Pages

7/21/2012

رمضان اسپیشل

“بیٹا اب کے اس رمضان میں تو میں کہتا ہو کہ تم نماز کی پابندی کو اپنی عادت بنا لو، یہ ایک نیک عادت ہے، زندگی کی کئی الجھنیں اس ایک عادت سے دور ہوجاتی ہیں، پھر یہ ہے بھی برکتوں والا مہینہ”
جی بہتر ابو جی! میں کوشش کرو گا کہ جس قدر ممکن ہو خود کو اس جانب راغب کرو
“اور ہاں بیٹا آج بینک سے خلیل صاحب کا دوبارہ فون آیا تھا کہہ رہے تھے اُس نے تمہیں بھی کال کی تھی دو چار دن پہلے مگر تم نے اُن کی بات کو شاید توجہ نہیں دی”
جی آیا تو تھا مگر مجھے اُن کی بات سمجھ نہیں آئی! کسی نئے اکاؤنٹ کی کوئی بات کر رہے تھے۔ “ہاں ایسا کرنا کل آفس کے بندے کو بھیج کر ایک حلفیہ بیان جمع کروا دینا کہ ہماری زکوۃ نہ کاٹی جائی وکیل صاحب کو میں نے کہہ دیا تھا کہ وہ ایسا ایک حلف نامہ بنا کر رکھ دیں صبح اُن کے منشی سے لے کر خلیل صاحب کو دے دینا”
مگر ابو کیا یہ ٹھیک ہو گا؟ رمضان میں تو زکوۃ دینے کا ثواب ذیادہ نہیں ہو گا!
“اب ذیادہ مولوی بنے کی ضرورت نہیں! مجھے معلوم ہے تم جتنے مسلمان ہو، جو کہا ہے وہ کرو”
مگر ابو یہ ٹھیک نہیں ہے
“اب تماری اس ضد کے پیچھے میں ساٹھ ستر ہزار کا نقصان نہیں برداشت کر سکتا”
یہ نیکیوں کا مہینہ ہے
“نیکیوں کا ماما! تو نے نہیں کرنا تو نہ کر میں کل خود کسی اور کے ذمہ یہ کام لگا دوں گا”

7/11/2012

بلا عنوان

میں ملک کے لئے اپنی جان تک دے سکتا ہوں! یہ جھوٹ نہیں سچ ہے ایسے دعوی وہ کرتے رہے ہیں جو عمل سے ایسا نہیں کر سکتے۔ دوسرے کو یہ تاثر دینے کے لئے کہ میں سچا ہو بات کے آغاز میں کلمہ پڑھنے والے اکثر جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ جو کہتے ہیں اخلاقیات بہت اہم ہیں وہ خود اس کی تردید اکثر اپنے عمل سے کرتے ہیں اور سوال کرنے پر اپنے اشارے، عمل اور کئی بار زبان سےہی کہہ دیتے ہے کتابی باتیں کتابوں میں اچھی لگتی ہے۔
اُوپر سے منظور شدہ “میرٹ” لیسٹ میں سے اب چناؤ اہلیت و قابلیت کا نہیں ہوتا جہالت کا ہوتا ہے جو کم جاہل ہو گا نوکر ہو جائے گا البتہ کم جہاہل کے چناؤ کے عمل میں کئی اہل و قابل افراد کو اس لئے مدعو کر لیا جاتا ہے کہ اُن میں مایوسی کے بیج کو بو کر اُن کو کسی قابل نہ رہنے دیا جائے۔
قانون معاشرتی اخلاقیات و رواجات سے جنم لیتے ہیں، جب اخلاقیات و رواجات بہتر تھے تو جو قانون بنے وہ اب اہل اقتدار کے راہ میں دشواریاں پیدا کرتے ہیں لہذا نئے “میعار” کی روشنی میں ترمیمات کی جائیں گی کہ کوئی “گرفت” میں نہ آئے۔

