ہمیں شاید عادت ہو گئی ہے آسان بات کو دشوار کرنے کی اور سیدھی بات میں ابہام ڈالنے کی! گزشتہ دنوں جب اسلامی نظریاتی کونسل نے پریس ریلیز جاری کی تو جس انداز میں خبر ہم تک پہنچی یوں معلوم ہوا کہ جیسے اسلامی نظریاتی کونسل نے ڈی این اے کو بطور شہادت لینے سے ہی انکار کیا ہے! ہم بھی اول اول اس کو لے کر پریشان ہو گئے کہ یہ مولویوں نے کیا کیا!!! مگر بعد میں علم ہوا معاملہ یوں نہیں تھا!!
آپ ڈان اخبار اور دنیا پاکستان میں اس خبر کی سرخی دیکھیں تو آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ ابہام کس نے کہاں کیا!
ڈان نے خبر یوں لگائی “جنسی زیادتی کے مقدمات میں ڈی این اے ناقابل قبول”
اور دنیا پاکستان نے یوں “زنا بالجبر ، ڈی این اے ٹیسٹ بطورمددگارشہادت قبول ہے: اسلامی نظریاتی کونسل”۔
بات یہ ہے کہ زنا بالجبر کی اسلامی سزا ہے سنگسار کرنا!! جو کہ حدود لاء کی دفعہ چھ اور دفعہ 17 کے تحت ہے! اور حدود لاء کی دفعہ آٹھ کے تحت یہ سزا اُس وقت ہی دی جائے گی جب یا تو ملزم خود اعتراف جرم کر لے یا پھر اُس کے اس گناہ یا جرم کی شہادت چار عینی گواہ دیں! اسلامی نظریاتی کونسل نے یہاں یہ رائے دی کہ زنا بالجبر کے مقدمات میں صرف ڈی این اے ٹیسٹ ہی کی بناء پر حد (یعنی سنگساری کی سزا ) نافذ نہیں کی جا سکتی اسے صرف ضمنی شہادت کے طور پر قبول کیا جائے گا! یعنی یہ شرعی شہادت نہیں! اور صرف اس کی بناء پر شرعی سزا نہیں ملے گی! اس میں کوئی حرج نہیں یہ ایک درست رائے ہے! کیوں؟
ایک عام خیال یا مغالطہ یہ پایا جاتا ہے کہ اگر چار گواہ نہ ہو تین یا اس سے کم گواہ ہوں یا شرعی شہادت نہ ہو تو ملزم کو کہا جائے گا “سر غلطی ہو گئی آپ گھر جاؤ، عیاشی کرو، آپ تو شریف آدمی ہو” ایسا نہیں ہے جناب! حدود کا نفاذ نہ ہونے پر ملزم با عزت آزاد نہیں کیا جاتا بلکہ تب بھی اگر ایسے شواہد و شہادتیں ہو جن سے اُس کا جرم ثابت ہوتا ہو تو وہ قابل سزا ٹھہرتا ہے! کیسے؟
حدود لاء کی دفعہ 10 کے تحت 25 سال تک قید(جو ہر گز 4 سال سے کم نہ ہو گی) اور 30 کوڑے مارے جائیں گے مجرم کو! مزید یہاں یہ بتانا بھی اہم ہو گا کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 376 کے تحت زنا بالجبر میں ہی عدالت ملزم کے مجرم ثابت ہونے پر موت کی سزا بھی دے سکتی ہے۔ صرف معلومات کے لئے عرض ہے کہ پڑوسی ملک بھارت میں اس جرم کی ذیادہ سے ذیادہ سزا موت نہیں ہے یعنی ہمارے یہاں سزا سخت ہے۔ اور ملتی بھی ہے یہ نہ سمجھا جائے کہ ملزم بچ جاتا ہو گا!
اسلامی نظریاتی کونسل کی اس رائے سے پہلے ہی سپریم کورٹ اور فیڈرل شریعت کورٹ مختلف فیصلوں میں ڈی این اے ٹیسٹ کو معاون شہادت کا درجہ دے چکی ہیں بلکہ اکتوبر 2012 میں سپریم کورٹ سفارشات دی چکی ہے کہ زنا بالجبر کے کیسوں میں ڈی این اے کو لازمی قرار دیا جائے مگر دونوں (سپریم کورٹ اور فیڈرل شریعت کورٹ) حد کے نفاذ کے لئے صرف ڈی این اے کو بطور شہادت قابل قبول نہیں سمجھتیں!! کیونکہ کہ صرف اور صرف ڈی این اے کی شہادت زنا بالرضا اور زنا بالجبر میں تفریق کرنے میں معاون نہیں ہے۔ اس سلسلے میں دیگر شہادتیں بھی درکار ہوتی ہیں۔
امید کرتا ہوں دوست بات کو سمجھ گئے ہو گے! یوں لگتا ہے ٹی وی میں ہونے والی مباحث لوگوں کو با علم کرنے کے بجائے گمراہ کرنے کو کیئے جاتے ہیں۔ مزید یہاں یہ بھی آگاہ کردوں کہ پاکستان میں اب تک کسی ملزم کے مجرم ثابت ہونے پر حد نافذ نہیں ہوئی نیز اسلامی نظریاتی کونسل کو آڑے ہاتھوں لینے والے ہی ان حدود کی سزاؤں کو غیر انسانی سمجھتے ہیں! یعنی نہ اُدھر خوش نہ ادھر!!
