Pages

2/26/2012

لسّے دا کیہہ زور؟

لسّے دا کیہہ زور محمد!! نس جانا یا رونا!! میاں محمد بخش نے لاچار کے رونے ہا بھاگ جانے کو اُس کی کمزوری بتا کر طاقت ور کی برتری کا راز افشاء کر دیا ہے اور اس کی مثال اب تک ہمارے معاشرے میں موجود ہے۔

گزشتہ دنوں ضمنی انتخابات ہوئے! جن کئی ایک مقامات پر اسلحے کی نمائش و تشدد و دھاندلی کی بازگشت سنائی دی!
اُن واقعات میں سب سے دلچسپ خبر ایک خاتون امیدوار وحیدہ شاہ کا اپنے حلقے کے ایک پولنگ اسٹیشن کی دو پریذائیڈنگ آفیسرز کو طمانچے دے مارے ذیل میں ایک خبر کی ویڈیو موجود ہے۔



محترمہ اپنے اس حلقے سے الیکشن جیت کر اپنی پارٹی کے کو چیئرمین کے دعوے کے تحت “جمہوریت بہترین انتقام” کے نظریے کو تقویت دینے کو اسمبلی کا حصہ بن گئی ہیں۔


محترمہ کی قابلیت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ جن پریذائیڈنگ آفیسرز نے پولنگ بوتھ میں اپنے چہرے نہیں چھپائے وہ پریس کانفرنس میں باپردہ حالت میں موجود تھی! جبکہ اندر کی خبر والے بتاتے ہیں اُس ہی لمحے متعلقہ پریذائیڈنگ آفیسرز اپنے گھروں میں موجود تھی۔

منتخب حکمرانوں کے یہ رویے ہوں تو کیا تبدیلی ممکن ہے؟

2/23/2012

مداخلت کیسی؟

میاں کیا منہ بنا کر پھر رہے ہوں کیا ہوا؟
“ابے ان امریکیوں کی تو ایسی کی تیسی!”
ابے اب کے کیا ہوا؟ جو ایسی تیسی کرنے کا خیال آیا؟
“دیکھو ذرا تو قرارداد پیش کرتے پھرتے ہیں پاکستان کو توڑنے کی”
اجی کون سے قرارداد پیش کر دی؟
“ابے وہ ہی پاکستان، ایران اور افغانستان میں سے ایک نئی ریاست بنانے کی تاکہ بقول خالق قرارداد کے وہ ریاست یہاں انتہا پسند کے خلاف اُن کی معاون ہو”
تو پھر؟
“تو پھر یہ کہ ہم ایسی کوئی امریکیوں کی حرکت برداشت نہیں کریں گے ہماری حکومت نے بھی ہر سطح پر امریکیوں کو یہ بتا دیا ہے”
(جواب میں زور دار قہقہہ)
“تم یوں کیوں ہنس رہے ہو اس بات پر؟”
بھو لے بادشاہ کس حکومت نے؟ وہ جو ڈراؤن حملے نہیں روک سکی؟ وہ اپنی فوج کے خلاف خود امریکیوں کو خط لکھتی ہے؟ اور وہ جو ہر وقت ہر شعبہ میں امریکی کی امداد وصول کر رہی ہے؟ جو مانگ کر کھاتے ہیں وہ بتاتے ہیں بلکہ بتائی بات پر عمل کرتے ہیں”

