جب تک ہم ذاتيات چھوڑ کر قوم نہيں بنتے کسی بہتری کی اُميد نہيں ہے ہمارے ہان يہ اصول بن چکا ہے کہ اپنی خوبياں اُجاگر کرنے کی بجائے دوسروں کی خامياں اُجاگر کی جاتی ہيں ۔ يہ بيمار ذہن کا طريقہ کار ہوتا ہے
دھرنے سے کچھ نہیں ہونے والا جب تک کوئی بڑی پارٹی شامل نہ ہو۔ اب ویسے بھی عمران خان نے فوج پر تنقید چھوڑ کر سیاستدانوں کو گالیاں دینا شروع کردی ہیں۔ اتنی تباہی کے بعد کون طالبان کی حمایت کرنا پسند کرے گا۔
عمران خان بیچارا کب تلک ون میں شو کرتا رہے گا ؟؟؟ عمران خان کا ایک ہی کام ہے سب کو برا کہنا. خان صاحب کوپہلے پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم،ق لیگ اور مشرف سےچڑ تھی اوراب آجکل ن لیگ سے بھی ہو گئی ہے....
خان صاحب اب گاندھی جی کی پیروی کرنا چاہ رہے ہیں شائد۔ دھرنے وغیرہ ناکام لوگوں کے ہتھکنڈے ہوتے ہیں۔ اکیسویں صدی میں انیسویں صدی کی سیاسیت ۔۔۔۔ خان صاحب کی سیاسیتدانی کی اس سے بڑی دلیل کیا ہوگی؟
خرم بھائی یہ کیا بات کر دی آپ نے آپ تو گستاخی کے مرتکب ہوگئے فوراَ سے پیشتر تجدید ایمان کرلیں ورنہ آپ کے خلاف پاکستان کے سب سے جاہل انسان قاضی حسین احمد کا فتویٰ آجائے گا، کیوں کے جماعت اسلامی تو روٹی ہی ان ہی سب خرافات کی کھا رہی ہے سالوں سے، اب وقار اعظم صاحب کا کیا تبصرہ ہوگا آپ کے تبصرے پر ؟
ویسے یہاں بھی صورتِ حال بہت زیادہ مختلف نہیں ہے کہ درج بالا تبصروں میں شخصیات کی بات تو ہو رہی ہے لیکن اصل مسئلے پر کوئی بات کرتا دکھائی نہیں دیتا۔
ڈروں حملوں کا مسئلہ دراصل واضح پالیسی چاہتا ہے اور کچھ نہیں لیکن ہمارے اربابِ اختیار کے نفاق کا یہ عالم ہے کہ وہ ڈرون حملوں کی مذمت بھی کرتے ہیں اور اُن کے حق میں بھی ہیں۔ اگر ڈرون حملے ملکی سلامتی کے لئے ضروری ہیں تو حکومت کو چاہیے کہ ان کی بھر پور تائید کرے اور عوام کو ان کی اہمیت سے روشناس کرائے اور پاکستانی سلامتی کے لئے کیا جانے والا ایک احسن اقدام قرار دیا جائے۔ اور اگر ڈرون حملے واقعی قومی سلامتی اور ملکی خود مختاری کے خلاف ہیں تو پھر زبانی جمع خرچ کرنے کے بجائے عملاً اس کی روک تھام کے لئے حتی المقدور کوشش کی جائے ۔ کم از کم پیمانے پر امریکہ سے مذاکرات کئے جائیں اور اُنہیں بتایا جائے کہ وہ یہ نہ کریں اور امریکہ کے ساتھ مل کر دہشت گردی کی بیخ کنی کے لئے متبادل راستے اختیار کئے جائیں۔ لیکن یہ سب تو جب ہوگا جب حکومت اس نفاق کی کیفیت سے باہر آئے گی اور تمام فیصلوں میں عوام کو اعتماد میں لیا جائے۔ رہی بات ہے عمران خان کے دھرنے کی تو یہ بات بھی سیدھی سی ہے کہ اگر حکومت نفاق کو چھوڑ کسی ایک پالیسی کی بھرپور تائید یا تردید کرتی تو اس دھرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی لیکن ایسا نہیں ہوا سو یہ احتجاج بھی ہو رہا ہے۔ کچھ لوگوں کو شکوہ ہے کہ عمران خان سب کو برا کہتے ہیں تو کیا عمران خان کوئی نئی بات کہتے ہیں کیا؟ میں، آپ بلکہ ساری عوام یہی کچھ کہتی ہے۔ ایک آدھ کو چھوڑ کر آ پ کے تمام سیاستدان کسی نہ کسی حد تک کرپٹ، دھوکے باز، بد عہد اور انتہائی درجے کے مفاد پرست ہیں ۔
عمران خان وہ واحد شخص ہے جس نے ذاتی حیثیت میں بھی پاکستان کے لئے اتنا کام کیا ہے کہ آپ کے دیگر سیاستدان حکومتی وسائل کے باوجود نہیں کر سکے اور کرنا بھی نہیں چاہتے ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان کو سیاست میں نہیں آنا چاہیے بلکہ اُنہیں چاہیے کہ وہ کوئی فلاحی ادارہ بنا لیں اور قوم کی خدمت کریں۔ شاید وہ لوگ یہ بات سوچتے ہیں کہ عمران خان کو سیاست تو آتی نہیں۔ نہ تو وہ کسی سے بنا کر رکھتے ہیں نہ ہی مصلحت سے کام لیتے ہیں۔ نہ وہ کرپٹ ہیں نہ امریکہ نواز ۔ ہر غلط بات کو ببانگِ دہل غلط کہتے ہیں اور سیاسی اتحادیوں سے اپنے تعلقات بگاڑ لیتے ہیں ۔ ایسے شخص کا پاکستانی سیاست میں کیا کام جہاں بغل میں چھری اور منہ پہ رام رام کی پالیسی ہی سب کچھ ہے۔ اگر یہ سب کچھ ایسا ہی ہے تو میں کہنا چاہوں گا کہ ہمارے ملک کو ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہے ۔ رہی بات دہشت گردی کے خلاف پالیسی اور امریکہ سے تعلقات کی تو اگر ہمیں ایسی قیادت میسر آجائے جو پاکستان سے مخلص ہو تو گفتگو سے ان تمام مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔
6 تبصرے:
جب تک ہم ذاتيات چھوڑ کر قوم نہيں بنتے کسی بہتری کی اُميد نہيں ہے
ہمارے ہان يہ اصول بن چکا ہے کہ اپنی خوبياں اُجاگر کرنے کی بجائے دوسروں کی خامياں اُجاگر کی جاتی ہيں ۔ يہ بيمار ذہن کا طريقہ کار ہوتا ہے
دھرنے سے کچھ نہیں ہونے والا
جب تک کوئی بڑی پارٹی شامل نہ ہو۔
اب ویسے بھی عمران خان نے فوج پر تنقید چھوڑ کر سیاستدانوں کو گالیاں دینا شروع کردی ہیں۔
اتنی تباہی کے بعد کون طالبان کی حمایت کرنا پسند کرے گا۔
عمران خان بیچارا کب تلک ون میں شو کرتا رہے گا ؟؟؟ عمران خان کا ایک ہی کام ہے سب کو برا کہنا. خان صاحب کوپہلے پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم،ق لیگ اور مشرف سےچڑ تھی اوراب آجکل ن لیگ سے بھی ہو گئی ہے....