آپ ڈان اخبار اور دنیا پاکستان میں اس خبر کی سرخی دیکھیں تو آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ ابہام کس نے کہاں کیا!
ڈان نے خبر یوں لگائی “جنسی زیادتی کے مقدمات میں ڈی این اے ناقابل قبول”
اور دنیا پاکستان نے یوں “زنا بالجبر ، ڈی این اے ٹیسٹ بطورمددگارشہادت قبول ہے: اسلامی نظریاتی کونسل”۔
بات یہ ہے کہ زنا بالجبر کی اسلامی سزا ہے سنگسار کرنا!! جو کہ حدود لاء کی دفعہ چھ اور دفعہ 17 کے تحت ہے! اور حدود لاء کی دفعہ آٹھ کے تحت یہ سزا اُس وقت ہی دی جائے گی جب یا تو ملزم خود اعتراف جرم کر لے یا پھر اُس کے اس گناہ یا جرم کی شہادت چار عینی گواہ دیں! اسلامی نظریاتی کونسل نے یہاں یہ رائے دی کہ زنا بالجبر کے مقدمات میں صرف ڈی این اے ٹیسٹ ہی کی بناء پر حد (یعنی سنگساری کی سزا ) نافذ نہیں کی جا سکتی اسے صرف ضمنی شہادت کے طور پر قبول کیا جائے گا! یعنی یہ شرعی شہادت نہیں! اور صرف اس کی بناء پر شرعی سزا نہیں ملے گی! اس میں کوئی حرج نہیں یہ ایک درست رائے ہے! کیوں؟
ایک عام خیال یا مغالطہ یہ پایا جاتا ہے کہ اگر چار گواہ نہ ہو تین یا اس سے کم گواہ ہوں یا شرعی شہادت نہ ہو تو ملزم کو کہا جائے گا “سر غلطی ہو گئی آپ گھر جاؤ، عیاشی کرو، آپ تو شریف آدمی ہو” ایسا نہیں ہے جناب! حدود کا نفاذ نہ ہونے پر ملزم با عزت آزاد نہیں کیا جاتا بلکہ تب بھی اگر ایسے شواہد و شہادتیں ہو جن سے اُس کا جرم ثابت ہوتا ہو تو وہ قابل سزا ٹھہرتا ہے! کیسے؟
حدود لاء کی دفعہ 10 کے تحت 25 سال تک قید(جو ہر گز 4 سال سے کم نہ ہو گی) اور 30 کوڑے مارے جائیں گے مجرم کو! مزید یہاں یہ بتانا بھی اہم ہو گا کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 376 کے تحت زنا بالجبر میں ہی عدالت ملزم کے مجرم ثابت ہونے پر موت کی سزا بھی دے سکتی ہے۔ صرف معلومات کے لئے عرض ہے کہ پڑوسی ملک بھارت میں اس جرم کی ذیادہ سے ذیادہ سزا موت نہیں ہے یعنی ہمارے یہاں سزا سخت ہے۔ اور ملتی بھی ہے یہ نہ سمجھا جائے کہ ملزم بچ جاتا ہو گا!
اسلامی نظریاتی کونسل کی اس رائے سے پہلے ہی سپریم کورٹ اور فیڈرل شریعت کورٹ مختلف فیصلوں میں ڈی این اے ٹیسٹ کو معاون شہادت کا درجہ دے چکی ہیں بلکہ اکتوبر 2012 میں سپریم کورٹ سفارشات دی چکی ہے کہ زنا بالجبر کے کیسوں میں ڈی این اے کو لازمی قرار دیا جائے مگر دونوں (سپریم کورٹ اور فیڈرل شریعت کورٹ) حد کے نفاذ کے لئے صرف ڈی این اے کو بطور شہادت قابل قبول نہیں سمجھتیں!! کیونکہ کہ صرف اور صرف ڈی این اے کی شہادت زنا بالرضا اور زنا بالجبر میں تفریق کرنے میں معاون نہیں ہے۔ اس سلسلے میں دیگر شہادتیں بھی درکار ہوتی ہیں۔
امید کرتا ہوں دوست بات کو سمجھ گئے ہو گے! یوں لگتا ہے ٹی وی میں ہونے والی مباحث لوگوں کو با علم کرنے کے بجائے گمراہ کرنے کو کیئے جاتے ہیں۔ مزید یہاں یہ بھی آگاہ کردوں کہ پاکستان میں اب تک کسی ملزم کے مجرم ثابت ہونے پر حد نافذ نہیں ہوئی نیز اسلامی نظریاتی کونسل کو آڑے ہاتھوں لینے والے ہی ان حدود کی سزاؤں کو غیر انسانی سمجھتے ہیں! یعنی نہ اُدھر خوش نہ ادھر!!