2/22/2012

قائداعظم اور مولانا اشرف علی تھانوی

برادر عزیز، ہارون الرشید نے اپنےایک کالم میں لکھا ہے کہ ”روایت ہے مولانا اشرف علی تھانوی کا بھیجا ہوا علماء کا ایک وفد قائداعظم کی خدمت میں پہنچا اورملاقات میں دو نکات پر زرو دیا۔ اول سیاست اور مذہب اور دوم جھجکتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ذاتی بات ہے مگر انہیں نماز پڑھنی چاہئے“۔ اسی کالم میں ہارون الرشید نے مجھ سے تفصیل لکھنے کی فرمائش کی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ محض روایت نہیں بلکہ مستند واقعہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہے۔ میں نے 2001ء میں محترم ارشاد احمد حقانی صاحب مرحوم سے قلمی بحث میں اس کا حوالہ دیا تھا اور پھر افتخار احمد چودھری کے ساتھ یوم قائداعظم کے حوالے سے جیو کے پروگرام ”جوابدہ“ میں بھی عرض کیا تھا کہ قائداعظم کی مذہبی تربیت مولانا اشرف علی تھانوی کی ہدایت پرا ن کے ساتھیوں اور خواہر زادوں نے کی تھی جن کی قائداعظم سے طویل ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ان ملاقاتوں کا نتیجہ تھا کہ انگلستان سے واپسی کے بعد قائداعظم کی تقریروں پر واضح مذہبی رنگ نظر آتا ہے، ان کی تقریروں میں جا بجا اسلام کے حوالے ملتے ہیں، خدا کے سامنے جوابدہی کے خوف کا خوف طاری ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ قائداعظم کی تقاریر کو بغور پڑھنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ 1934ء کے بعد ان کے نظریات میں ایک واضح تبدیلی نظر آتی ہے، مذہب کی جانب جھکاؤ محسوس ہوتاہے اور ان کے تصور قومیت اور سیاست میں بنیادی تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ قائداعظم کوئی مذہبی شخصیت نہیں تھے اور نہ ہی علامہ اقبال کی مانند ان کی مذہبی تربیت ہوئی تھی۔ وہ ایک کھرے اور سچے مسلمان تھے اور اسلام کی تعلیمات میں یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے طور پر اسلامی نظام، سیرت نبوی اور قرآن حکیم کا گہرا مطالعہ کیا تھا جس کے حوالے سے ان کی تقاریر میں جا بجا ملتے ہیں۔ وہ قرآن حکیم پر غور و فکر کرتے تھے اور اس کی گواہی نہ صرف منیر احمد منیر کی کتاب ”دی گریٹ لیڈر“ کے عینی شاہدین دیتے ہیں بلکہ جنرل محمد اکبر کی کتاب ”میری آخری منزل“ سے بھی ملتی ہے۔ گنتی کے مطابق قائداعظم نے قیام پاکستان سے قبل 101دفعہ اور قیام پاکستان کے بعد چودہ دفعہ اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان کے آئینی ڈھانچے اور نظام کی بنیاد اسلامی اصوبوں پر رکھی جائے گی اور انہوں نے یہ بات تو کئی بار کہی کہ ”قرآن مجید“ ہمارا راہنما ہے۔ حتیٰ کہ سٹیٹ بینک کی افتتاحی تقریر میں بھی اسلامی اصولوں کی بنیاد پر اقتصادی نظام تشکیل دینے کی آرزو کا اظہار کیا۔ مجموعی طور پر قائداعظم پاکستان کو اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے، مذہبی ریاست ہرگز نہیں کیونکہ اسلام میں تھیوکریسی کا کوئی تصور موجود نہیں۔ افسوس تو اس بات پر ہوتا ہے کہ ہمارے سیکولر دانشوروں نے قائداعظم کی تقاریر کو پڑھا ہی نہیں اور نہ ہی ان کی روح کو سمجھا ہے۔ وہ فقط چند ایک تقاریر پڑھ کر اپنا مطلب نکال لیتے ہیں اور اس پہلو پر غور کرنے کی زحمت نہیں فرماتے کہ وقت گزرنے کے ساتھ کب اور کیسے قائداعظم کے نظریات میں تبدیلی آتی گئی اورانہوں نے مسلمانوں کے حوالے سے ”اقلیت“ سے ”قومیت“ تک کا سفر کیسے طے کیا۔ اقبال کا فکری ارتقاء بھی اسی حقیقت کی غمازی کرتا ہے۔ اسلام مخالف اور دین بیزار حضرات قائداعظم کو سیکولر ثابت کرتے رہتے ہیں اور ان کے علم کاحال یہ ہے کہ وہ ا کثر دعوے کرتے پائے جاتے ہیں کہ قائداعظم نے کبھی پاکستان کو اسلامی مملکت بنانے کا اعلان نہیں کیا۔ یہ سطحیت کی حد ہے کیونکہ قائداعظم نے فروری 1948ء میں امریکی عوام کے نام براڈ کاسٹ میں پاکستان کو ”پریمیئر اسلامک اسٹیٹ“ قرار دیا تھا۔ (بحوالہ قائداعظم کی تقاریر جلد چہارم صفحہ 1064تدوین خورشید یوسفی) البتہ سیکولر کا لفظ کبھی ان کی زبان سے نہیں نکلا۔ قائداعظم کے نظریات کیا تھے اور وہ پاکستان کو کیسی ریاست بنانا چاہتے تھے، یہ میرا ذاتی مسئلہ نہیں لیکن دین بیزار حضرات اس حوالے سے جب قائداعظم کومولوی محمد علی جناح کہتے اور مجھ پر پھبتی کستے ہیں تو میں محظوظ ہوتا ہوں اور دعا مانگتا ہوں کہ اللہ انہیں قائداعظم کی تقاریر پڑھنے کی توفیق دے۔ رہا آج کا پاکستان تو وہ نہ اسلامی ہے نہ جمہوری ہے اورنہ ہی فلاحی ہے بلکہ آمریت اور جمہوریت کا ملغوبہ ہے ،جہاں اقتدار اور سیاست پر دولت کی اجارہ داری ہے، نیم خواندہ، نظریاتی منافق اور ہوس زدہ طبقے چھائے ہوئے ہیں اور عوام کے نام پر عوام کے لئے بنائے گئے پاکستان میں عوام پس رہے ہیں۔

بات چلی تھی مولانا اشرف علی تھانوی اور قائداعظم کی مذہبی تربیت کے حوالے سے اور قدرے دور نکل گئی۔ اس ضمن میں جس تفصیل کا مطالبہ کیا گیا ہے وہ منشی عبد الرحمن خان مرحوم کی کتاب ”تعمیر پاکستان اور علمائے ربانی میں“ تفصیل سے موجود ہے اور پڑھنے کے لائق ہے۔ منشی عبد الرحمن مرحوم نے بڑی محنت اور تحقیق سے مواد جمع کیا ہے اور قائداعظم کے حوالے سے ان گوشوں پر روشنی ڈالی ہے جن کا ذکر نہ ہماری تحریک پاکستان پر لکھی گئی کتابوں میں ملتا ہے اور نہ ہی مغربی سکالرز قائداعظم کی سوانح لکھتے ہوئے انہیں قابل توجہ سمجھتے ہیں کیونکہ یہ انہیں ”سوٹ“ (Suit)نہیں کرتا۔ آج کا نوجوان تو یہ بھی نہیں جانتا کہ مولانا اشرف علی تھانوی بہت بڑے سکالر، تفسیر قرآن اور سیرت نبوی کے عظیم مصنف اور بڑی روحانی شخصیت تھے۔ ایسی شخصیت کا مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں متفکر رہنا قابل فہم ہے۔ مولانا شبیر علی تھانوی کی ”روئیداد تبلیغ“ کا حوالہ دیتے ہوئے منشی عبد الرحمن مرحوم نے لکھا ہے ”حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی دوپہر کا کھانا نوش فرما کر قیلولہ کے لئے خانقاہ میں تشریف لائے اور مجھے آواز دی۔ حاضر ہوا تو حضرت متفکر تشریف فرما تھے۔ (یہ مئی 1938کا واقعہ ہے) اس زمانہ تک قرارداد پاکستان منظور نہیں ہوئی تھی مگر کانگرس اورہندوؤں کی ذہنیت بے نقاب ہوچکی تھی… حضرت نے دو تین منٹ کے بعد سر اٹھایا اور ارشاد فرمایا ”میاں شبیر علی ہوا کا رخ بتا رہا ہے کہ لیگ والے کامیاب ہو جاویں گے اور بھائی جو سلطنت ملے گی وہ ان ہی لوگوں کو ملے گی جن کو آج ہم فاسق فاج کہتے ہیں، مولویوں کوتو ملنے سے رہی۔ لہٰذا ہم کو یہ کوشش کرنا چاہئے کہ یہی لوگ دین دار بن جاویں۔ آج کل کے حالات میں اگر سلطنت مولویوں کو مل بھی جاوے تو شاید چلا نہ سکیں گے… ہم کو تو صرف یہ مقصد ہے کہ جو سلطنت قائم ہو وہ دیندار اور دیانتدار لوگوں کے ہاتھ میں ہو اور بس…“
میں نے ارشاد سن کر عرض کیا کہ پھر تبلیغ نیچے کے طبقہ سے شروع ہو یا اوپر کے طبقہ یعنی خواص سے۔ اس پرارشاد فرمایا کہ اوپر کے طبقہ سے کیونکہ وقت کم ہے اور خواص کی تعداد بھی کم ہے۔ اگر خواص دیندار بن گئے تو انشاء اللہ عوام کی بھی اصلاح ہو جائے گی۔ اس پس منظر اور اس جذبے کے تحت مولانا اشرف علی تھانوی نے ایک وفد ترتیب دیا،نواب محمد اسماعیل کے ذریعے قائداعظم سے ملاقات کا انتظام کیا جس کا احوال اگلے کالم میں بیان کروں گا انشاء اللہ… فی الحال اتنا ذہن میں رکھیں کہ نواب محمد اسماعیل مسلم لیگ کے سرکردہ لیڈر تھے اور دسمبر 1947میں جب مسلم لیگ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا اور ہندوستان کے لئے انڈیا مسلم لیگ بنائی گئی تو نواب اسماعیل اس کے پہلے صدر تھے۔