7/06/2012

انعامی لا قانونیت

یہ ایک عام تاثر ہے کہ انعامی اسکیم میں جن کی بڑی رقم نکلتی ہے اُن کا وجود نہیں ہوتا! اس سے ذیادہ اہم بات یہ کہ اپنے مال یا سروس کی تشہیر کے لئے انعام کا لالچ دینا کیا اخلاقی طور پر درست ہے؟
آپ کا خیال و جواب کچھ بھی ہو مگر یہ سلسلہ میرے ملک میں زور و شور سے جاری ہے، اور ادارے خواہ وہ سرکاری ہوں یا غیر سرکاری خود ایسی اسکیموں کی تشہیر کے لئے زور بھی لگاتے ہیں اور شور بھی مچاتے ہیں۔
اس وقت میڈیا میں ٹیلی کام کمپنیاں سب سے ذیادہ انعامی لالچ کی ترغیب کے ذریعے صارفین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں! بغیر کسی شک شبہ کے ایسی کوئی بھی اسکیم شرعی نقطہ سے ناجائز ہے خواہ انعام پانے والے اپنی انٹرویو میں یہ ہی کہے میں نے انعام کا سن کر دو رکعات شکرانے کے ادا کئے :)
کیاملکی قانون کے تحت یہ جائز ہیں؟
یہ سوال عموما سامنے آتا ہے اور وہ بھی اس رائے کے ساتھ اگر اجازت نہ ہو تو کیوں ایسی اسکیمیں متعارف ہوں؟ جواب سادہ ہے تعزیرات پاکستان کی دفعہ294 بی کے تحت کاروباری معاملات کے سلسلے میں انعامات کا لالچ دینا قابل گرفت جرم ہے۔
اس دفعہ کے لفاظ یوں ہیں!
Whoever offers, or undertakes to offer, in connection with any trade or business or sale of any commodity, any prize, reward or other similar consideration, by whatever name called, whether in money or kind, against any coupon, ticket, number or figure, or by any other device, as an inducement or encouragement to trade or business or to the buying of any commodity, or for the purpose of advertisement or popularising any commodity, and whoever publishes any such offer, shall be punishable, with imprisonment of either description for a term which may extend to six months, or with fine, or with both.

ہاں کہنے کو سزا صرف چھ ماہ ہے مگر بات یہ ہے کہ ملکی قانون میں انعامی ترغیب کے ذریعے کاروبار کا فروغ ایک غیر قانونی عمل ہے اور یہ لاقانونیت باقاعدہ ہمارے ملک میں چل رہی ہے۔ 1965 میں یہ دفعہ تعزیرات پاکستان میں داخل کی گئی۔ دلچسپ یہ کہ نہ صرف عام کمپنیاں و ادارے اس قانون کی پابندی نہیں کر رہے بلکہ مختلف ادوار میں ریاستی مشینری و حکومتی سرپرستی میں اس قانون کے خلاف ورزی کی جاتی رہی ہے۔
معاشرے و ریاستوں کی تنزلی کا اندازہ قانون کی پاسداری سے لگایا جاتا ہے اور ہمارا معاشرہ قانون شکنی کو معیوب نہیں سمجھتا! کیوں؟

7/05/2012

قانون کو بدل دیتے ہیں!

