Pages

2/01/2011

انقلاب ابھی دور ہے

تیونس و مصر کے عوامی احتجاج کو دیکھ کر یار لوگ یہ خیال کرنے لگے ہیں کہ ممکن ہے انہیں دیکھ کر پاکستانی قوم/عوام بھی سڑکوں پر آ جائے! حق مانگے یا حق چھین لے! کیوں کہ میں بھی اس عوام کا حصہ ہوں اس لئے اپنی موجودہ اندرونی حالت کو دیکھ کر یہ جان چکا ہوں کہ ابھی عوام حقوق کی جدوجہد کو زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں لے کر جائے گی۔
ابھی بیداری اُس نہج پر نہیں پہنچی کہ عوام گھر سے باہر نکلے!اُن ملکوں کے حاکم ڈکٹیٹر تھے، اور اپنے جمہوری ڈکٹیٹر!! یعنی بظاہر جمہوری مگر درحقیقت ڈکٹیٹر!! کوئی عوام کے دکھ میں اپنا دکھی ہے کہ ملک سے باہر رہ کر 'چندہ' کی رقم پر گزارہ کر کے، عوامی بلکہ قومی مسائل کا حل تلاش کر رہا ہے، کوئی اپنی باری کے انتظار میں ابھی اپنے نئے لگے بال سنوار رہا ہے اور کوئی 'زر' جمع کرنے کو اقتدار میں ہے۔

کل پھر وہاں جانے کا اتفاق ہوا جہاں حاکم جماعت کے 'co-chairman' صاحب کا(جی آب اُن کا ہی گھر ہے کیا ہوا جوبیٹے کے نام پر ہے) گھر ہے! یہ تو علم تھا کہ ایک مخصوص آرڈیننس کے ذریعہ انہوں نے اپنے تمام مکانات کو 'صدارتی رہائش' قرار دے دیا ہے مگر ہم نا واقف ہیں کہ یہ 'بلاول ہاؤس' کا احاطہ ہے کتنا۔ صدارتی رہائش قرار دینے کے بعد اول اول تو بلاول ہاؤس کے سامنے موجود سروس روڈ کو بند کر دیا گیا سیکورٹی کے نام پر یا کے لئے پھر ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ احاطہ اس قدر بڑھتا گیا کہ قریب ہی موجود کلفٹن گرل ہوٹل بند ہوا اوراب یہ ہوا کہ نا صرف سروس روڈ بند ہے بلکہ Express Road کی بھی ساتھ میں 'قبضہ' میں لے لی گئی ہے۔ اور وہاں کنکریٹ کی دیوار بنائی جا رہی ہے جس کی ابتدائی اونچائی قریب 6/7 فٹ ہو گی! سوال یہ ہے کہ اگر صدر پاکستان عوامی سڑک پر اپنی سیکیورٹی کے نام پر قبضہ کر لیں! ایسا ہی کراچی Avari Hotal کے قریب واقعی زرداری ہاؤس والی سڑک پر کیا گیا ہے۔ اور کوئی سؤال کرنے کی ہمت نہ رکھتا ہو یا انگلی نہ اُٹھاتا ہو تو میرا نہیں خیال کہ انقلاب کا سفر ابھی اس قوم نے شروع کرنے کا سوچا بھی ہو!! ابھی یہ قوم حق کے لئے سڑک پر نہیں آئے گی!! البتہ خوش فہمی پال لو تو الگ بات ہے۔
اور جب صدر ایسا کریں تو باقی کسی اور سے کیا توقع ہو سکتی ہے؟
ہنوز انقلاب دور است!!

5 تبصرے:

خالد حمید نے لکھا ہے کہ

عوام جب کرپٹ حمکرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہيں تو انہوں نے بھاگنا ہوتا ہے۔ ايسے ميں قيادت انہی کو ملتی ہے جو کلمہ حق کہنے سے نہيں ڈرتے ہيں۔ ايسے ميں منافق اور نوراکشتی لڑنے والی اپوزيشن بھی خس و خاشاک کی صورت بہہ جاتی ہے اور خمينی کی طرح کا صاف و کھرا ليڈر آگے آتاہے۔

خالد حمید نے لکھا ہے کہ

ر اسلامی ملک کی آمریت کے پیچھے اس کی فوج ہوتی ہے۔ کبھی فوج سامنے آ کر حکومت کر رہی ہوتی ہے اور کبھی پیچھے بیٹھ کر حکومت کرتی ہے۔ ملک کے وسائل پر ان کا قبضہ ہوتا ہے، انہوں نے کبھی دشمن ملک کے اتنے سپاہی نہیں مارے ہوتے جتنا اپنی عوام میں قتل ِعام کیا ہوتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کے میدان جنگ میں ان سے دو ہفتے سے زیادہ لڑا بھی نہیں جاتا۔ میدانِ جنگ میں استعمال ہونے والا اسلحہ یہ اپنی عوام پر چلاتے ہیں۔ یہ ہر اسلامی ملک کی فوج کی مشترکہ خوبی ہے۔

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے کہ

وہ لوگ جو قطار ميں کھڑا ہو کر اپنی باری کا انتظار نہيں کر سکتے ۔ پيسے دے کر اپنے جائز و ناجائز کام کرواتے ہيں ۔ ان سے توقع نيں کی جا سکتی کہ حق بات کيلئے سڑکوں پر نکل کر ڈنڈے اور گولی کھائيں

ساحر خان نے لکھا ہے کہ

ب يہ لمبی لمبی بادشاہت اور آمريت کے جانے کا وقت آگيا ہے۔ لگتا ہے سعوديہ کو کئی محلوں کا انتظام کرنا پڑےگا کيونکہ جلد ہی حسنی مبارک اور پھر کئی اور لمبی حکمرانی کے مزے لوٹنے والے "ريٹائرمنٹ" گزارنے کے لیے (ٹنوں سونے کے سوٹ کيس ليے) عازم سعوديہ ہوں گے۔

ساحر خان نے لکھا ہے کہ

ميری ذاتی رائے ميں پاکستان ميں ايسا انقلاب نہيں آ سکتا ہماری عوام فطری طور پر سست واقع ہے اور چند دن سے ذيادہ کسی چيز ميں دلچسپی نہيں رکھ سکتی۔

جاگ پاکستانی جاگ۔ اللہ کرے پاکستان بھی تيونس اور مصرکے نقش قدم پر چلے۔ امن اور عزت پائے اور ملک سے کرپشن ختم ہو۔ آمين

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

بد تہذیب تبصرے حذف کر دیئے جائیں گے

نیز اپنی شناخت چھپانے والے افراد کے تبصرے مٹا دیئے جائیں گے۔