جیسے کہ اوپر لکھا کہ قائداعظم نے الگ وطن کا مطالبہ اس بنیاد پر کیا تھا کہ مسلمان ہر لحاظ سے ایک علیحدہ قوم ہیں اور ان کا مذہب، کلچر، تاریخ،معاشرت اور انداز فکر ہندوؤں سے بالکل مختلف ہے۔ ان کی 1934ء سے لے کر1948ء تک کی تقاریر پڑھی جائیں تو ان پرقرآنی تعلیمات کا گہرا اثر نظر آتا ہے، پاکستانیوں کو تو نہ قائداعظم کی مستند اور معیاری سوانح عمری لکھنے کی توفیق ہوئی ہے اور نہ ہی ان کی سیاسی فکر کا تجزیہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے لیکن ایک برطانوی شہری محترمہ سلینہ نے ”سیکولر جناح اینڈ پاکستان“ نامی کتاب لکھ کر یہ حق ادا کر دیا ہے۔ اس کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں سلینہ نے قرآنی آیات کے حوالے دے کر تحقیق اور عرق ریزی کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ جناح کے اکثر تصورات اور افکار قرآن حکیم سے ماخوذ تھے اور یہ کہ کاؤس جی سے لے کر پروفیسر پرویز ہوڈ بھائی تک جتنے لکھاریوں نے انہیں سیکولر قراردیا ہے وہ بددیانتی کے مرتکب ہوئے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی تحریروں کی بنیاد جسٹس منیر کی کتاب میں دی گئی قائداعظم کی جس تقریر پر رکھی ہے وہ الفاظ قائداعظم کے نہیں بلکہ جسٹس منیر مرحوم کے اپنے ہیں اور ان کی ”انگریزی“بھی غلط ہے جوقائداعظم کی نہیں ہوسکتی۔ وزیرآباد کے محمد شریف طوسی بنیادی طور پر مدرس تھے ،انہوں نے انگریزی اخبارات میں پاکستان کے حق میں اتنے مدلل اور زوردار مضامین لکھے کہ قائداعظم نے متاثر ہو کر انہیں بمبئی بلایا اور چھ ماہ اپنے پاس رکھ کر ان سے ”پاکستان اینڈ مسلم انڈیا“ اور ”نیشنلزم کنفلیکٹ ان انڈیا“ جیسی معرکة الاراء کتابیں انگریزی زبان میں لکھوائیں۔ طوسی صاحب نے اپنی چھ ماہ کے قیام کی یاداشتوں میں لکھا ہے کہ قائداعظم ہر روز صبح علامہ یوسف علی کے قرآن حکیم کے انگریزی ترجمے کا مطالعہ کیا کرتے تھے اور سید امیر علی کی کتاب ”سپرٹ آف اسلام“ پڑھا کرتے تھے۔ انہوں نے شبلی نعمانی کی کتاب ”الفاروق“ کے انگریزی ترجمے کو بغور پڑھ رکھا تھا۔ یہ ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے کیا تھا۔ ان کی لائبریری میں سیرت نبوی، اسلامی تاریخ اور قرآن حکیم کے تراجم پر بہت سی کتابیں موجود تھیں جو ان کے زیر مطالعہ رہتی تھیں۔


