Pages

3/29/2013

خرچہ الیکشن!

آؤ جی جناب کیسے ہیں جناب!
“یار الیکشن کے سلسلے میں آیا ہوں”
سر ہم حاضر ہیں ہم آپ کو ہی ووٹ ڈالیں گے پریشان نہ ہوں
“ابھی ووٹ کے لئے نہیں آیا کسی اور کام سے آیا ہوں”
جی جی بھائی حکم!
“دیکھو گزشتہ تین سال سے میرا آپ سے ایک تعلق بن گیا ہے جو کام آپ تین سال سے کرتے آ رہے ہو ناں اُس کا اُلٹ آپ نے ان تین ماہ میں کرنا ہے”
مطلب کیا کرنا ہے؟
“یار پہلے سرکاری تقریبات کے اخراجات میں آپ ہر چیز و معاملے کی رسید اصل خرچے سے ذیادہ کی دیتے تھے ناں”
جی بھائ
“ہم نے آپ کا خیال کیا تھا تب بھی اب بھی کرے گے”
بھائی آپ حکم کرے
“بس اب کے رسیدوں میں چیزوں کی قیمت آدھی اور کبھی اُس سے بھی کم لکھ دینا”
بھائی وہ تو ٹھیک ہے مگر ۔۔۔۔
“یاراصل قیمت سمیت تیرا کمیشن تجھے مل جائے گاا بس اُس کی تصدیق کر دینا کر دینا کہ رسید والے چارجز درست ہیں جب الیکشن کمیشن والے آئیں! ویسے وہ نہیں آئیں گے! “
جو حکم بھائی کوئی مسئلہ نہیں!

3/24/2013

اردو بلاگرز ہینگ آؤٹ

اردو بلاگرز کا یہ دوسرا ہینگ آؤٹ تھا! اس سے قبل ہونے والی آن لائن ملاقات کی داستان آپ بلال بھائی کے بلاگ پر پڑھ سکتے ہیں! گزشتہ رات ہونے والی ایک اور ایسی ملاقات کی ریکارڈنگ ذیل میں موجود ہے۔ کئی سابقہ بلاگرز کوشش کے باوجوداس ہینگ آؤٹ میں جگہ نہ بنا سکے جن میں جہانزیب اشرف نمایاں ہیں نیز قدیر جنجوعہ اس کے آن ایئر ہونے کی وجہ سے شرکت سے انکاری تھے۔ جناب خرم شبیر و ڈاکٹر منیر سے ایس ایم ایس پر اپنی مصروفات کی وجہ سے معذرت کی۔ اس بار عثمان لطیف جو کہ SEO ہیں نے اس آئن لائن ملاقات میں خصوصی شرکت کی ! اردو بلاگرز نے انہیں آئندہ آئن لائن ملاقات میں اردو بلاگرز کے حوالے سے SEO یعنی سرچ انجن (گوگل) میں عمدہ رینک کے حوالے سے ایک کلاس یا لیکچر کا وعدہ لیا ہے۔ اس آئن لائن ملاقات میں کس کس پہلو پر بات ہوئی اس کا ایک اندازہ آپ ویڈیوز سُن کر لگا سکتے ہیں!!! کل باری باری کُل تین سیشن ہوئے جن میں سے دو کی ریکارڈنگ ذیل میں ہے! جو احباب ویڈیوز نہیں دیکھ سکتے وہ آئی ٹی نامہ والے سے اس سلسلے میں کسی ٹوٹکے کی فرمائش کر لیں!! یا پھر بلال بھائی کو کہہ دے ایک مختصر پچھلی بار کی طرح عمدہ تحریر عنایت کریں۔

3/21/2013

انتخاب

انتخاب کرنا آسان عمل نہیں ہے! یہ اُس وقت مزید دشوار معلوم ہوتا ہے جب اِس مرحلہ پر اپنے فائدے سے زیادہ اجتماعی فائدے کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے. ہمارے معاشرے و خاندانی نظام کی ساخت نے ہمیں بڑوں کی موجودگی میں فیصلہ کرنے سے باز رہنے جیسا رواج تخلیق کیا ہے کہ زندگی میں ہم ہر دوسرے تیسرے معاملہ میں جہاں انتخاب کا موقع ملتا ہے بڑوں کو یہ اختیار دے کر خود کو سعادتمند ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں.
انتخاب سعادتمند مندی فیصلہ کے اختیار سے گریز کرنا نہیں بلکہ فیصلہ کو اُس صورت میں قبول کرنا ہے جب آپ کی مرضی بڑوں سے مختلف ہو جس کا اظہار آپ اُن کے سامنے اس انداز میں کر چکے ہوں کہ وہ آپ کی بات کو تسلیم کریں یا آپ کو ویسا کرنے کی اجازت دے. سعادتمندی کا اصل امتحان اُس وقت شروع ہوتا ہے جب بڑوں کا فیصلہ آپ کے حق میں نقصان کا باعث بن جائے تب آپ کا رویہ یہ بتاتا ہے کہ آپ سعادتمند ہیں یا سعادتمندی کا ڈرامہ کرتے ہیں۔
زندگی میں ملنے والے کتنے فیصلے ایسے ہیں جو ہم اپنی ذات سے بلند ہو کر کرتے ہیں؟
لہذا جناب انتخابات آنے والے ہیں ایسی سعادت مندی سے باز آئیں کہ جہاں بڑوں نے کہا وہاں ووٹ ڈال دیا، یا بے فائدہ سمجھ کر ڈالا ہی نہیں یا یہ کہ ذاتی مفاد کو اجتماعی فائدے کے مقابلے میں اہم جان کر ووٹ بیچ دیا! جس کو آپ مخلص جانے تمام میں بہتر جانے اُسے منتخب کرے۔