خان صاحب اب گاندھی جی کی پیروی کرنا چاہ رہے ہیں شائد۔ دھرنے وغیرہ ناکام لوگوں کے ہتھکنڈے ہوتے ہیں۔ اکیسویں صدی میں انیسویں صدی کی سیاسیت ۔۔۔۔ خان صاحب کی سیاسیتدانی کی اس سے بڑی دلیل کیا ہوگی؟
خرم بھائی یہ کیا بات کر دی آپ نے آپ تو گستاخی کے مرتکب ہوگئے فوراَ سے پیشتر تجدید ایمان کرلیں ورنہ آپ کے خلاف پاکستان کے سب سے جاہل انسان قاضی حسین احمد کا فتویٰ آجائے گا، کیوں کے جماعت اسلامی تو روٹی ہی ان ہی سب خرافات کی کھا رہی ہے سالوں سے، اب وقار اعظم صاحب کا کیا تبصرہ ہوگا آپ کے تبصرے پر ؟
ویسے یہاں بھی صورتِ حال بہت زیادہ مختلف نہیں ہے کہ درج بالا تبصروں میں شخصیات کی بات تو ہو رہی ہے لیکن اصل مسئلے پر کوئی بات کرتا دکھائی نہیں دیتا۔
ڈروں حملوں کا مسئلہ دراصل واضح پالیسی چاہتا ہے اور کچھ نہیں لیکن ہمارے اربابِ اختیار کے نفاق کا یہ عالم ہے کہ وہ ڈرون حملوں کی مذمت بھی کرتے ہیں اور اُن کے حق میں بھی ہیں۔ اگر ڈرون حملے ملکی سلامتی کے لئے ضروری ہیں تو حکومت کو چاہیے کہ ان کی بھر پور تائید کرے اور عوام کو ان کی اہمیت سے روشناس کرائے اور پاکستانی سلامتی کے لئے کیا جانے والا ایک احسن اقدام قرار دیا جائے۔ اور اگر ڈرون حملے واقعی قومی سلامتی اور ملکی خود مختاری کے خلاف ہیں تو پھر زبانی جمع خرچ کرنے کے بجائے عملاً اس کی روک تھام کے لئے حتی المقدور کوشش کی جائے ۔ کم از کم پیمانے پر امریکہ سے مذاکرات کئے جائیں اور اُنہیں بتایا جائے کہ وہ یہ نہ کریں اور امریکہ کے ساتھ مل کر دہشت گردی کی بیخ کنی کے لئے متبادل راستے اختیار کئے جائیں۔ لیکن یہ سب تو جب ہوگا جب حکومت اس نفاق کی کیفیت سے باہر آئے گی اور تمام فیصلوں میں عوام کو اعتماد میں لیا جائے۔ رہی بات ہے عمران خان کے دھرنے کی تو یہ بات بھی سیدھی سی ہے کہ اگر حکومت نفاق کو چھوڑ کسی ایک پالیسی کی بھرپور تائید یا تردید کرتی تو اس دھرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی لیکن ایسا نہیں ہوا سو یہ احتجاج بھی ہو رہا ہے۔
کچھ لوگوں کو شکوہ ہے کہ عمران خان سب کو برا کہتے ہیں تو کیا عمران خان کوئی نئی بات کہتے ہیں کیا؟ میں، آپ بلکہ ساری عوام یہی کچھ کہتی ہے۔ ایک آدھ کو چھوڑ کر آ پ کے تمام سیاستدان کسی نہ کسی حد تک کرپٹ، دھوکے باز، بد عہد اور انتہائی درجے کے مفاد پرست ہیں ۔
عمران خان وہ واحد شخص ہے جس نے ذاتی حیثیت میں بھی پاکستان کے لئے اتنا کام کیا ہے کہ آپ کے دیگر سیاستدان حکومتی وسائل کے باوجود نہیں کر سکے اور کرنا بھی نہیں چاہتے ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان کو سیاست میں نہیں آنا چاہیے بلکہ اُنہیں چاہیے کہ وہ کوئی فلاحی ادارہ بنا لیں اور قوم کی خدمت کریں۔ شاید وہ لوگ یہ بات سوچتے ہیں کہ عمران خان کو سیاست تو آتی نہیں۔ نہ تو وہ کسی سے بنا کر رکھتے ہیں نہ ہی مصلحت سے کام لیتے ہیں۔ نہ وہ کرپٹ ہیں نہ امریکہ نواز ۔ ہر غلط بات کو ببانگِ دہل غلط کہتے ہیں اور سیاسی اتحادیوں سے اپنے تعلقات بگاڑ لیتے ہیں ۔ ایسے شخص کا پاکستانی سیاست میں کیا کام جہاں بغل میں چھری اور منہ پہ رام رام کی پالیسی ہی سب کچھ ہے۔ اگر یہ سب کچھ ایسا ہی ہے تو میں کہنا چاہوں گا کہ ہمارے ملک کو ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہے ۔ رہی بات دہشت گردی کے خلاف پالیسی اور امریکہ سے تعلقات کی تو اگر ہمیں ایسی قیادت میسر آجائے جو پاکستان سے مخلص ہو تو گفتگو سے ان تمام مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے
نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