میں ذکر کر چکا ہوں کہ جب حکیم الامت مولانا اشرف تھانوی نے محسوس کیا کہ انگریزوں کی رخصتی کے بعد اقتدار مغربی تعلیم یافتہ لیڈران کو ملے گا توانہوں نے ان کی مذہبی تربیت کا پروگرام بنایا اور اس ضمن میں قائداعظم محمد علی جناح سے ملاقات کے لئے ایک وفد ترتیب دیا جس کے سربراہ مولانا مرتضیٰ حسن تھے اور اس وفد میں مولانا شبیر علی تھانوی ، مولانا عبد الجبار، مولانا عبد الغنی، مولانا معظم حسنین اور مولانا ظفر احمد عثمانی شامل تھے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی سگے بھائی اور مولانا اشرف تھانوی کے بھانجے تھے جبکہ مولانا شبیر علی تھانوی مولانا اشرف تھانوی کے بھتیجے تھے۔ دسمبر1938ء میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس پٹنہ میں ہونا تھا۔ مولانا شبیر احمدعثمانی والدہ کی علالت کے سبب جا نہ سکے چنانچہ دوسرے حضرات وفد کی صورت میں پٹنہ پہنچے، نواب اسماعیل خان کے ذریعے قائداعظم سے رابطہ ہوچکا تھا۔ پٹنہ میں نوابزادہ لیاقت علی خان کے ذریعے قائداعظم سے پٹنہ جلسہ عام سے پہلے کا وقت مانگا گیا کیونکہ علماء قائداعظم سے ملے بغیر مسلم لیگ کے اجلاس میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے۔ 25دسمبر 1938کو شام پانچ بجے یہ وفد قائداعظم سے ملا۔ ملاقات ایک گھنٹہ جاری رہی جس کی تفصیل مولانا شبیر علی تھانوی کی ’روئیداد‘ میں موجود ہے اور اس کا ذکر منشی عبد الرحمن کی کتاب کے صفحات 61-62میں بھی ملتا ہے۔ وفد کے تاثرات ان الفاظ میں جھلکتے ہیں ”ہم ان کے (قائداعظم ) کے جوابات سے متاثر ہوئے۔ ان کے کسی دینی عمل کی کوتاہی کے متعلق عرض کیا گیا توبغیر تاویل و حجت اپنی کوتاہی کو تسلیم کیا اور آئندہ اصلاح کا بھی وعدہ کیا۔ یہ صرف حضرت تھانوی کا روحانی فیض کام کر رہا تھا ورنہ جناح صاحب کسی بڑے سے بڑے کا اثر بھی قبول نہ کرتے تھے“۔ تفصیل اس ملاقات کی دلچسپ اور فکر انگیزہے جس میں قائداعظم نے کہا ”میں گناہگار ہوں… وعدہ کرتا ہوں، آئندہ نماز پڑھا کروں گا“ (بحوالہ منشی عبد الرحمن صفحہ26)چنانچہ اس وفد نے پٹنہ میں مسلم لیگ کے سالانہ جلسے میں شرکت کی جہاں مولانا اشرف تھانوی کا تاریخی بیان پڑھا گیا۔ اس کے ذریعے ارباب و ارکان مسلم لیگ کو اسلامی شعائر کی پابندی کی تلقین کی گئی تھی۔ دوسری ملاقات 12فروری1939ء کو دہلی میں شام سات بجے ہوئی۔ اڑھائی گھنٹے کی اس ملاقات کے بعد قائداعظم نے کہا کہ ”میری سمجھ میں آگیا ہے کہ اسلام میں سیاست سے مذہب الگ نہیں بلکہ مذہب کے تابع ہے“ (بحوالہ روائیداد از مولانا شبیر علی تھانوی، صفحہ نمبر7)۔ اس ملاقات میں مولانا شبیر علی تھانوی کے ساتھ مولانا مفتی محمد شفیع صاحب بھی تھے جن کا ذکر قیام پاکستان کے بعد آئین سازی اور علماء کے اتفاق رائے کے حوالے سے ملتا ہے۔ مختصر یہ کہ مولانا اشرف علی تھانوی کے نمائندے مئی 1947ء تک قائداعظم سے ملتے رہے اور ان کی دینی تربیت کرتے رہے جس کے نتیجے کے طور پر قائداعظم کا مولانا تھانوی کے گھرانے سے ایک پائیدار تعلق قائم ہوگیا۔ مولانا ظفر احمد عثمانی اپنی روائیداد میں لکھتے ہیں ”ایک مجلس میں قائداعظم سے کہا گیا کہ علماء کانگرس میں زیادہ ہیں اور مسلم لیگ میں کم۔ قائداعظم نے فرمایا ”تم کن کو علماء کہتے ہو“۔ جواباً مولانا حسین احمد مدنی، مفتی کفایت اللہ اور مولانا ابوالکلام کا نام لیا گیا۔ قائداعظم نے جواب دیا ”مسلم لیگ کے ساتھ ایک بہت بڑا عالم ہے جس کا علم و تقدس و تقویٰ سب سے بھاری ہے اور وہ ہیں مولانا اشرف تھانوی جو چھوٹے سے قصبے میں رہتے ہیں مسلم لیگ کو ان کی حمایت کافی ہے“۔


یہی وہ پس منظر تھا جس میں قیام پاکستان کے وقت جب 15اگست 1947ء کو پاکستان کے پرچم کی پہلی رسم کشائی ہوئی تو قائداعظم خاص طور پر مولانا شبیر احمد عثمانی کو ساتھ لے کر گئے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے تلاوت اور دعا کی اور پھر پاکستان کا جھنڈا لہرایا جسے پاکستانی فوج نے سلامی دی۔ یہ رسم کراچی میں پاکستان کے وفاقی دارالحکومت میں ادا کی گئی جبکہ مشرقی پاکستان کے صوبائی دارالحکومت ڈھاکہ میں مولانا شبیر احمد عثمانی کے بھائی اور مولانا اشرف تھانوی کے بھانجے مولانا ظفر احمد عثمانی نے پاکستان کا پرچم لہرایا۔


اس تحریر کا مقصد نوجوان نسل کو تحریک پاکستان کے ایک پہلو سے روشناس کرانا تھا جسے عام طور پر قابل ذکر نہیں کہا جاتا، اللہ بہتر جانتا ہے کہ میں اس مقصد میں کامیاب ہوا یا نہیں

تحریر : قائداعظم ڈاکٹر صفدر محمود.

2/19/2012

بے تکی باتوں کو چھ سال ہوئے!

19 فروری 2005 کو جب ہم نے “بے طقی باتیں، بے طقے کام” کے نام سے یہ بلاگ بنایا تھا تو ہم نہیں جانتے تھی کہ دراصل یہ بلاگ شے کیا ہے؟ سچی بات ہے یہ ناسمجھی اب بھی قائم ہے۔ ہمارے بلاگ پر پہلا تبصرہ دانیال نے کیا تھا۔

تب سے اب تک چھ سال ہو گئے بلاگنگ کے۔ اب چھ سالوں میں پانچ سو سے اوپر تحریریں لکھی جن پر قریب دو ہزار تبصرے ہوئے جن میں سے ساٹھ کے قریب تبصرے ہم نے سنسر کئے ۔

