ہمارے ایک بہت پیارے دوست نے ایک دفعہ اپنا ایک سچا قصہ ہم سے شیئر کیا! اول تو قصہ بہت عمدہ تھا دوئم ہمارے اُس دوست کو جیسے قصہ گوئی کا فن آتا ہے سن کر ہنس ہنس کر ہم بے حال ہو گئے ہمیں وہ قدرت تو حاصل نہیں مگر قصہ آپ سے شیئر کرتے ہیں۔
بقول ہمارے دوست کے وکالت کے آغاز میں انہوں نے اپنے علاقے میں ایک دفتر کھولا اور دفتر میں دیگر دفتری اشیاء کے ساتھ ایک ٹی وی میں لگوا لیا! جس پر کیبل کا کنکشن حاصل کیا۔ آغاز وکالت فراغت کے دن ہوتے ہیں لہذا ایسے ہی ایک فراغت کےوقت میں ہمارے دوست کیبل پر انگریزی فلم دیکھ رہے تھے تو اُس کا ایک دوست جو مولوی تھا آفس میں آ گیا ہمارے دوست نے چینل نہ بدلہ دونوں گفتگو میں مصروف ہو گئے مگر نظر بیشتر اسکرین پر مرکوز رہتی کہ اتنے میں وہ “سین” بھی فلم کے کسی ایکٹ میں آ گیا جس میں فلم کے دو کردار اپنی محبت کا “عملی” مظاہرہ کرتے نظر آئے “مولبی” کی موجودگی کی بناء پر ہمارے دوست نے چینل بدلنے کو ریموڑٹ اُٹھا تو “مولبی” گویا ہو “رہنے دوں ہم بھی دیکھیں یہ خبیث کرتے کیا ہیں” پھر وہ محبت کے “عملی”اظہار میں آنی والی شدت کے ساتھ ساتھ ذیادہ جذباتی انداز میں بولتے “اوئے اوئے خبیث” “توبہ توبہ”” استغفار” “خبیث اوئے”۔
یہ ہی حال ہمارے میڈیا کا ہے! وہ بھی کسی عمل غلط کو ذکر کرتے، عکس بندی کرتے، اُس پر بحث کرتے، اُس پر تنقید کرتے اور اُس کا تجزیہ کرتے ہوئے “اوئے اوئے خبیث” “توبہ توبہ”” استغفار” “خبیث اوئے” تو کرتے ہیں مگر ایسے کہ نہ صرف اُس عمل “بد” کی تشہیر ہوتی ہے بلکہ معاشرے میں سے ایک طبقہ ایسا پیدا ہو جاتا ہے جو اُس عمل کو واہ واہ کرتے داد دیتا نظر آتا ہے۔
آج کل میڈیا میں صدر صاحب کے بیرونی ملک جانے کے بعد جو خبر لوگوں کے دماغوں پر سوار ہے وہ ایک پاکستانی اداکارہ( طوائف و کنجری کہنا بھی درست ہو گا کیوں کہ اعمال کو دیکھتے ہوئے یہ اُس کا پروفیشن ہے اُس کیلئے گالی نہیں) کے بھارت میں کپڑے اُتار کر تصاویر بنوانا ہے۔ کہانی ISI کے ٹیٹو سے شروع ہوئی اور اب انکار سے ممکنہ اقرار کی طرف گامزن ہے۔ تین (پہلی، دوسری اور تیسری) جاری کردی تصاویر کو وجہ تنازعہ بنایا جا رہا ہے، بالغان کے رسالے کے لئے اب برقعہ پہن کر تو تصاویر نہیں اُتاری جانے سے رہے، اس بندی کا ماضی ایسا ہے کہ ملکی سطح پر بھی ماڈلنگ کے آغاز میں ایک ایسا فوٹو شوٹ کروا چکی ہے۔ لہذا ایسی طوائف مزاج خواتین کو میڈیا میں جگہ نہ دی جائے تو بہتر ہے مگر اچھے بھلے بیک گراونڈ والے ادارے بھی بھیڑچال میں وجہ تشہیر بن جاتے ہیں۔ ایسی خواتین کو اپنے گھر والے تعلق سے انکاری ہو جاتے ہیں۔
باقی کیا کہنے ہمارے ملک میں ایک طبقہ ایسا ہے جو برقعہ پوش عورت کو اپنے حق سے نا واقف و جاہل قرار دیا ہے مگر برہنہ ہونی والی خاتون کو بہادر و با ہمت قرار دیتا ہے۔ ایسے لوگوں کا کیا علاج ہے؟
بقول ہمارے دوست کے وکالت کے آغاز میں انہوں نے اپنے علاقے میں ایک دفتر کھولا اور دفتر میں دیگر دفتری اشیاء کے ساتھ ایک ٹی وی میں لگوا لیا! جس پر کیبل کا کنکشن حاصل کیا۔ آغاز وکالت فراغت کے دن ہوتے ہیں لہذا ایسے ہی ایک فراغت کےوقت میں ہمارے دوست کیبل پر انگریزی فلم دیکھ رہے تھے تو اُس کا ایک دوست جو مولوی تھا آفس میں آ گیا ہمارے دوست نے چینل نہ بدلہ دونوں گفتگو میں مصروف ہو گئے مگر نظر بیشتر اسکرین پر مرکوز رہتی کہ اتنے میں وہ “سین” بھی فلم کے کسی ایکٹ میں آ گیا جس میں فلم کے دو کردار اپنی محبت کا “عملی” مظاہرہ کرتے نظر آئے “مولبی” کی موجودگی کی بناء پر ہمارے دوست نے چینل بدلنے کو ریموڑٹ اُٹھا تو “مولبی” گویا ہو “رہنے دوں ہم بھی دیکھیں یہ خبیث کرتے کیا ہیں” پھر وہ محبت کے “عملی”اظہار میں آنی والی شدت کے ساتھ ساتھ ذیادہ جذباتی انداز میں بولتے “اوئے اوئے خبیث” “توبہ توبہ”” استغفار” “خبیث اوئے”۔
