Pages

9/09/2025

اسرائیل، قطر و حماس

 


​قطر سمیت مشرقِ وسطیٰ کے بیشتر ممالک نے اپنی حفاظت کی ذمہ داری امریکہ کے کاندھوں پر ڈال رکھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں موجود تقریباً پچاس ہزار امریکی فوجیوں میں سے دس ہزار کے قریب قطر میں تعینات ہیں۔ اس ضمن میں قطر سالانہ تقریباً تین سو ملین ڈالر کے اخراجات برداشت کرتا ہے، اور یہ رقم دیگر دفاعی معاہدوں، جن کی مالیت 38 ارب ڈالر ہے، کے علاوہ ہے۔

​آج کا اسرائیلی حملہ قطر اور دیگر خلیجی ممالک کی اس تلخ حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ کرائے کا محافظ صرف اپنی اجرت تک ہی وفادار رہتا ہے۔ کسی ملک، ملت اور اس کی عزت و ناموس کی حفاظت اس کا مقصد نہیں ہوتی۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ 

"جنديٌّ بالأجرة لا يموت في سبيلك"

"کرائے کا سپاہی تمہاری خاطر جان نہیں دیتا"۔

​اگر یہ حملہ قطر کی مرضی سے ہوا تھا، تو اس کا مطلب ہے کہ قطر اپنی خودمختاری گروی رکھ چکا ہے۔ اس ہزیمت کا احساس بحیثیت پاکستانی ہم تب محسوس کر چکے ہیں جب امریکہ اسامہ بن لادن کے تعاقب میں ایبٹ آباد تک آ پہنچا تھا۔ اور اگر یہ حملہ قطر کی مرضی کے بغیر صرف امریکہ کی آشیرباد سے ہوا ہے، تو اہلِ قطر اور دیگر ممالک جہاں امریکی فوج "تحفظ" کے نام پر موجود ہے، انہیں سوچنا چاہیے کہ وہ محفوظ ہیں یا قید؟ اور حفاظت کے نام پر وہ کب تک مقید رہنا چاہتے ہیں؟


9/02/2025

شکاری

 


شکاری کو محافظ سمجھنا سب سے بڑی نادانی ہے؛ وہ آپ پر قربان نہیں جاتا، بلکہ آپ کو قربان کر جاتا ہے۔

دیر یا انکار؟

 

کوئی کہتا ہے کہ دیر سویر تو ہوتی رہتی ہے، انکار نہیں ہونا چاہیے، دیر آید درست آید۔ اس کے برعکس ایک وکیل کہتا ہے کہ اگر دیر ہو گئی تو پھر کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ 'انصاف میں تاخیر، انصاف کا قتل ہے۔' یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی بات کا اثر اُس کے سیاق و سباق سے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ وقت اور موقع کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔

​مثال کے طور پر، اگر ایک ڈاکٹر مریض سے کہے کہ 'آپ نے دیر کر دی'، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا، یعنی علاج سے انکار ہو گیا اور یہ انکار دیر کی وجہ سے ہوا۔ اسی طرح، اگر آپ کی ٹرین یا گاڑی نکل جائے، تو سفر تو نہیں رکتا اور نہ منزل کا فاصلہ بڑھتا ہے، بس آپ کا وقت بڑھ جاتا ہے۔ اب اگلی سواری پر مزید فاصلہ طے ہو گا، اور اگلی سواری ملنے میں دیر لگے گی۔ یہ انتظار ہے، انکار نہیں۔

8/30/2025

آسمان سے برستا پانی

 بارش سیلاب لاتی ہے تو ہریالی بھی لاتی ہے۔ مگر یہ اس پر منحصر ہے کہ بارش کس زمین پر برسی ہے۔ جب زمین نم ہوتی ہے تو اس کی زرخیزی کا در کھل جاتا ہے۔ پکی زمینیں، جن پر پتھر یا پکے مکانات ہوں، پانی میں ڈوب کر تباہ ہو جاتی ہیں لیکن جہاں پانی کو زمین میں جذب ہونے کا راستہ ملے، وہاں سے ہریالی پھوٹتی ہے اور ایک خوشگوار و دلکش منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ تھر کے ریتیلے پہاڑ اس کی بہترین مثال ہیں جنہوں نے آسمان سے برسنے والے پانی کے بعد ایک سبز قالین بچھا لیا ہے۔ یہ مناظر تھر کی چند روز قبل کی واپسی پر بنائی گئی ایک چند سیکنڈ کی ویڈیو سے لیے گئے ہیں۔


8/24/2025

میٹرک کے دوستوں کے ساتھ ایک بیٹھک


لڑکپن کی یاری اور جوانی کا پیار—دونوں ساری عمر نہیں بھولتے، یہ ہم نے ہمیشہ سنا ہے۔ جوانی میں تو کبھی پیار نہ ہوا، البتہ لڑکپن کے دوست آج بھی رابطے میں ہیں، اور ایک آدھ سال بعد بیٹھک بھی ہو جاتی ہے۔



اسکول اور کالج کی دوستی کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اُس وقت کا تعلق ہوتا ہے جب زندگی کی جدوجہد ابھی شروع نہیں ہوئی ہوتی، اور نہ ہی دنیاداری کا کوئی خاص علم یا فہم ہوتا ہے۔ اسی لیے یہ رشتہ خالص اور اصل ہوتا ہے، بے غرضی کا۔


اُس دور کے دوست آج زندگی کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ ہیں—انگریزی میں کہیں تو بالکل "Diversified"۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اُس وقت کا دوست صرف دوست ہوتا ہے: نہ کامیاب نہ ناکام، نہ اچھا نہ برا۔ اُسے پرکھا نہیں جاتا، آزمایا نہیں جاتا، بس دل میں سنبھال کر رکھا جاتا ہے۔