اکثر دوست اب بھی پوچھتے ہیں کہ بلاگ کا نام بے طقی کیوں ہے وجہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں آپ دوبارہ پڑھ لیں اور جس قدر تھوڑی بہت ہمیں انگریزی آتی ہے ہم نے یہ ہی جان پائے ہیں کہ Pensive کا مطلب سنجیدہ و گہری و اُداس سوچ و خیال ہوتا ہے اس مناسبت سے Pensive Man سے مراد ایک فکر میں ڈوبا ہوا فرد ہونا چاہئے۔

اس عرصہ میں ایک بار ہم بلاگ اسپاٹ سے ورڈ پریس کی طرف گئے اور اپنا کافی سارا ڈیٹا ضائع کر کے پھر بلاگ اسپاٹ کی طرف لوٹ آئے اور اب اس ہی کے ہو کر رہ گئے ہیں۔

اس عرصہ میں کئی ساتھی بلاگر نہایت عمدہ انداز تحریر و خیالات کے ہمراہ اردو بلاگنگ کا حصہ بنے اور غائب ہوئے۔ اس ہی سفر کی یادوں پر مشتمل “اردو بلاگرز” سے متعلق سوال جواب کا سلسلہ فیس بک کے اردو بلاگرز گروپ میں شروع کیا گیا ہے کیا بھی اس کھیل میں شریک ہو سکتے ہیں۔

اور کچھ درکار ہے؟

*بی بی سی اردو نے خبر لگائی “بلوچستان کی آزادی کے حق میں قرارداد” ہم نے یوں سمجھا “پاکستان کو توڑنے کے حق میں قرار داد”!! اپنی اپنی سمجھ و سوچ کی بات ہے۔۔

بلوچستان پر لکھنے والے اکثر یہ خیال کرتے ہیں کہ اہل بلوچستان سے باقی پاکستان کو کوئی ہمدردی نہیں مگر حقیقت ایسی نہیں! جن دشواریوں میں بلوچستان میں بسنے والے ہیں اُن کی مشکلات کا شکار باقی پاکستان ہے۔ کہتے ہیں موجودہ نئے بد ترین حالات کا آغاز بلوچستان میں 2004 سے شروع ہوا یہ تب ہی کی بات ہے جب پڑوس میں امریکی اُتر آئے تھے اور تازہ تازہ امریکیوں کا بھارت سے طالبان کے خلاف خفیہ اتحاد ہوا تھا اور را کو افغان سر زمین پر جگہ ملی مگر سچ یہ ہے کہ اُن پر الزام لگانے سے پہلے ہمیں اپنی کمزوریوں پر نظر رکھنی چاہئے۔

2007 سے پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر بلوچستان میں بیرونی مداخلت کا کئی مرتبہ ذکر کیا اور اس سلسلے میں بھارت کو قصوروار بتلایا مگر اتنی ہمت نہ کر سکے کہ نیٹو و امریکہ کو بھی شریک کار بتلائے۔ ہم بین الاقوامی معاملات سے نا واقف ہیں مگر امریکی ایوانِ نمائندگان میں ریپبلکن جماعت کے نمائندے ڈینا روبا کی پیش کردہ قرارداد کو ہر گز صرف ایک فرد کا ذاتی فعل سمجھنے سے قاصر !

ذاتی فعل بتاتے ہوئے ڈینا روبا کی پاکستان مخالفت بیان کرتے ہوں اس حرکت سے قبل بھی دو معاملات کا ذکر کیا جاتا ہے اول 2009 میں کانگریس میں کیری لوگر بل کے خلاف ووٹ ڈالنا دوئم گزشتہ سال پاکستان میں امداد روکنے کو “Defund United States Assistance to Pakistan Act of 2011” نامی بل ایوان نمائندگان میں پیش کرنا۔

ڈینا روبا سے آگے کی بات اس سلسلے میں یوں کہی جا سکتی ہے کہ اس سال پہلے مرتبہ 13 جنوری کو امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان Victoria Nuland نے بلوچستان کے معاملے میں اظہار ان الفاظ میں کیا!۔


The United States is deeply concerned about the ongoing violence in Balochistan, especially targeted killings, disappearances, and other human rights abuses. This is a complex issue. We strongly believe that the best way forward is for all the parties to resolve their differences through peaceful dialogue. We take the allegations of human rights abuses very seriously, and we have discussed these issues with Pakistani officials and also urged them to really lead and conduct a dialogue that takes this issue forward. Thank you

جسے اُس وقت ہی نیٹ پر کافی ڈسکس کیا گیا تھا۔

پھراسی سال 16 جنوری کو Louie Gohmert اور Dana Rohrabacher ایک تحریر “اوبامہ کی افغان پالیسی طالبان کو مضبوط کر رہی ہے” میں افغانستان میں انتہاپسند قوتوں سے نمٹنے کو پاکستان سے بلوچستان کی علیدگی کی تجویز ان الفاظ میں پیش کی۔


Perhaps we should even consider support for a Balochistan carved out of Pakistan to diminish radical power there also. Surely, leaving Afghanistan to the same terrorist thugs who enabled the September 11th attacks is the very definition of insanity.The way forward should not include the current Obama plan of putting our future in Taliban hands that are covered with American blood.


اس کے علاوہ 8 فروری کو کانگریسی بحث رکھی جس میں دیگر چار افراد کے ہمراہ علی حسن (ہیومن رائیٹ کمیشن، ڈائریکٹر پاکستان)بھی شریک تھے۔ جس میں آزاد بلوچستان کی تجویز بھی سامنے آئی اور اب یہ قرارداد۔ کیا اور کچھ بھی درکار ہے سالمیت پر حملے کو؟

2/14/2012

ویلنٹائن ڈے بارے

حقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ویلنٹائن ڈے پو 85 فیصد کارڈ خواتین خریدتی ہیں اور 15 فیصد مرد۔ کل خریداروں کی تیس فیصد تعداد ایسے ہے جو ایک سے ذیادہ کارڈ خریدتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق ویلنٹائن ڈے پر پھول خریدنے والوں میں 75 فیصد مرد اور 25 فیصد خواتین ہوتی ہیں جبکہ 18 فیصد خواتین ایسی ہیں جو خود اپنے لئے پھول خریدتی یا منگواتی ہیں خریدتی ہیں۔