3/17/2013

مادر کراچی

گزشتہ دنوں کراچی میں ایک سماجی کارکن محترمہ پروین رحمان کا قتل ہوا ، محترمہ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی پراجیکٹ ڈائریکٹرتھیں! اُن کی خدمات کی بناء پر انہیں “مادر کراچی” کہا جاتا تھا۔ ذیل میں اُن کا ایک انٹرویو ہے جس سے' وجہ قتل' کا جہاں اندزہ لگایا جا سکتا ہے وہاں ہی یہ بات بھی جاننا اہل سمجھ کے لئے دشوار نہ ہو گا کہ کراچی کا اصل لسانی جھگڑا یہاں کی سیاسی جماعتوں کے معاشی و سیاسی زندگی کے بقاہ کے لئے ضروری ہے ، اپنی اس ضرورت ہی کی بناء پر یہ اس ایشو کو زندہ رکھتے ہیں اور جیسے یہ آئندہ الیکشن میں ووٹ کے حصول کو نفرتوں کی کاشت سے نوگو ایریا پیدا کرے گے!لہذا یہ لوگوں کیونکر اس مسئلہ لو حل چاہے گےا!!
انٹرویو انگریزی میں ہے ۔

3/15/2013

اگلے کی باری کے لئے عدت

اوئے کن سوچوں میں گم ہے
“یار ایک ٹینشن میں ہوں مگر جواب نہیں مل رہا؟”
کیسی ٹینشن؟
“یہ نگران حکومت کا عرصہ تین ماہ کیوں ہوتا ہے؟
یار یہ تو آئین میں درج ہے اس لئے
“ابے یہ تو مجھے بھی معلوم مگر یہ مدت ہی کیوں؟؟؟”
وہ اس لئے کہ ہم مسلمان ہیں!
“مطلب؟”
اچھا سمجھاتا ہوں پہلے یہ بتا کہ عوام اسم مذکر ہے یا مونث؟
“قاعدے کے مطابق تو یہ مونث ہی ہے”
اور حکمران کیا ہیں؟
“حکمران چور ہیں”
ابے میں حکمران بطور اسم پوچھ رہا ہوں!
“تو کیا مجھ سے اردو کا پرچہ حل کروانے آیا ہے جو تذکیر و تانیث کھیل رہا ہے؟ چلو وہ مذکر ہے پھر”
تو سمجھ لے ناں تین حیض قریب تین ماہ ہی بنتے ہیں ناں
“لعنت ہے یار تیری منتق پر تیرا مطلب ہے وہ ہماری _____________________ ۔ تجھ سے تو کچھ پوچھنا ہی بے کار ہے”

3/03/2013

ناکامی کا جواز

یہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ یار لوگ کسی امتحان، مقابلے یا انتخاب کے سلسلے میں اپنی جدوجہد و تیاری کی کوتاہی کو چھپانے کے لئے عموماً ناکامی کی ایسی وجوہات کو تخلیق کرتے ہیں جس میں حقیقت نہیں ہوتی مگر سامنے والے اِس لئے اُسے قبول کر لیتے ہیں کہ انہوں نے بھی زندگی میں ایسے ہی کسی بہانے کو اپنی یا اپنے کسی اپنے کی ناکامی کے جواز کے طور پر پیش کیا تھا۔
کامیابی یقین جانے ایک قابل و ذہین شخص سامنے والی کی صرف ضرورت ہی نہیں ہوتا بلکہ اُس کی مجبوری ہوتا ہے۔ اور مسلسل جدوجہد ہی کسی فرد کو سامنے والے کی مجبوری کے قابل بناتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ جواز ناکام ہونے والا صرف دوسرے کو مطمئین بھرا جواب دینے کے لئے ہی نہیں تراشتا بلکہ بیشتر خود کو تسلی دینے کے لئے استعمال کرتا ہے۔
کامیاب ہونا اور کامیاب رہنا دو مختلف چیزیں یا باتیں ہیں۔ کامیاب ہونے والے لازمی نہیں سدا کامیاب رہے مگر وہ ہمیشہ ناکام نہیں ہوتا جو ناکامی کا جواز تراش کر پیش کرنے کے بجائے اُس وجہ کو ختم کرنے یا مدھم کرنے کی سہی کرے۔
میں نے اپنے اردگرد ایسے لوگوں کو جو جہد مسلسل پر یقین رکھتے ہیں اخلاقیات کے تمام قاعدوں کی پاسداری کرتے ہوئے کامیاب دیکھا ہے اور اخلاقی اصولوں کو کامیابی کی خاطر پامال کرنے کے باوجود ناکام دیکھا ہے، یہ ہی وہ افراد ہیں جنہیں ناکامی کا جواز چاہئے ہوتا ہے۔