یہ ہی حال ہمارے میڈیا کا ہے! وہ بھی کسی عمل غلط کو ذکر کرتے، عکس بندی کرتے، اُس پر بحث کرتے، اُس پر تنقید کرتے اور اُس کا تجزیہ کرتے ہوئے “اوئے اوئے خبیث” “توبہ توبہ”” استغفار” “خبیث اوئے” تو کرتے ہیں مگر ایسے کہ نہ صرف اُس عمل “بد” کی تشہیر ہوتی ہے بلکہ معاشرے میں سے ایک طبقہ ایسا پیدا ہو جاتا ہے جو اُس عمل کو واہ واہ کرتے داد دیتا نظر آتا ہے۔
آج کل میڈیا میں صدر صاحب کے بیرونی ملک جانے کے بعد جو خبر لوگوں کے دماغوں پر سوار ہے وہ ایک پاکستانی اداکارہ( طوائف و کنجری کہنا بھی درست ہو گا کیوں کہ اعمال کو دیکھتے ہوئے یہ اُس کا پروفیشن ہے اُس کیلئے گالی نہیں) کے بھارت میں کپڑے اُتار کر تصاویر بنوانا ہے۔ کہانی ISI کے ٹیٹو سے شروع ہوئی اور اب انکار سے ممکنہ اقرار کی طرف گامزن ہے۔ تین (پہلی، دوسری اور تیسری) جاری کردی تصاویر کو وجہ تنازعہ بنایا جا رہا ہے، بالغان کے رسالے کے لئے اب برقعہ پہن کر تو تصاویر نہیں اُتاری جانے سے رہے، اس بندی کا ماضی ایسا ہے کہ ملکی سطح پر بھی ماڈلنگ کے آغاز میں ایک ایسا فوٹو شوٹ کروا چکی ہے۔ لہذا ایسی طوائف مزاج خواتین کو میڈیا میں جگہ نہ دی جائے تو بہتر ہے مگر اچھے بھلے بیک گراونڈ والے ادارے بھی بھیڑچال میں وجہ تشہیر بن جاتے ہیں۔ ایسی خواتین کو اپنے گھر والے تعلق سے انکاری ہو جاتے ہیں۔
باقی کیا کہنے ہمارے ملک میں ایک طبقہ ایسا ہے جو برقعہ پوش عورت کو اپنے حق سے نا واقف و جاہل قرار دیا ہے مگر برہنہ ہونی والی خاتون کو بہادر و با ہمت قرار دیتا ہے۔ ایسے لوگوں کا کیا علاج ہے؟
6 تبصرے:
ایسے لوگوں کا کوئی علاج نہیں انکو بس وینا ملک بننے کی دعوت دینے کے بعد آپکے دوست کے مولوی صاحب کی طرح اوے خبیث اوے توبہ توبہ کرنا چاہیے
جناب
ایسے لوگوں کیلئے ہم اور آپ خوشی خوشی مولوی ساب بن جاتے ہیں۔
توبہ توبہ اوئے خبیثو۔۔۔وغیرہ بھی کہیں گئے۔
اور ۔۔۔ہیں جی۔۔باقی آپ وکیل صاحب ہو۔ سمجھدار ہو تو ہم کہہ نہیں سکتے۔۔۔۔۔۔ ہیں جی۔
ٹی وی چینلز اپنی ریٹینگ بڑھانے کیلئے اسینکنڈل کو مزید اچھالتے ہیں اور پھر اسینکنڈلز میں ملوث لوگوں کو ٹی وی شوز اور انٹرویوز میں بھی بلا لیتے ہیں۔ میڈیا تو دوطرفہ کھیل کھیلتا ہے۔
میڈیا کا مطمع نظر صرف دولت کا حصول ہے۔ یہ لوگ کبھی بھی محض معاشرے کی بہتری کے لیے کچھ نہیں کرتے۔
اصل بات تو آپ نے سب سے آخر ميں لکھی ہے ۔ ويسے آپ کی يہ تحرير پڑھ کر مجھے ايک بات ياد آئی جب دو تين دہائياں قبل ميں لاہور ميں ايک محفل ميں کہہ رہا تھا "ميرا خيال ہے کہ ٹی وی ميں کام کرنے والی اداکاراؤں کو فلمی اداکاراؤں سے نہيں ملانا چاہيئے"۔ اس محفل ميں ايک فلم ساز اور ہدائتکار بھی موجود تھے جو اپنے اصلی نام سے پی ٹی وی کے بھی پيشکار اور ہدائتکار تھے ۔ جب معاملہ ٹل گيا تو ميرے پاس آئے اور کہنے لگے "برخوردار آپ نہ کبھی فلم سٹوڈيو گئے ہيں اور نہ ٹی وی سٹوڈيو ۔ ان سب ميں اور طوائفوں ميں صرف اتنا فرق ہے کہ ۔ طوائف وہ ہے جو ہر ايک کيلئے ہے"۔
میں نے آپکے فراہم کردہ لنک تو نہیں دیکھے لیکن اگر ان میں وہی کچھ ہے جسکا میں اندازہ کر رہا ہوں تو کام تو آپ نے بھی وہی کیا ہے جسکی مذمت میں یہ پوسٹ لکھی ہے۔
ویسے میرے خیال میں پاکستان میں برہنہ عورت اور یورپ میں برقعہ پوش عورت دونوں بہادر ہیں۔
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