قریب ایک تہائی مرد ویلنٹائن ڈے پر تحفہ وصول کرنے کے خواہش مند نہیں ہوتے اوی 22 فیصد کے قریب خواتین ایسی ہوتی ہیں۔

ہر ویلنٹائن ڈے پر قریب 55 سے 60 فیصد امریکن خواتین اس عزم کا اظہار کرتی ہیں کہ اگر اُن کے پاٹنر نے اُنہیں اس ویلنٹائن پر تحفہ نہ دیا تو وہ اُسے چھوڑ دے گی پھر بھی اکثر مردوں کی جان نہیں چھوٹتی اور اکثریت خواتین اپنے طور پر وجہ تراش کر انہیں معاف کردیتی ہیں۔

ویلنٹائن ڈے پر سب سے ذیادہ کارڈ بچوں کی جانب سے اپنے ٹیچر کو موصول ہوتے ہیں۔

ایک اور تحقیق کے مطابق ویلنٹائن ڈے کے موقعے پر کئی نو عمر بچے و بچیاں ویلنٹائن نہ ہونے پو احساس کمتری کا شکار ہوتی ہیں جن میں سے ایک مخصوص تعداد خودکشی کی کوشش بھی کرتی ہے۔

ایک رائے کے مطابق چالیس فیصد افراد ویلنٹائن سے متعلق منفی رائے رکھتے ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ 10 ملین افراد ویلنٹائن ڈے پر خریدا گیا تحفہ دراصل اپنے پالتو جانور کو دیتے ہیں۔

26 فیصدویلنٹائن ڈے کی مخالفت کرنے والے گھر کی چار دیواری میں کسی ناں کسی کو ہیپی ویلنٹائن کہتے ہیں اسی طرح 13 فیصد تعداد ایسی ہے جو صرف اپنے پاٹنر سے ویلنٹائن کی مخالفت کرتے ہیں۔

(اس کے علاوہ بھی انٹرنیٹ پر کئی دلچسپ فیٹ تھے مگر وہ قابل سنسر تھے لہذا اُن کا ذکر نہیں کر رہے)

2/10/2012

وجہ

پوچھتے کیا ہو؟

بہانے اور بھی بہت ہیں

بات! مگر بس اتنی ہے

مجھے محبت کرنی تھی
<
اُسے محبت ہونی تھی


(ذاتی چول)

2/07/2012

زخمی فرد کو میڈیکل سہولت

ناواقفیت کی بناء پر معاشرے میں کئی مرتبہ کچھ ایسی روایات جنم لے لیتی ہے جو نقصان کا باعث بنتی ہیں، اور عمومی طور پر ہم میں عام معاملات سے متعلق جستجو کی عادت نہیں ہے اس لئے بہتر تبدیلی کافی دشوار ہوتی ہے۔


ایک عمدہ حل اس سلسلے میں قانون سازی کا ہے مگر قانون سازی بھی ایسی ہو جس میں اول نہ تو کوئی سقم ہو کہ عملدرآمد مشکل ہو اور نہ ہی کچھ ایسا کہ نئی خرابی کو جنم دے۔ فرض کریں کہ قانون سازی میں کوئی خامی رہ گئی ہو تو پھر عدالت کا فرض بنتا ہے کہ اپنے فیصلوں سے کچھ ایسے اصول واضح کرے کہ وہ نقص دور ہو جائے۔


ایسی ہی ایک خامی جو ہم میں داخل ہو گئی تھی وہ کسی زخمی کی مدد نہ کرنا تھا۔ دلچسپ معاملہ یہ کہ کسی فرد کو جس قدر سخت چوٹ یا زخم لگتا اُس قدر دشوار اُس کے لئے ڈاکٹر کی سہولت حاصل کرنے میں پیش آتی یوں حادثہ کا شکار ہونے والا ایک اور حادثے سے روشناس ہوتا۔ جائے وقوع سے اسپتال تک اور پھر اسپتال میں ڈاکٹر تک ہر ایک پولیس کی تفتیش کے خوف سے مدد کو نہ آتا۔


اس لئے 2004 میں پارلیمنٹ نےInjured Person (Medical Aid) Act پاس کیا اس قانون کے ابتدائیہ میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ چونکہ طبی امداد(medical aid ) کے سلسلہ میں طبی قانون ( medico-legal ) کے بابت عمومی غلط فہمی ہے جس کی وجہ سے کئی جانوں کا نقصان ہو چکا ہے لہذا طبی امداد کے سلسلے میں یہ قانون پاس کیا جا رہا ہے۔ یہ قانون 14 دفعات پر مشتمل ہے۔


اس قانون کے تحت ایک(رجسٹر) ڈاکٹر جو کسی (رجسٹر) اسپتال میں ڈیوٹی پر ہو پابند ہے کہ کسی زخمی کو ابتدائی طبی امداد دینے کا پابند ہوگا کسی بھی قسم کی قانونی کاروائی کا انتظار کئے بغیر۔


قانون کی دفعہ 2 (d) کے تحت زخمی سے مراد کوئی بھی ایسا فرد جو کسی ٹریفک حادثے، حملے یا کسی بھی دیگر وجہ سے زخمی ہو ہو اور جسے فوری علاج کی ضرورت ہو۔


قانون کی دفعہ 7 کے تحت حکومت نوٹس گزٹ کرے گی جس میں آگاہ کیا جائے گا کہ کون سے ہسپتالوں میں ایمرجنسی کی سہولت ہے کہ وہ زخمی افراد کو طبی سہولت فراہم کر سکتے ہیں۔


قانون کی دفعہ تین کے تحت اسپتال میں لائے گئے فرد کو کسی بھی قسم کی قانونی پیچیدگیوں میں پڑے بغیر ترجیحی بنیاد پر طبی مدد فراہم کی جائے گی۔


