ لاقانونیت باقاعدہ ہمارے ملک میں چل رہی ہے۔ 1965 میں یہ دفعہ تعزیرات پاکستان میں داخل کی گئی۔ دلچسپ یہ کہ نہ صرف عام کمپنیاں و ادارے اس قانون کی پابندی نہیں کر رہے بلکہ مختلف ادوار میں ریاستی مشینری و حکومتی سرپرستی میں اس قانون کے خلاف ورزی کی جاتی رہی ہے۔
معاشرے و ریاستوں کی تنزلی کا اندازہ قانون کی پاسداری سے لگایا جاتا ہے اور ہمارا معاشرہ قانون شکنی کو معیوب نہیں سمجھتا! کیوں؟
آپ کا خیال و جواب کچھ بھی ہو مگر یہ سلسلہ میرے ملک میں زور و شور سے جاری ہے، اور ادارے خواہ وہ سرکاری ہوں یا غیر سرکاری خود ایسی اسکیموں کی تشہیر کے لئے زور بھی لگاتے ہیں اور شور بھی مچاتے ہیں۔
اس وقت میڈیا میں ٹیلی کام کمپنیاں سب سے ذیادہ انعامی لالچ کی ترغیب کے ذریعے صارفین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں! بغیر کسی شک شبہ کے ایسی کوئی بھی اسکیم شرعی نقطہ سے ناجائز ہے خواہ انعام پانے والے اپنی انٹرویو میں یہ ہی کہے میں نے انعام کا سن کر دو رکعات شکرانے کے ادا کئے :)
کیاملکی قانون کے تحت یہ جائز ہیں؟
یہ سوال عموما سامنے آتا ہے اور وہ بھی اس رائے کے ساتھ اگر اجازت نہ ہو تو کیوں ایسی اسکیمیں متعارف ہوں؟ جواب سادہ ہے تعزیرات پاکستان کی دفعہ294 بی کے تحت کاروباری معاملات کے سلسلے میں انعامات کا لالچ دینا قابل گرفت جرم ہے۔
اس دفعہ کے لفاظ یوں ہیں!
Whoever offers, or undertakes to offer, in connection with any trade or business or sale of any commodity, any prize, reward or other similar consideration, by whatever name called, whether in money or kind, against any coupon, ticket, number or figure, or by any other device, as an inducement or encouragement to trade or business or to the buying of any commodity, or for the purpose of advertisement or popularising any commodity, and whoever publishes any such offer, shall be punishable, with imprisonment of either description for a term which may extend to six months, or with fine, or with both.
ہاں کہنے کو سزا صرف چھ ماہ ہے مگر بات یہ ہے کہ ملکی قانون میں انعامی ترغیب کے ذریعے کاروبار کا فروغ ایک غیر قانونی عمل ہے اور یہ لاقانونیت باقاعدہ ہمارے ملک میں چل رہی ہے۔ 1965 میں یہ دفعہ تعزیرات پاکستان میں داخل کی گئی۔ دلچسپ یہ کہ نہ صرف عام کمپنیاں و ادارے اس قانون کی پابندی نہیں کر رہے بلکہ مختلف ادوار میں ریاستی مشینری و حکومتی سرپرستی میں اس قانون کے خلاف ورزی کی جاتی رہی ہے۔
معاشرے و ریاستوں کی تنزلی کا اندازہ قانون کی پاسداری سے لگایا جاتا ہے اور ہمارا معاشرہ قانون شکنی کو معیوب نہیں سمجھتا! کیوں؟
6 تبصرے:
"بغیر کسی شک شبہ کے ایسی کوئی بھی اسکیم شرعی نقطہ سے ناجائز ہے"
ذرا وضاحت سے بتا دیجیئے
لیکن بھیا ایسی سکیمیں تو ایک لبمے عرصے سے چلی آرہی ہیں لیکن آج تک کسی کے خلاف کوئی ایکشن نہیں ہوا
اور دوسری بات جو آپ نے شرعی لحاظ والی کی ہے کیا اس کا کوئی حوالہ مل سکتا ہے
شکریہ
از احمر
بہت شکریہ صفدر صاحب
آپ کی موجودہ تحریر خاص طور ہر اس لیے پسند آی کہ آپ نے اپنے پیشہ کے مطابق پاکستان میں موجود ایک مسلہ کا جایزہ لیا اور اپنا پیشہ ورانہ نقطہ نظر اپنے قاریین کے سامنے پیش کیا، مزید اہمیت اس حوالے سے بھی ہے کہ اس کا تعلق براہ راست صارف سے ہے، اسی صورت حال سے متعلق آج کل "پینٹ / کلر" والے بڑے بڑے اشتہار کچھ معذرت خواہانہ انداز میں آخبارات میں شایع کروا رہے ہیں، یقیننا کہیں نہ کہیں کوی ہلچل ہوی ہے-
بہت عمدہ۔۔۔۔
بلاگرز ساتھیوں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ نا صرف وہ اس قسم کی کسی بھی انعامی اسکیم کی تشہیر سے پرہیز کریں بلکہ ممکنہ حد تک اس قسم کی انعامی اسکیموں پر گرفت کریں۔
محترم عدنان شاہد اور محترم Saud علماء کا کہنا ہے کہ جوا یا قمار بازی دراصل فائدہ و نقصان کے درمیان احتمال ہے جس میں فائدہ و نقصان دونوں محنت سے تعلق نہیں رکھتے اور علماء کا کہنا ہے یہ ہی معاملہ سے جسے قرآن پاک میں سورت مائدہ میں مخاطرہ و میسر کے الفاظ سے بیان کیا ہے۔
یا أیُّہَا الَّذِیْنَ آمنُوا انَّمَا الخمرُ وَالمَیْسِرُ والأنصابُ والأزلامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطانِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ . (مائدہ:۹۰)
ترجمہ: اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں اور شیطانی کام ہیں، سو ان سے بالکل الگ ہوجاؤ، تاکہ تم کو فلاح ہو۔
باقی اللہ کی ذات حقیقت سے واقف ہے۔
جناب آپ کا رونا تو جائیز ہے مگر ہمارے ملک میں قانونی ہے کیا، صدر اور وزیراعظم تک تو ادھر غیر قانونی ہیں،
عدالت کہتی ہے خط لکھ دو وزیراعظم کہتا نہ لکھ کر آئین کا تحفظ کیا۔
اب ایتھے ہن کون مرے
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