کیا کریں طاقت ہاتھ میں ہیں! اہل اقتدار ہیں! جو چاہے آپ کی کابینہ کرے! آپ نہیں ہوں گے تو آپ کے بچے ہوں یہ ملک بنا ہی آپ کی حکمرانی کے لئے ہے انگریز نہ سہی انگریز کے ملک کی شہریت ہی سہی!! ایسے ہی تو نہیں ہم کہتے کالے انگریز!! آپ میں اور اُن میں ایک ہی فرق ہے وہ باہر سے گورے ہیں اندر سے تو دونوں کا حال ایک سا ہی لگتا ہے! جی بلکل ایسا جیسا ہمارا باہر سے ہے، کالا!! اندر کا رنگ دیکھنے کے لئے کوئی خاص ٹوٹکا نہیں کرنا پڑتا بس سامنے والے کے قول و فعل کو دیکھا و پرکھا جاتا ہے۔
اب آپ سے کیا پردہ! بلکہ یہ کہہ لیں آپ کا کیا پردہ سب صاف صاف نظر آ رہا ہے مگر کوئی نا سمجھ بچہ ہجوم میں نظر نہیں آ رہا جو کہہ سکے “بادشاہ بے لباس ہے” ہم تو یہ ہی کہیں گے نہایت عمدہ لباس ہے جو آپ نے پہن رکھا ہے، واہ واہ سرکار واہ واہ۔
قانون کا شکنجہ سب کے لئے ہوتا ہے یہ سب میں سب ہی تھوڑا شامل ہیں۔ سب سے مراد تو عوام ہے عوام! عوام یعنی ہے عام۔
وہ قانون جو اپنی گردن پر فٹ ہوتا ہو جو تو نظام میں فٹ نہیں لہذا قانون بدل دو لہذا فیصلہ ہوا بدل دیا جائے گا!
دوسری ملک کے شہری یہاں کی شہریت لے کر اور یہاں کے "اہل وفا" اُن سے عہد وفا کر کے بھی حکمرانی کا حق رکھیں گے اور وہ عدلیہ کی حکم عدولی پر قابل سزا نہ ہو گے!

7/02/2012

ہون میں کی کراں؟

ایک تو عرصہ ہوا ہم سے رٹا نہیں لگتا دوسرا کبھی بھی ہم سے یہ نہیں ہو پایا کہ امتحان میں سوالات کے جوابات کو لمبا کرنے کے لئے بلاوجہ الفاظ کی جُگالی کریں۔ اس لئے اکثر سوالات کے جوابات کا مواد مقدار میں مقرر نمبروں کے مقابلے میں کم ہی ہوتا ہے ۔مگر خوش قسمتی یہ کہ ہمیں کبھی کسی تحریری امتحان میں ناکامی کا سامنا نہیں کرنا پڑا یعنی جس طرح کبھی انٹرویو میں پاس نہیں ہوئے بلکل اس ہی طرح تحریری امتحان میں خواہ کس کی نوعیت کا ہو ناکامی کا منہ نہیں دیکھنا پڑا۔
ہمارا خیال تھا کہ زندگی میں ملنے والی چند نئی کامیابی و ناکامیوں میں اس بار بلا آخر امتحانی پرچوں میں ناکامی کا سنگ میل عبور کرنے کا موقعہ ملے گا مگر ہائے رے قسمت!!! ہر پرچے پر کالج پہنچنے پر معلوم ہوتا کہ پرچہ ملتوی ہو گیا !! وفاقی اردو میں طلباء تنظیموں کے جھگڑے کی بناء پر تمام پرچے ایک ایک کر کے ملتوی ہوتے رہے جن کا ہمیں بروقت علم نہ ہوا اخبار میں خبر آتی مگر اخبار میں وہ صحفہ پڑھنے کی ہمیں عادت نہ ہے لہذا ابو جان سے ڈانٹ پڑی ہے کہ تجھے باقی ساری خبروں کی جزیات تک کا علم ہوتا ہے مگر اپنے پرچوں کی خبر نہیں۔
سچی بات تو یہ ہے بغیر تیاری امتحان کو جانے کو دل نہیں کرتا مگر اُس سے ذیادہ دکھ اُس وقت ہوتا ہے جب منزل امتحان پر پہنچ کر علم ہو کہ امتحان ملتوی ہو گیا ہے تو دل پر ایک چوٹ سی لگتی ہے !!! کیوں ؟ یہ سمجھ نہیں آتی!