قانون کی دفعہ چار کے تحت پابند کیا گیا ہے کہ جب تک زخمی فرد زیر علاج ہو کوئی پولیس افسر اسپتال کے انچارج کی تحریری اجازت کے بغیر مداخلت نہیں کر سکتا ایسی اجازت بھی تب ہی مل سکتی ہے جبکہ زخمی سے تفتیش اسپتال ہی میں ممکن ہو۔
قانون کی دفعہ پانچ کے تحت جب کوئی زخمی ایمرجنسی میں لایا جائے اور ڈاکٹر کے لئے زخمی کے عزیز کا انتظار ممکن نہ ہو تو وہ بلا اجازت اُسے طبی سہولت فراہم کرے یا آپریشن کر سکتا ہے، زخمی کے رشتہ دار کی موجودگی کی صورت میں اُس کی اجازت لے لینا بہتر ہے۔


دفعہ چھ کے تحت جب تک زخمی کی حالت سنبھل نہ جائے اُسے دوسرے اسپتال میں منتقل نہیں کیا جائے گا تاوقتیکہ اُس ہسپتال میں متعلقہ سہولت نہ ہو منتقل کرنے سے قبل متعلقہ ڈاکٹر تمام کاغذی کاروائی مکمل کرے گا اور تمام دستاویزات مریض کے ساتھ منتقل ہوں گی اگر ضروری ہو تو دوران سفر ایک ڈاکٹر مریض کے ساتھ رہے۔


دفعہ آٹھ کے تحت پابند کیا گیا ہے کہ کوئی پولیس والا کسی بھی حالت میں مریض کو پولیس اسٹیشن نہیں لے جا سکتا اور نہ ہی ڈاکٹر پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔


دفعہ نو کے تحت زخمی کو انسانی ہمدردی کے تحت اسپتال میں لانے والے کو ڈرایا نہیں جا سکتا اُسے اُن کا نام پتہ پوچھ کر اگر مناسب ہو تو شناختی کارڈ کی کاپی لے کے جانے دیا جائے ساتھ ہی وضاحت کر دی گئی اس بناء پر اُسے چھوٹ حاصل نہ ہو گی اگر وہ وجہ حادثہ ہوا تو۔


قانون کی دفعہ گیارہ کے تحت اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والا کو دو سال تک کی سزا و دس ہزار روپے جرمانے یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں مزید یہ کہ عدالت ڈاکٹر کے لائسنس کو منسوخ بھی کر سکتی ہے۔


یہ تحریر مفاد عام تحت لکھی گئی ہے ایک پرانے سلسلے کی کڑی کے طور پر

2/02/2012

Have a nice Date

یہ کہنا مشکل ہے کہ کون ٹھیک نہیں؟ مگر یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ کیا ٹھیک نہیں!مگر روکیے کیا ٹھیک نہیں اس کا تعین کرنا بھی اب ممکن نظر نہیں آتا! کیونکہ آپ کا ٹھیک ممکن ہے ہے میرا ٹھیک نہ ہو؟ اور میرا ٹھیک آپ کے لئے قابل برداشت نہ ہو۔ یوں غلط و ٹھیک کی تعریف ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی حد کو جا پہنچے۔

ہماری با حیثیت مجموعی کچھ ایسی عادت بن گئی ہے کہ ہم عمل کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ فرد کے دشمن ہو جاتے ہیں۔ معاشرتی طور پر کچھ ایسا مزاج بنا چکے ہیں کہ کسی کو غلط سے روکنے کے لئے غلط رستے کا انتخاب کرتے ہیں یا شاید ہم جو کرنا چاہتے ہیں وہ ظاہر نہیں کرتے۔

جب ہم ایل ایل بی میں پڑھتے تھے تو ایس ایم لاء کالج کے قریب ہی جیو چینل کا دفتر کھلا، اُن کے چند ایک پروگرام کی ریکارڈنگ وہاں ہوتی تھی، ہم ایک دو پروگرام کی ریکارڈنگ میں بطور ناظرین جاتے ان میں ایک پروگرام تھا “اُلجھن سلُجھن” عوامی مسائل پر گفتگو ہوتی تھی، ایک مرتبہ گئے تو ٹرک ڈرائیوروں کے “دلبروں” کی بات ہو رہی تھی۔ یہ ٹاپت نہایت واہیات لگا لہذا واپس کالج چلے گئے ایک مرتبہ پھر گئے تو خواتین کی آپسی کشش سے پیدا ہونے والے ممکنہ مسائل پر روشنی ڈالی جا رہی تھی گفتگو سن کر ہتھیلی تک میں پسینہ آ گیا جبکہ اسٹو دیو فل ایسی تھا۔ ٹاک شو میں ایسے ٹاپک پر ہونے والی گفتگو پر ہم نے جانے سے توبہ کر لی۔

جب کبھی ایسے افراد سے جو میڈیا میں ان ٹاپک پر بات کرتے سے بات ہوت کہ کیا ایسے پروگرام ہونے چاہئے یا یہ کہ ان ٹائمنگ میں ٹی وی پر چلنے چاہئے جس میں چلتے ہیں تو وہ بہت زور دار انداز میں اس کی حمایت کرتے اور انوکھا جواب یہ ہوتا کہ جب ہم نے اس مسئلے پر کام شروع کیا تو مولویوں نے بہت شور کیا ہمیں بہت مشکل پیش آئی مگر اب تو لوگوں میں “شعور” آ گیا ہے۔ میں اس argument سے کبھی بھی مطمئین نہیں ہوا۔

ان تمام باتوں کے باوجود ہمیں کبھی اُن افراد سے ذاتی نفرت نہیں ہوئی میرے چند ایک دوست (جو جانتے ہیں) حیران ہوتے ہیں کہ میری حلقہ احباب میں چند ایک ایسے افراد بھی رہے ہیں اور اب بھی ہیں جو ایسی سرگرمیوں میں مبتلا ہیں جو معاشرتی و اخلاقی اعتبار سے درست نہیں اور میرا اُن سے تعلق اُس وقت تک رہا جب تک کہ انہوں نے مجھے اُن عمل میں شریک کرنے کی کوشش نہ کی جب دعوت گناہ ہوا جو یا تو دعوت واپس لی گئی یا تعلق اختتام کو پہنچا۔ مگر کبھی کسی محفل میں ملاقات ہوئی تو ہیلو ہائے کر لی۔ اس بات پر ہم خود کو منافق بھی کہتے ہیں۔

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا میں مایا خان ہر طرف چھائی ہوئی تھی۔ معاملہ پارکوں میں چھاپے تھے۔ یار لوگ چھاپہ مارنے سے ذیادہ مایا خان کو ننگی گالیاں دینے میں ذیادہ دلچسپی لیتے نظر آئے۔ دوسری بات جو مجھے سمجھ میں نہیں آئی وہ یہ کہ عوامی مقامات پر کیا گیا کوئی عمل یا حرکت کسی کا ذاتی معاملہ ہوسکتی ہے؟ اگر ہاں تو کیسے؟ اور کس حد تک؟ خواہ وہ اُن کا لباس کا انتخاب ہو! ! گھر کی چار دیواری میں تو آپ کی privacy ہو سکتی ہے مگر گھر سے باہر اور عوامی مقامات پر اس کا تعین کرنا ایک متنازعہ معاملہ ہے۔ کچھ احباب اس سلسلے میں ملکی قانون تک اپنے رائے کا اظہار کرتے ہیں اور چند “انتہا پسند” مذہبی نقطہ نظر سے اس معاملے کو سُلجھانے کی کوشش کریں گے اور کچھ تو بین الاقوامی قوانین کو بھی اس سلسلے میں کھینچ لاتے ہیں۔

بین الاقوامی سطح پر یار لوگ International Covenant on Civil and Political Rights کی دفعہ 17 کا حوالہ دیتے ہے جو کچھ یوں ہے:

1. No one shall be subjected to arbitrary or unlawful interference with his privacy, family, home or correspondence, nor to unlawful attacks on his honour and reputation. 2. Everyone has the right to the protection of the law against such interference or attacks.

یعنی ہر کسی کو تحفظ حاصل ہے نجی معاملات میں کسی دوسری کی غیرقانونی مداخلت سے خواہ وہ خاندانی نوعیت کے ہو یا گھریلو یا کسی قسم کی کوئی خط و کتابت جبکہ ایسی مداخلت اُس کی معاشرہ میں مقام و عزت کو متاثر کرے. اب بھی یہ سوال باقی ہے کہ نجی معاملات کی کی وسعت کیا ہے؟ نجی معاملات میں وہ سے مراد وہ زندگی کے پہلو وہ خالص و بیادی طور پر فرد کی ذات سے متعلق ہیں۔

یوں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پرائیویسی کسی فرد کی زندگی کے وہ پہلو و تعلقات ہیں جو وہ نہ صرف عوام کی نظروں سے چھپا کر رکھنا چاہتا ہے بلکہ جس میں مداخلت اُس فرد کو قبول نہیں۔ اسے ایک بنیادی حق تسلیم کیا جا چکا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ پہلوو تعلقات جو کوئی فرد عوام سے چھپا کر رکھنا چاہتا ہے کیا عوام کے درمیان یا عوامی مقامات پر ظاہر کرے گا خواہ اُس کی کوئی بھی صورت ہو؟ ممکنہ جواب ہاں نہیں ہوسکتا مگر مباحث میں یہ ایک متنازعہ موضوع رہا ہے اور ممکن رہے مگر اکثریت مقامات پر جواب باں نہیں ہوتا، اگر مگر کے ساتھ چند احباب اسے ہاں کہہ دیتے ہیں۔

چار دیواری کے اندر ہونے والی حرکات تسلیم شدہ طور پر پرائیویسی کے ذمرہ میں آتی ہے اخلاقی، مذہبی، قانونی اور معاشرتی طور پر اسے تسلیم کیا جا چکا ہے۔ ملکی آئین کی دفعہ 14 اس ضمن میں قابل توجہ ہے۔

The dignity of man and, subject to law, the privacy of home, shall be inviolable.

اس ہی لئے جب پولیس کسی چاردیواری کے اندر سے “جوڑے” پکڑ کر ایف آئی آر کاٹتی ہے تو آغاز ایف آئی آر میں گھر میں داخل ہونے کی وجہ اُس عمارت میں مفرور ملزم کے موجود ہونا قرار دیتی ہے۔ مذہبی نقطہ نظر سے گھر کی چار دیواری میں کسی کی پرائیویسی میں دخل اندازی کی ممانعت کو سمجھنے کے لئے حضرت عمر کا وہ واقعہ ہی کافی میں جس میں رات کے پہر میں ایک گھر سے اس لئے معذرت کر کے باہر نکل گئے کہ اُن کا گھر کی چار دیواری میں تجسس کے زیر اثر بلا اجازت داخل ہونا غلط تھا جبکہ صاحب مکان کے پاس اُس وقت شراب و شباب موجود تھا۔

مایا خان پر ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ انہیں یوں اپنی ممکنہ اپنی اخلاقی اقدار کی تبلیغ کرنے کا اختیار نہیں یا نافذ کرنے کا۔ تبلیغ تو انسان کی فطرت بھی ہے اور بلا شک و شبہ جز ایمان بھی اور جن نظریات و اقدار کو آپ حق تسلیم کرتے ہو وہ خود با خود آپ پر لاگو ہو جاتی ہے۔ تبلیغ فطرت یوں ہے کہ اگر میں کہو کہ آپ اپنی اخلاقی اقدار کسی پر لاگو نہیں کو سکتے تو بنیادی طور پر میں اپنی اخلاقی اقدار کی تبلیغ کر رہا ہو اور چاہتا ہون کہ آپ اس” اخلاقی” اصول کو خود پر لاگو کریں۔

اس پورے معاملے میں ایک عنصر ایسا ہے تو قابل گرفت ہے اور وہ یہ کہ آیا کسی فریق کی عزت نفس مجروح ہوئی ہے؟ اگر ہاں تو مایا خان اس سلسلے مین قابل گرفت ہو گی مگر اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار ملکی عدالت کے پاس ہے عدالت کا دروازہ متاثرہ فریق ہی کھٹکا سکتا ہے آپ یا میں نہیں!

آخری بات یہ کہ اگر آپ چار دیواری میں اپنے پریمی کے ساتھ وقت گزارنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ہم آپ کو کہیں گے “Have a nice Date”.